عقیدوں کی کھائی

سبط حسن گیلانی
گزرے دور کے سیانوں کا کہنا تھا۔ جو کسی دوسرے کے لیے گڑھا کھودتے ہیں خود اُسی میں گرتے ہیں۔ ایسے معقول محاوروں کی سچائی قدم قدم پر ثابت ہوتی ہے۔ مگرلوگ غور کہاں کرتے ہیں۔دو دن قبل سوشل میڈیا پر ایک اقلیتی فرقے کے مذہبی رہنما کاوڈیو پیغام نشر ہو رہا ہے۔جس کی بعد میں موصوف نے تردید بھی کر دی ہے۔ لیکن ایسا بیان اپنی تردید سمیت اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گیا۔ ایسے سوالات جن کے معقول اور مدلل جوابات حاصل کیے بغیر اب یہ معاشرہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔پروفیسر موصوف کا کہنا ہے۔ جن چار سینیر ترین جرنیلوں کو آنے والے چیف آف آرمی سٹاف کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کا عقیدہ جملہ مسلمانوں کی اکثریت سے مختلف ہے۔کیا ہماری فوج کا آئندہ چیف ایک غیر مسلم ہو گا؟۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا نام اس لسٹ سے خارج کیا جائے۔انہوں نے بڑی قطعیت سے کہا ہماری فوج کا سربراہ غیر مسلم نہیں ہو سکتا۔ایسا کرتے وقت موصوف نے آئین اور تاریخ کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔حالانکہ پاکستان کے آئین میں صرف صدر مملکت اور وزیراعظم کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ جبکہ پاکستان کی سول سوسائٹی کا ایک طبقہ اسے جمہوریت کی روح کے منافی سمجھتا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اس لیے اس سے صرف نظر کرتے ہوے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کیا پاکستان کا آئین کسی قومی و آئینی ادارے کے سربراہ پر بھی ایسی قدغن لگاتا ہے؟۔جواب ہے با لکل نہیں۔ جبکہ اسی پاکستانی فوج کے پہلے دونوں سربراہ غیر مسلم رہ چکے ہیں۔ جنرل میسروی اور جنرل گریسی۔
پروفیسر موصوف نے جس جنرل کو جس عقیدے کی بنا پر فوج کا سربراہ نہ بن سکنے کا حکم سنایا ہے اسی فرقے کے لوگ ماضی میں نمایاں عہدوں پر کیوں فائز رہے؟۔ کیا پروفیسر موصوف بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے زیادہ اس ملک و قوم کے خیرخواہ ہیں؟جب قائد اعظم نے سر ظفراللہ کو متحدہ پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اس وقت وہ سر ظفراللہ کے عقیدے سے واقف نہیں تھے؟۔ کیا کسی ملک کا وزیر خارجہ منصب کے اعتبار سے آرمی چیف سے کم رتبے کا حامل ہوتا ہے؟۔اصل سوال یہ ہے ۔ کیا کارکردگی اہم ہے یا عقیدہ؟۔ہم سوتے جاگتے جس قائد اور اقبال کے پاکستان کاذکر کرتے کبھی تھکتےنہیں۔ کیا کبھی سوچا ہے ان کے نزدیک ایک مجوزہ مملکت کا انتظامی ڈھانچہ کیا تھا؟۔قائد نے سر ظفراللہ کو وزیر خارجہ اور جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون مقرر کرتے ہوئے ان کے مذہبی عقائد سے صرف نظر کیوں کیا؟۔ کیا یہ ان کی غلطی تھی یا عقیدہ ان کے نزدیک فرد کا ذاتی معاملہ تھا۔قائد اعظم خود ایک اقلیتی مسلم فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔پروفیسر صاحب ذرا دل بڑا کر کے اس فرقے کے بارے میں بھی لب کشائی فرما دیں تو قوم پر احسان ہو گا۔علامہ اقبال خود اور ان کا خاندان اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جو اس وقت اس عقیدہ پرست طبقے کا معتوب ہے۔البتہ علامہ اقبال نے بعد میں رجوع کر لیا تھا۔کیا پروفیسر موصوف ہمیں بتائیں گے کہ اقبال نے اس فرقے کے عقائد سے رجوع کرتے وقت دوبارہ کلمہ شریف کس مفتی کے پاس جا کر پڑھا تھا۔
آئیے تاریخ کے ورق پلٹتے ہیں۔ خواجہ نذیر احمد کا بیان ہے کہ اقبال نے 1897میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔انہی خواجہ نذیر احمد اور جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ بشیرالدین محمود کے بیان کے مطابق علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد نے مرزا غلام احمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔علامہ اقبال کے بڑے بیٹے جاوید اقبال کئی سالوں تک قادیان میں زیر تعلیم رہے۔1901میں علامہ اقبال نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تقریر کرتے ہوے فرمایا، پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ایک جماعت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جسے لوگ قادیانی جماعت کہتے ہیں۔یاد رہے 1901ہی وہ سال تھا جب مرزا صاحب نے ایک مجدد سے اپنا رتبہ بڑھا کر خود کو ظل نبی قرار دیا تھا۔علامہ اقبال اپنے ان خیالات و عقائدپر تقریباً 36سال قائم رہے۔جی ہاں 1897سے لیکر1934تک اتنا ہی عرصہ بنتا ہے۔ 1934میں علامہ اقبال نے ایک کتابچہ لکھا جس میں اس جماعت کے عقائد کو اسلام مخالف لکھا۔خواجہ نذیر احمد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد جو کہ اقبال سے بے تکلف تھے اس کتاب کو دیکھنے کے بعد ان سے پوچھا۔ او یار تیری بیعت دا کی ہویا؟۔علامہ نے جواب دیا۔ اوہہ ویلا ہور سی ایہہ ویلا ہور اے ۔ اس وقت کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کے خیالات میں تبدیلی مذہبی سے زیادہ سیاسی تھی۔ انہوں نے ہوا کا رخ دیکھ لیا تھا۔ ایک وجہ تو جماعت احرار کی اس فرقے کے خلاف ایک منظم اور بھرپور تحریک تھی۔ دوسری وجہ سرظفراللہ کے ساتھ سیاسی مفادات کا ٹکراو تھا۔1934میں ہی ہند کے وزیر لارڈ زیلمنڈ نے سر ظفراللہ کی کارکردگی سے متاثر ہو کر انہیں سر فضل حسین کی جگہ وائسرائے کی ایگزکٹو کونسل کی مستقل رُکنیت کی پیشکش کی۔جبکہ علامہ اقبال اس منصب کے امیدوار تھے۔یہاں سے مایوس ہو کر ہی انہوں نے پنجاب کے گورنر کے دفتر کو کشمیر کے راجے کے دربار میں کسی منصب کی درخواست کی تھی جس مین انہوں نے اپنا آبائی نسلی تعلق کشمیر سے ظاہر کیا۔
اب حوالہ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ۔ جلد پنجم۔ باب ، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا۔ مصنف زاہد چوھدری۔ ا ب ذرا ایک نظر پاکستان کی مسلح افواج پر۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ ،لیفٹیننٹ جنرل عبدل علی ملک،لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک،سکواٖڈرن لیڈر منیراحمد،ایر مارشل ظفر چوھدری۔ میجر جنرل عبدل حئی، ایر کماڈوربلونت کمار،ایر کما ڈورایرک مغل،ایر وائس مارشل مائکل جان اوبراے،ایر کماڈور نذیر لطیف ستارہ جرات، ایر کما ڈور سیسل چوھری دو مرتبہ ستارہ جرات، یہ بہت طویل فہرست ہے۔ اس وقت یہی چند ایک نام لکھ رہا ہوں اس لیے کہ ایک مضمون طوالت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ سارے وہ ہیں جن کے مذہبی عقائد اکثریت سے الگ تھے۔ ان لوگوں نے پاک افواج میں بڑے بڑے اہم عہدوں پر کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ مذہبی عقائد سے قطع نظر یہ سب کے سب میرے ہیرو ہیں۔ان میں سے بہت ساروںکا خون اس مٹی میں شامل ہے۔ سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا پا کستان تھوڑی ہے میں نے مندجہ بالا باب میں علامہ اقبال کا جس حوالے سے ذکر کیا کوئی مت سمجھے میں نے ان پر کوئی تنقید کی ہے۔ یہ تنقید نہیں تاریخ ہے جو گذشتہ تمام عرصے میں عوام سے چھپائی جاتی رہی، تاکہ استحصالی قوتیں مذہب اور عقیدے کی آڑ میں لوگوں کو گمراہ کر کے بلا خوف و خطر اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل سکیں۔
علامہ کا کسی عقیدے سے منسلک رہنا بعد میں اس سے رجوع کر لینایہ ان کا ذاتی معاملہ تھا۔جن لوگوں نے اس رجوع کو مذہبی نہیں سیاسی سمجھا ۔ ان سے اتفاق یا اختلاف ہر کسی کا حق ہے۔ علامہ کی اہمیت ان کے علمی درجے اور ان کے فنِ شاعری کی وجہ سے ہے۔وہ ایک عظیم مدبر اور ایک عظیم شاعر تھے۔ان کے فکرو فن سے اتفاق یا اختلاف بھی لوگوں کا حق ہے۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہماری سابق غیر جمہوری مقتدر قوتوں نے ملک و قوم کو جمہوری راستے سے بھٹکا کر جس فرقہ واریت کو ہوا دی وہ آگ آج شعلے بن کر ہمارے درو دیوار کو جلا رہی ہے۔ عقیدوں کے نام پر اختیار کیا گیا نشیب کا سفر آج ہمیں ایک کھائی میں گرا چکا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ ہمارے حکمران طبقے کو، اس کھائی میں گرنے والی ہم پہلی قوم نہیں ہیں۔ لیکن پہلی اقوام نے اس سے نکلنے کا ایک راستہ پا لیا تھا۔مذہب کو ریاست کے معاملات سے الگ کرنے کا ایک مہذب اور کارآمد راستہ۔جس میں دونوں کا بھلا ہے۔ مذہب کا بھی اور ریاست کا بھی۔ہماری سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور منتخب حکومت یہ بات پلے سے باندھ لے۔ جب تک ہم مذہب کو سیاست سے الگ نہیں کرتے اندھیروں کے اس سفر سے روشنیوں کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتے۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply