برانکس کے چڑیاگھر کی چیف پیتھولوجسٹ کو 1999 میں پریشانی لاحق تھی۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ چڑیا گھر کے قریب کوے مردہ پائے جا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ پرندوں کا کوئی نیا وائرس شہر میں پھیل رہا تھا۔ کہیں یہ وائرس چڑیا گھر میں تو نہیں آ جائے گا؟ ان کا خوف ٹھیک نکلا۔ اچانک یہ تین فلیمنگو مر گئے۔ پھر ایک چکور، ایک عقاب اور ایک بگلا۔ مک نمارا نے مردہ پرندوں کا معائنہ کیا۔ یہ سب دماغ سے خون نکلنے کے سبب مرے تھے۔ یہ علامات بتا رہی تھیں کہ پیتھوجن ایک ہی ہے۔ کونسا؟ یہ معلوم نہیں تھا۔ انہوں نے ٹشو لے کر سرکاری لیبارٹری میں تجزیے کے لئے بھیجے۔ ان پر ایک کے بعد دوسرے ٹیسٹ کئے جاتے رہے۔ ہفتوں تک کچھ نہیں نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف نیویارک کے علاقے کوئنز میں دماغ کی سوزش کے کیس تشویشناک حد تک بڑھ رہے تھے۔ پورے نیویارک میں ایسے سالانہ نو کیس آتے تھے۔ اب ایک ہی ویک اینڈ پر اگست 1999 میں کوئنز میں آٹھ کیس آئے تھے۔ مزید کیس آتے رہے۔ کچھ کو اس قدر تیز بخار ہوتا تھا کہ جسم مفلوج ہو جاتا تھا۔ ستمبر تک نو افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ اس کی وجہ معلوم نہیں ہو رہی تھی۔ ایک وائرس کی نشاندہی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چڑیاگھر کی پیتھولوجسٹ مک نمارا کو اپنے سوال کا جواب ملنے میں کچھ پیشرفت ہو رہی تھی۔ آئیوا میں لیبارٹری میں ایک پرندے کے ٹشو سیمپل سے وائرس اگا لینے میں کامابی ہوئی تھی۔ مک نمارا نے سنٹر فار ڈزیز کنٹرول کو قائل کیا کہ ان وائرس کے جینیاتی میٹیریل کا تجزیہ کیا جائے۔ 22 ستمبر کو محققین اس کی تہہ تک پہنچ گئے۔ یہ ویسٹ نائل وائرس تھا۔ جو اس سے پہلے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں پرندوں اور انسانوں کو متاثر کرتا تھا۔کسی نے اس وائرس کا سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی موجودگی اس جگہ ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ ان برِاعظموں میں کبھی دیکھا ہی نہیں گیا تھا۔
نیویارک میں انسانوں کو متاثر کرنے والے وائرس کا تجزیہ کیا گیا تو یہاں پر بھی یہی وائرس تھا۔ اس سے پہلے نہ ہی شمالی اور نہ ہی جنوبی امریکہ میں کوئی بھی انسان ان سے متاثر ہوا تھا۔ چڑیا گھر کے میدان میں مردہ کوے اور نیویارک کئ ہسپتال کے مریض ان نئے باسیوں کی آمد کا اعلان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان امریکاز کے برِاعظموں میں پندرہ ہزار سال پہلے پہنچے اور اپنے ساتھ کئی وائرس لائے جیسا کہ پاپیلوماوائرس۔ اس وائرس میں اس قدیم انسانی ہجرت کے نشان ملتے ہیں۔ پتا لگتا ہے کہ انسان کس راستے سے امریکہ گیا تھا۔ کولمبس کی اس نئی دنیا کی دریافت اپنے ساتھ وائرس کی ایک نئی لہر یہاں لے کر آئی۔ یورپ سے یہاں پر فلو اور چیچک جیسے وائرس پہنچے جنہوں نے مقامی آبادی میں بڑی تباہی مچائی۔ اگلی صدیوں میں مزید وائرس آئے۔ ایچ آئی وی 1970 کی دہائی میں آیا۔ بیسویں صدی کے آخر میں ویسٹ نائل امریکہ میں ہجرت کر کے آنے والا نیا مہمان تھا۔ یہ صرف چھ دہائیاں پہلے دنیا میں پہلی بار دریافت ہوا تھا جب 1937 میں یوگنڈا میں ایک خاتون ایک نامعلوم بیماری سے بخار میں مبتلا تھیں ار ڈاکٹرواں نے ان کے خونس ے نیا وائرس الگ کیا تھا۔ اگلی دہائیوں میں، سائنسدانوں کو یہی والا وائرس مشرقِ وسطیٰ، ایشیا اور آسٹریلیا میں ملا۔ یہ بھی دریافت ہوا کہ ویسٹ نائل وائرس اپنی بقا کے لئے انسانوں پر منحصر نہیں تھا۔ یہ پرندوں کی کئی انواع میں بھی تھا جہاں یہ کہیں زیادہ تیزی سے پھیل سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے معلوم نہیں ہوا کہ وائرس کی منتقلی کا طریقہ کیا ہے۔ ایک انسان سے انسان میں، ایک پرندے سے پرندے میں یا ایک انسان سے پرندے میں یہ کیسے پہنچتا ہے۔ یہ راز اس وقت افشا ہوا جب اس وائرس کا پتا ایک بہت ہی مختلف جانور میں ملا۔ مچھر۔ جب وائرس والا مچھر پرندے کو کاٹتا ہے تو اپنے لعاب کے ساتھ اس میں ویسٹ نائل وائرس بھی داخل کر دیتا ہے۔ وائرس پہلے پرندے کی جلد کے خلیوں پر حملہ کرتا ہے اور امیون سسٹآ پر۔ یہ لمف نوڈ میں پہنچ کر مزید امیون سیل متاثر کرتے ہیں۔ اور خون میں پھیل جاتے ہیں۔ چند ہی روز میں یہ اربوں کی تعداد میں ہو چکے ہوتے ہیں لیکن پرندے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ان کو ویکٹر کی ضرورت ہے۔ پھر ایک مچھر بیمار پرندے کو کاٹ کر اس کا خون حاصل کر لیتا ہے جس کے ساتھ وائرس بھی اس کے پاس آ جاتا ہے۔ مچھر میں جا کر یہ اس کی چھوٹی آنت پر حملہ کرتا ہے۔ یہاں سے یہ اس کیڑے کے لعاب کے غدود میں پہنچتا ہے اور نئے پرندے میں داخل کئے جانے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
اس قسم کے وائرس کو اپنی زندگی کا چکر مکمل کرنے کے لئے ہر فن مولا ہونا چاہیے۔ مچھر اور پرندے بہت ہی مختلف قسم کے میزبان ہیں۔ ان کا درجہ حرارت مختلف ہے۔ امیون سسٹم مختلف ہیں۔ اناٹومی مختلف ہے۔ ویسٹ نائل وائرس کو ان دونوں الگ ماحول میں رہنے اور زندگی کا چکر مکمل کرنے کی صلاھیت چاہیے۔ اور اس قسم کے ویکٹر بورن وائرس ڈاکٹروں کے لئے اور امراض کی روک تھام کرنے والوں کے لئے بڑا چیلنج ہیں۔ ایک میزبان سے دوسرے تک پہنچنے کے لئے ایک دوسرے کے قریب آنے کی ضرورت نہیں۔
مچھر ایسے وائرس کو طاقتِ پرواز دے دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرقی یورپ میں اس کی وبا 1996 میں رومانیہ میں پھیلی۔ نوے ہزار لوگ بیمار ہوئے۔ سترہ کی ہلاکت ہوئی۔ امریکہ پہنچے ہوئے اسے اتنی دیر کیوں لگی؟ اس کی وجہ یہ کہ یہ انسانوں کے سفر سے منتقل نہیں ہوتا۔ یہ نیویارک میں کیسے لینڈ کیا؟ غالباً پالتو پرندے سمگل کرنے والوں سے جو اسرائیل سے نیویارک پرندے لائے گئے تھے۔
ایک بیمار پرندہ یہ وبا نہیں پھیلا سکتا کیونکہ اس کو ایک نیا ویکٹر درکار تھا۔ یہ مچھر کی 62 انواع میں رہ سکتا ہے۔ جو امریکہ میں اس کو میسر آ گئیں اور میزبان پرندے بھی مل گئے۔ کئی روبن، بلیوجے اور فنچ اس کے لئے اچھے میزبان تھے۔
چار سال میں یہ پرندے سے مچھر سے پرندے تک پھیلتا رہا اور پورے امریکہ میں پھیل چکا تھا۔ کہیں کہیں انسانوں کو بھی بیمار کرتا جاتا تھا۔ 85 فیصد کو کوئی علامات نہیں ہوتیں۔ باقی پندرہ فیصد کو بخار، خارش اور سردرد ہوتی ہے۔ اور ان میں سے ایک تہائی کو ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ 150 میں سے ایک کو دماغ کی سوزش ہوتی ہے جو مہلک ثابت ہوتی ہے۔ اس سے اگلے دس سال میں یہ 1131 لوگ مار چکا تھا۔
سردیوں میں مچھر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پھیلاوٗ ختم ہو جاتا ہے۔ پرندوں میں رہتا ہے۔ اگلی بہار اور پھر اس کا چکر دوبارہ شروع۔
اس کا شکار ہونے والوں کی تعداد مچھر سے پھیلائی گئی دوسری بیماریوں سے کم اس لئے ہے کہ یہ انسان سے مچھر میں منتقل نہیں ہوتا۔ مچھر اس کو انسان سے نہیں اٹھا سکتے۔ ممالیہ حادثاتی میزبان ہیں۔
اس کی کوئی ویکسین بنائے جانے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ کوئی علاج نہیں۔ اور غالباً، اسے ختم کرنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ زیادہ بارشوں، زیادہ حبس والے موسم میں یہ زیادہ پھیلتا ہے کیونکہ ایسا موسم مچھر کے لئے معاون ہے۔
گرم ہوتی زمین کے ساتھ موسموں کے بدلتے پیٹرن کئی اقسام کے وائرس کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ نئی جگہوں کو اپنا گھر بنا لینے والا ویسٹ نائل وائرس اپنی پرواز پروں کے ذریعے کرتا ہے۔ جہازوں کے، پرندوں کے اور مچھروں کے۔ یہ اب دنیا کے بڑے حصے میں پایا جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں