قصہ ایک اعتکاف کا۔۔۔عبدالحنان ارشد

ایک قصہ سناتا ہوں۔ آپ بھی سنئیے، سر دھنیے، لطف لیجئے اور اس کو بالکل بھی نہ سمجھئے۔ بقول چچا غالب “ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی” اس قصہ کے متعلق میں بھی یہی چاہتا ہوں کوئی بھی اس کو سمجھنے کی  غلطی نہ کرے۔

کچھ سال قبل جب ہمارا ایمان کچھ بہتر حالت میں تھا۔ کیونکہ
انبیاء کا ایمان( یوں کہہ لیں ایمانی حالت) بڑھتا رہتا تھا، فرشتوں کا ایمان ایک جگہ قائم ہے اور ہمارا ایمان کبھی بڑھتا ہے تو کبھی کم ہوتا ہے۔ کبھی بندہ تہجد کی نفلی نماز تک بھی پڑھتا ہے اور کبھی ایک نماز بھی نہیں پڑھتا۔ ہمارا ایمان بھی ایک امتی کی طرح اچھی حالت میں تھا۔ یونیورسٹی سے بھی مکمل فراغت تھی،رمضان المبارک کو مزید قیمتی بنانے اور آخری عشرہ میں اللہ پاک کی رحمتوں اور برکتوں کو وافر مقدار میں سمیٹنے کے لیے، ہم نے رمضان کریم میں اپنے گاؤں والی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ گاؤں میں کیونکہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں، شہر والے شاید یہ بات کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ تو بات دراصل کچھ یوں ہے۔ ہمارے ساتھ اعتکاف کرنے والے سب کو ہی ہم جانتے تھے، وہ بھی ہمیں جانتے تھے۔ اعتکاف شروع ہوا تو پہلے دن سے ہی باقاعدہ طور پر مسجد میں اعتکاف کے دوران باجماعت غیبتوں کا دور چلنا شروع ہو گیا تھا۔ کسی نمازی کا کسی اور نمازی کے ساتھ اذان دینے پر مسئلہ تھا تو کسی کو اعتکاف والوں سے شکایت رہتی تھی۔ تو کوئی مسجد میں اذان دینے کے لیے اپنے ساتھ بندے لے کر آتا تھا۔ ہمارے مولوی صاحب بجائے اس کے کہ منصف بنتے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے انہوں نے بھی اس مسئلہ میں فریق بننے کو ترجیح دی۔ اُن سے بھی شکایت کیسی ہمارے یہاں منصفی کے عہدے پر براجمان لوگ ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر فریق بننے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
ہماری بچکانہ طبعیت اور بچوں پر شفقت کی وجہ سے ہم بچوں سے اور بچے ہم سے جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے دورانِ اعتکاف ہمارا فارغ وقت مسجد میں آنے والے چھوٹے بچوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ چاہے مسجد میں آنے والا بچہ پانچ سال کا ہو چاہے پندرہ کا سب سے ہمارا یارانہ بن گیا تھا اور اب بھی کبھی سرِراہ وہ سارے بچے ملیں تو نہایت ادب اور محبت سے ملتے ہیں، اور پوچھتے ہیں ہم پھر دوبارہ کب اعتکاف پر بیٹھ رہے ہیں۔
گاؤں میں مسجد میں ہمارے ساتھ ہی اعتکاف کرنے والے ایک حضرت جو تقریباً ہر سال مسلسل اعتکاف فرماتے رہے تھے۔ مسجد میں آنے والے بچوں میں ہماری بڑھتی ہوئی مقبولیت کے سبب وہ جناب بچوں کو ہمارے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا کرتے تھے کہ یہ وہابی(احباب جانتے ہوں گے گاؤں میں اپنے سے مختلف والے کو وہابی ہی کہا جاتا ہے) ہے اس کے پاس نہ بیٹھا کرو، خود تو خراب ہے ہی تمہیں بھی خراب کر دے گا۔ اور ہمیں بٹھا کر الگ سے نصیحتیں فرماتے کہ بچوں کو پاس نہ بٹھایا کرو۔ اپنی عبادات پر دھیان دیا کرو۔ بچے ایسے ہی مسجد میں آ کر شور کرتے ہیں مسجد کا پررونق ماحول خراب کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات وہ یہ بات کرتے ہوئے بھول جاتے تھے کہ غیبت سے مسجد کا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ یا شاید انہیں اس معاملے میں (استثنا) حاصل تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن ہم اور وہ بچے کہاں کسی کی سننے والے تھے۔ اعتکاف والے دیگر احباب کو ہم جب بھی کوئی بات بتاتے تو وہ پہلے جا کر اُن حضرت سے کنفرم کرتے کہ ایسے ہی ہے کہیں یہ بے عقیدہ ہمیں بھی ہمارے عقیدے سے تائب نہ کردے۔ سادہ لفظوں میں یوں سمجھیں ہم نے اس اعتکاف میں کچھ حد بڑوں سے تعلق بگاڑا اور بچوں سے خوب تعلق بنایا۔
بس آپ یہ سمجھیں انہوں نے ہمارے ساتھ اور ہم نے اُن کے ساتھ نہایت کھٹن اور مشکل ترین دس دن گزارے۔ شوال کا چاند نظر آنے کے بعد انہوں نے ہم سے اور ہم نے اُن سے بچھڑنے پر شکر ادا کیا۔ اور اپنے گھر کی راہ لی۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply