• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کا پلان اے، بی اور سی کیا ہے۔۔۔؟مشتاق خان

مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کا پلان اے، بی اور سی کیا ہے۔۔۔؟مشتاق خان

مولانا فضل الرحمان صاحب کے آزادی مارچ کے تین پلان ہیں، اے، بی اور سی ۔۔میں اس کا اردو ترجمہ پیش کرنا چاہتا ہوں اور پنجابی، فارسی، سندھی، بلوچی، ہندی، انگلش جاننے والے حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ اس پلان کا ترجمہ ان زبانوں میں بھی کردیں اور عوام کو پڑھنے کے لئے پیش کریں تاکہ اس آزادی مارچ کے مکمل مقاصد کو سمجھا جاسکے ۔

پلان اے تو وہی ہے جو تمام سیاستدان بشمول نواز شریف زرداری اے این پی وغیرہ تمام بیوروکریٹ ،تمام تاجر چاہتے ہیں کہ ملک میں آزادانہ منصفانہ انتخابات کروا دئیے جائیں تمام ادارے اپنے کام سے کام رکھیں اور جیسا نظام چل رہا تھا ویسا چلنے دیا جائے، بہت زیادہ امید ہے کہ  بیک ڈور رابطوں سازشوں اور انتظامات بتا رہے ہیں کہ پلان اے کامیاب ہوجائے گا اور عمران خان اکیلا یا عمران خان اور ان کے ذاتی ایمپائر ایک ساتھ استعفیٰ دے دیں گے اور تمام سیاسی جماعتوں کی تسلی کے مطابق الیکشن کمیشن تشکیل دے کر مکمل منصفانہ انتخابات کروا دیے جائیں گے ۔

پلان اے کی حد تک تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہے، لیکن مولانا فضل الرحمان صاحب کے آزادی مارچ کا مقصد صرف پلان اے نہیں  ہے، ان کی تیاری پلان بی اور سی کے لئے زیادہ بہتر انداز میں کی گئی ہے ۔

اگر ایمپائر پلان اے کی پرواہ نہیں  کرتا اور مولانا کے آزادی مارچ کو مار پیٹ ،ڈنڈے یا گولی سے منتشر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر مولانا اپنے پلان بی پر عمل شروع کر دیں گے۔۔ جس کے مطابق یہ مارچ پارلیمنٹ عدالتوں اور باقی تمام سرکاری اداروں کو طاقت کے زور پر کام سے روک دے گا تاکہ ایمپائر کو مجبور کیا جائے کہ  وہ مولانا کے مطالبات کو تسلیم کرلے ،اس پلان کی صورت میں ایمپائر کا استعفیٰ بھی لازمی شرط ہوگا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ایمپائر پلان بی کو بھی نہیں  مانتا اور اس مارچ کو اسلام آباد سے مار بھگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر ایمپائر کے خلاف مسلح جدو جہد کا آغاز کیا جائے گا جس کا نتیجہ صرف اللّٰہ ہی جانتا ہے، یہ میری سمجھ بوجھ کے مطابق کیا گیا ترجمہ ہے، جس میں  غلطی بھی ہوسکتی ہے، لیکن عوام کو مولانا فضل الرحمان صاحب کے پلان اے بی سی کا یہ ترجمہ ضرور پڑھنا چاہیے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply