گھمن، مقتول اور بین۔۔۔انعام رانا

لوگ کہتے ہیں کہ ادیب تو بس جھوٹی کہانیاں لکھتے ہیں۔ سنا ہے اپنے ممتاز مفتی مرحوم کی بیگم تو انکو ساری عمر کوسنے دیتی رہیں کہ کیوں جھوٹ لکھ لکھ کر اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔ مگر کیا ادیب واقعی بس کہانیاں لکھتے ہیں؟

بہت برس بیتے کہ ایک افسانہ پڑھا تھا۔ ایک بیوہ ماں اور جوان بیٹی طاقتور بھائیوں کی پناہ میں تھیں۔ بھائی ماں پر جان دیتے تھے اور بہن کے ناز اٹھاتے۔ مگر پھر بہن کو کسی سے محبت ہو گئی، غلطی کر بیٹھی۔ بھائیوں کی غیرت جاگی اور رات کے اندھیرے میں بہن ماری گئی، بیوہ ماں کچھ نہ کر سکی بس خاموش ہو گئی۔ ایسی ساعتوں میں بیوہ مائیں اکثر طاقتور بیٹوں کے آگے بے بس ہو کر ساتھ مل ہی جاتی ہیں۔ خیر کئی سال گزرے اور ایک بیٹے کی بیٹی جوان ہو گئی۔ جوانی آپ جانتے ہیں منہ زور بھی ہے اور نادان بھی، بوڑھے ہوتے بیٹے کی یہ نوجوان بچی بھی نادانی کر گئی۔ غیرت پھر جاگی اور اب کے بیوہ کے پوتوں نے اپنی بہن کو غیرت پہ وارنا چاھا، مگر باپ آڑے آ گیا اور اپنی بیٹی کو بچا گیا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ، سالوں سے خاموش بیوہ اس رات بیٹی کا نام لے لے کر بین ڈالتی تھی کہ “کاش تیرا بھی باپ زندہ ہوتا تو تُو اس رات ماری نہ جاتی، غیرت پہ قربان نہ ہوتی”۔

آج سے قریب سات ماہ قبل جب ایک دینی شخصیت نے مجھے سمیعہ خاتون کے خط کی کاپی دے کر مضمون لکھنے کو کہا تو میں نے انکار کر دیا کہ گند میں پتھر کیوں ماروں۔ پھر جب مفتی ریحان نے خط اور آڈیو کلپ دئیے چار دن قبل تو پھر انکار کر دیا۔ وجہ ایک تو یہ تھی کہ مفتی ریحان کی کہانی نہ بطور ادیب مجھے متاثر کر سکی نہ بطور وکیل۔ دوسرا، یہ کہ میرے لکھے کو ایک ملحد، شیعہ، لبرل، قادیانیوں کے وکیل یا برطانوی ایجنسیوں کے پر وردہ کی اسلام کے خلاف سازش سمجھا جائے گا۔ اور آخری یہ کہ اپنے اوپر بیان کردہ تمام الزامات کے باوجود مجھے تہمت لگانے سے خوف آتا ہے کہ میرا رب اس معاملے میں بہت سخت ہے۔ سو میں اس سے دور رھا۔ مگر بطور مدیر میں اس سے دور نہیں رہ سکا جب میرے دوست سبوخ نے اپنے اطمنان کے بعد یہ شائع کر دیا(اب میرے والے سب الزام وہ سہے گا) اور یہ عوامی موضوع بن گیا، سو مکالمہ پر بھی یہ تحاریر میری ذاتی کراہت کے باوجود آ گئیں۔ الزام اور دفاع میں آپکو رنگ برنگی تحاریر نظر آئیں گی ہر سائیٹ پر سوائے انکے جو خوف میں ہیں کہ یا اللہ یہ سارا قصہ ہمارا کمبل چرانے کیلیے ہی نا ہو۔ اس قصے کی صداقت یا عدالت تو خیر وقت بتائے گا مگر میں ایک سوچ میں ہوں۔

دفاع میں کئی علما، ہم مسلک ساتھیوں اور گھمن صاحب کے دور بلوغت کے دوستوں نے نکتہ آفرینیاں کی ہیں کہ ثبوت لائے جائیں، تفتیش کی جائے، عدالت جایا جائے، “ذہین متکلم اسلام” کے معاملے کی سرچ اور ریسرچ کرائی جائے اور معاملہ علما کو حل کرنے دیا جائے۔ بتایا جا رھا ہے کہ اللہ کو بلاتحقیق و ثبوت الزام لگانا کتنا ناپسند ہے۔ (دوست بھول گئے کہ مصاہرت میں ثبوت نہیں ہوتا، تنہائی کی طلاق سمیت کئی معاملات میں عورت کی گواہی کافی سمجھی جاتی ہے)۔

اسی ملک میں کتنے ہی لوگ مارے گئے، توہین مذہب، توہین رسالت کے الزام لگنے پر۔ انکے قتل کیلیے ان ہی منبروں سے صدائیں لگائی گئیں جن کے پائے آج سوشل میڈیا نے تھرا دئیے ہیں اور جو اپنا بویا کاٹ رہے ہیں، یہ ہی قابل قدر علما حکومت کے بجائے فرد کو انصاف کرنے کی حمایت کرتے نظر آئے اور لوگ محض الزام پر بدنام ہوے، دربدر ہوے، زندہ جلائے گئے، قتل کئیے گئے اور قاتلین شھید قرار پائے۔ نا تفتیش ہوئی نہ ثبوت کی مانگ، کسی نے بلوغت سے جرم تک کے کردار کی گواہی مانگی، نہ سنی اور نا ہی مانی؛ بس خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک اور آگ ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دل کرتا ہے آج اس بیوہ ماں کی طرح بین ڈالوں اور رو رو کر پکاروں کہ او مذہب کے نام پہ قتل کیے جانے والوں، تمھارا بھی کوئی اپنا مولوی ہوتا تو تم مارے نہ جاتے، مذہب کی دیوی پہ قربان نہ کیے جاتے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”گھمن، مقتول اور بین۔۔۔انعام رانا

  1. khuda ki kasam dil ki baat keh di, ab yeh maulana hazrat saboot mangtay han or kasmain khatay hain or kehtay hain faisla qanoon k mutabik hona cheehaye. zalimo tab tumhari zubanain q gang reh gayee
    .theen jab toheenay mazhab or ghairat kay naam per baygunah qatal ho rhay thay. abhi bhee sudher jaoo warna maeray Allah ki lathi bari bay awaz ha or vo sirf or sirf mazloomon ka khuda ha.

  2. جب یہ لوگوں کے گھر اور بستیاں جلاتے تھے،لوگوں کو سڑکوں پہ گھسیٹ گھسیٹ کر اذیتیں دے دے کر مارتے تھے تب ہمارے جیسے جاہل،پاگل اور قادیانیوں کے ایجنٹ یہی کچھ کہتے تھے جو یہ اب کہہ رہے ہیں کہ بھئی اس ملک میں عدالتیں موجود ہیں،گواہ اور ثبوت لاؤ اور قانون کو اپنا کام کرنے دو مگر یہ لوگ آگےسے قرآنی آیات اور احادیث سنا کر ہمیں چپ کروا دیتے تھے،کاش ہم نے بھی ان کی طرح چھ چھ سال کا درس نظامی کیا ہوتا تو کم از کم آج انکو انھی کی زبان میں چپ کروانے جوگے تو ہوتے

Leave a Reply