کابل کے قصائی کی واپسی۔۔سید انور محمود

افغان صدر اشرف غنی نے افغان حکومت کے خلاف لڑنے والے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے ساتھ امن معاہدہ کرلیا ہے۔ اس طرح جنگی جرائم کی تاریخ رکھنے والے اور گزشتہ کئی برسوں سے روپوش اس لیڈر کا سیاست میں واپسی کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔گلبدین حکمت یار جو افغانستان کے سابق وزیراعظم ہیں، 1947 میں صوبہ کندوز، شمالی افغانستان میں پیدا ہوئے، پہلے ملٹری اکیڈمی اور پھر کابل یونیورسٹی سے اپنے شدت پسند نظریات کی وجہ نکال دیے گئے۔حکمت یار اپنی طالب علمی کے دور میں بے پردہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں ملوث رہےہیں۔حکمت یار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک انتہائی سخت زندگی گزاری ہے اور ان کے حامی ’مجاہدین‘ افغانستان میں خانہ جنگی کے دور میں ہزاروں انسانی ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔ ماضی کی دہشت گرد کارروائيوں، القاعدہ کی حمايت اور 1990 کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل پر راکٹ حملے کرنے کی وجہ سے حکمت يار کو افغانستان ميں عوامی سطح پر ناپسند کيا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسے‘کابل کے قصائی’ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

افغانستان پرسوویت حملے کے بعد امریکا سے لاکھوں ڈالر کا سرمایہ اور ہتھیار ترسیل کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا، تو کابل کا قصائی بھی ڈالر جہاد میں شریک ہوگیا۔حکمت یارکا شمار ان متنازعہ ترین شخصیات میں ہوتا ہے جو طالبان کے ساتھ مل کر ابھی تک حکومت مخالف کارروائیوں میں مصروف رہے ہیں۔ گلبدين حکمت يار اور اس کی پارٹی حزب اسلامی کو اقوام متحدہ نے غير ملکی دہشت گرد تنظيموں کی فہرست ميں شامل کر رکھا ہے۔ خود حکمت يار کو امريکا نے 2003 ميں ’عالمی سطح کا دہشت گرد‘ قرار ديا تھا۔ چالیس سالہ جنگ کے بعد اب کابل کا قصائی گم نامی کے اندھیروں سے نکلنے کی کوشش میں ہے۔ امن معاہدے پر دستخط کرنے کی تقريب افغانستان ميں ٹيلی وژن پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔ پچيس نکات پر مشتمل يہ امن معاہدہ حکمت يار اور ان کے حاميوں کو ان کی سابقہ سرگرميوں کے خلاف قانونی کارروائی سے استثنیٰ بھی فراہم کرتا ہے۔افغانستان ميں طالبان کے ساتھ 2001 میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد حکومت کے خلاف لڑنے والے کسی گروپ کے ساتھ کابل حکومت کا یہ پہلا امن معاہدہ ہے۔

اس امن معاہدئے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے اقوام متحدہ اور امريکا سے درخواست کی ہے کہ حکمت يار اور ان کی جماعت کا نام کالعدم افراد اور تنظيموں کی فہرست سے خارج کر ديا جائے۔ دوسری جانب امریکا نے کہا ہے کہ وہ اس گروپ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہے لیکن وہ اس معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اپنے سابق وفادار کے لیے ايک امريکی اہلکار کا کہنا ہے کہ حکمت يار اور حزب اسلامی کے خلاف عائد پابنديوں کے خاتمے کے حوالے سے کابل حکومت کی کسی بھی درخواست کا کافی سنجيدگی سے جائزہ ليا جائے گا۔ امریکی اہلکار نے مزید کہا کہ ’’اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل يہ فيصلہ کرتی ہے کہ کسی فرد پر عائد پابندياں اب درکار نہيں اور افغانستان ميں امن و استحکام کے مفاد ميں بھی نہيں، تو ہميں بھی اس کا جائزہ لينا پڑے گا‘‘۔

پاکستان میں حکمت یار کو پہلے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بعد میں جنرل ضیاالحق نے اپنامہمان خاص بنایا تھا۔ بھٹو نے سردار داؤد کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے باوجود بھی حکمت یار کو بچاۓ رکھا گیا۔ جب سردار داؤد کا تختہ الٹا کر کمیونسٹ اقتدار میں آۓ تو حکمت یار نے اپنی وفاداریاں امریکہ کے پلڑئے میں ڈال دی۔ افغانستان میں روس کی مداخلت کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے وقت ڈالر جہاد میں وہ امریکہ سے ڈالر وصول کرتے رہے، امریکی ان پر اس قدر مہربان تھے کہ ڈالر دینے کے علاوہ ان کو ہیروئین کے کاربار کی اجازت بھی دئے دی تھی جبکہ پاکستان میں وہ جنرل ضیاالحق کےنورنظر اور جماعت اسلامی کے چہیتے تھے۔حکمت یار روسی افواج کے خلاف اپنے ہی ملک میں امریکی میزائل جہاد سمجھ کر داغ رہے تھے۔روس کے خلاف ڈالر جہادکے نتیجے میں لاکھوں افغان گھر بار چھوڑ کر پاکستان، ایران، ہندوستان، یورپ اور امریکہ میں پناہ گزین ہوگئے ۔ بیس لاکھ کے قریب لوگ مارئے گئےاور لاکھوں معذور ہوئے ۔

افغانستان کی تباہی کی رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوئی جب روسی فوج افغانستان سے نکل گئی اور کابل میں مجاہدین کہلانے والے جنگجوؤں کی آمد ہوئی۔ آٹھ دھڑوں میں بٹے ان نام نہاد مجاہدین نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ افغانستان کے اندر سڑکیں، نہری نظام، زراعت سمیت ہر شے تباہ ہوگئی اور ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ۔ خون خرابہ، مار دھاڑ اور لاقانونیت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا اور ایسے میں گلبدین حکمت یار وزیر اعظم بھی رہے مگر کابل سمیت پورے افغانستان میں رقص ابلیس جاری رہا۔ حکمت یار سمیت مجاہدین کہلانے والے حکمرانوں کو اس وقت راہ فرار اختیار کرنا پڑی جب ان سے بڑئے دہشت گرد طالبان نے افغانستان میں ملا عمر نامی ایک دہشت گرد کی سربراہی میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ گیارہ ستمبر 2001 کے امریکہ پر حملوں تک طالبان کا دور بھی افغانستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے جب یہاں سخت گیر موقف رکھنے والے طالبان نے حکومت بنا کر اقلیتوں، عورتوں اور دیگر کمزور طبقات کے ساتھ ظلم و استبداد جاری رکھا۔

امریکہ کے کابل آنے کے بعد افغانستان کی بربادی کا ایک اور دور شروع ہوا اب جنگ کابل سے پاکستان میں داخل ہوئی، اور طالبان دہشت گردی میں باقاعدہ ملوث ہیں۔ اب خودکش حملے، دھماکے، اغوا، قبضہ اور منشیات افغانستان اور پاکستان کے نئےمسائل ہیں۔اگرچہ پاکستان کی حکومت نے افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا کہ پاکستان افغان نمائندوں کی قیادت میں افغان مسئلے کے حل پر یقین رکھتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ اس امن معاہد ے پر دستخطوں کے خلاف کابل میں عوامی احتجاجی مظا ہرے ہوئے ہیں اور کابل میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنان نے حکمت یار کو معافی دینے اور ان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر افغان حکومت کے خلاف احتجاج کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسے مجرموں کو معافی نہیں دی جا سکتی جنھوں نے اپنے ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہو۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے حزب اسلامی کے ساتھ اس امن معاہدے کے بڑے اثرات پیدا ہونا ممکن نہیں۔ افغانستان کے اندر حکمت یار اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے باعث اب کمزور ہوچکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکمت یار جو اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور وہ ایسے کسی معاہدے سے ملکی سیاست میں اہمیت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں جبکہ کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ حکمت یار کے یقینی طور پر افغان سیاست کے سرگرم افراد سے تعلقات ہیں اور ان کا فائدہ اشرف غنی حکومت کو حاصل ہو سکتا ہے۔

گلبدین حکمت یار جو وفاداریاں بدلنے میں بہت ہی مفاد پرست ہے اور جس کی تاریخ یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں سے جو وعدہ کیا تھا اس کو بھلا بیٹھا تھا۔ پاکستان کو آنے والے دنوں پر افغانستان کے اوپر گہری نظر رکھنی ہوگی کیونکہ افغانستان کا پورا جھکاو بھارت کی جانب ہے جبکہ اس امن معاہدے میں سب سے زیادہ دلچسپی افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ لے رہا تھا، جس کے بارئے ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ پکا بھارت نواز ہے۔حال ہی میں افغانستان نے سارک کانفرس میں بھارت کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے نومبر میں پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرس کے بایئکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے بھارت جو آئے دن بلوچستان میں گڑبڑ کرواتا رہتا ہے، کابل کے قصائی گلبدین حکمت یار کی واپسی کا فاہدہ اٹھاکر اسے پاکستان کے خلاف استمال کرسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کا مضمون نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply