میٹھا، مخلص ملتان

ہماری دنیا میں کئی شہروں، علاقوں کے stereotypes موجود ہوتے ہیں۔ آپ ان سے متفق ہوں یا غیرمتفق، ان کے دلچسپ اور غور طلب ہونے سے شایدانکار نہ کر سکیں۔ جیسے اہل لاہور کی زندہ دلی، پشتون مہمان نوازی، ہمارے کراچی کے دوستوں کی دو ٹوک Professionalism وغیرہ۔ ان stereotypes کے بارے میں ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر کسی خوش گمانی پر مبنی ہوں تو مان لینے میں ہرج نہیں۔

آج ارادہ لوک دانش کی اس قسم میں ایک اضافہ کی جسارت کا ہے۔ ایک مثل جو کبھی سنی تو نہیں لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ را ئج ہونی چاہیے۔ زکر خیر ہے خواجہ زکریا کے شہرملتان کا۔ ملتان سے ہمارا تعارف ہماری کاہلی کی وجہ سے ہوا۔ تقریباً ایک دہائی قبل کا یہ قصّہ یوں ہے کہ ہم پنجاب یونیورسٹی کے بی۔اے امتحان میں داخلہ جمع کروانے کچھ دن تاخیر سے پہنچے۔ گیارہ ماہ قبل ہی سمجھیں، اگلے سال کے امتحان کے لیے۔ پنجاب یونیورسٹی میں یہ خوشخبری سننے کے لیے اس دن ہم جیسے مزید ہونہار بھی موجود تھے۔ ان میں سے کسی نے اطلاع دی کہ بہاؤدین زکریا یونیورسٹی میں اب بھی داخلہ ممکن ہے۔ ایک بار پھر جنگل سے دو رستے نکل رہے تھے: ایک سال انتظار یا بہاؤدین زکریا یونیورسٹی۔ ہم نے باآوازبلند فرمایا: ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، چاہے بہاؤدین زکریا یونیورسٹی کی ہو یا پنجاب یونیورسٹی کی۔ (قریب کھڑے ایک جبرجنگ ڈاڑھی مونچھ والے بابا جی نے یہ سن کر کہا کہ کیا خوبصورت جملہ ہے! زرا لکھ دو، کہیں بھول نہ جاؤں۔ شاید فلم سکرپٹ میں استعمال کرنا چاہتے ہوں۔)

اب ہم تو کبھی ملتان نہیں گئے تھے۔ نہ وہاں کوئی رشتہ دار۔ لیکن وہ تو بعد کی بات تھی۔ پہلا کام داخلے کا حصول تھا۔ داتا کی نگری سے رات ساڑھے بارہ بجے چلنے والی شاہ شمس ایکپر یس ہمیں صبح ۶ بجے ملتان شریف لے آئی۔ جنٹلمین، بسم اللہ!

یونیورسٹی صبح۹ بجے کھلنی تھی۔ تب تک کا وقت گلگشت میں ناشتہ کرکے اور گھوم پھر کر گزارہ۔ یونیورسٹی میں ۹ بجے پہنچے تو دیکھا لمبی قطار سے بچنے کے لئے سمجھدار لوگ صبح ۸ ہی بجے آجاتے ہیں اور ماشاء اللہ ملتان میں سمجھدار لوگ وافر تعداد میں ہیں۔ ناچار، لمبی قطار میں لگ گئے۔ وقت گزاری کے لیے ساتھیوں سے گپ شپ فطری ہے۔ سو ہم نے بھی اپنے سے آگے کھڑے رفیق سے باتیں شروع کر دیں۔ پوچھا گیا، لاہور سے ملتان کیوں؟ بتایا گیا کہ لاہور سے ملتان کیوں۔ خوشدلی سے ہنستے ہوئے ہمارے دوست نے پوچھا کہ امتحانات کے دوران کہاں ٹھہروگے؟ عرض کی کہ کہیں ہوٹل یا کہیں کرایہ پر کمرہ، جو انتظام زیادہ مناسب ہوا۔ یہاں ہمارا ملتانی روح سے تعارف شروع ہوا۔ ارشاد ہوا کہ امتحانات کا دورانیہ تقریباً دو ہفتے ہوتا ہے، اس لیے ہوٹل میں قیام انتہائی مہنگا ہوگا۔ چونکہ ہمیں ملتان میں کوئی نہیں جانتا،خود سے کرایہ پر مکان حاصل کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگا۔ اس لیے ہمارے دوست، مبین، نے خود ہی ہمارے لیے کرایہ پر کمرہ ڈھونڈنے کا وعدہ کر لیا اور ہمیں ہمارا شکریہ سنبھال رکھنے کا مشورہ دیا تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

امتحانی سلپ موصول ہوئی اور ہم واپس ملتان ! ممتازآباد میں مبین کے گھر پہنچے۔ کمرہ کے بارے میں پوچھا تو مبین نے معذرت کی کہ ابھی تک نہیں ملا لیکن دو روز تک مل جائے گا۔ تب تک میرے پاس مہمان رہو۔ میزبانی کے علاوہ مبین نے ٹرانسپورٹ کے فرائض بھی سنبھل لیے۔ صبح ہم دونوں اپنے اپنے امتحان کے لیے اکٹھے نکلتے۔ مجھے گورمنٹ ولایت حسین کالج میں بنے میرے امتحانی مرکز اتار کر، مبین خود اپنے امتحان کے لیے چلاجاتا اور واپسی پر پک کرتا۔ کمرہ ہنوز دو دن دور رہا۔ یہاں تک کہ امتحان مکمل ہوا۔ یونیورسٹی کا بھی اور وہ بھی جو میرے دوست پر واجب نہ تھا۔

ڈگری ملی اور پھر نوکری چکر شروع ہوا۔ کام کے سلسلے میں ملتان بار بار جاناہوا اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑا۔ میں اب تک مبین کو ایک exception سمجھتا تھا۔ لیکن وہ تو ایک نمائندہ دانہ تھا۔ وہی دانہ جس سے دیگ کا اندازہ ہوتا ہے۔ سو دیگ زردے کی نکلی۔ سلطان سکندر اور طیب صاحب جیسے سینیئر کولیگ، جو اپنی شفیق عاجزی سے شرمندہ کر دیں۔ یا ڈاکٹرعاطف حسن جیسے حلیم استاد۔ یا پھر بھائی حسنین جمال جیسے مخلص ۔ خلوص در خلوص۔ مٹھاس سی مٹھاس۔ سو گرد، گرمی، گدا، گورستان سے ہٹ کر، یہاں کا خلوص اس وسیب کا تعارف بنایئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون مکمل ہوتا ہے۔ سپاس جاری رہے گا۔

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply