ہمارے مسائل اور ہمارے دانشور۔۔۔۔ مبارک انجم

مجھے اپنے دانشوروں سے سخت گلہ ہے۔ ٹی وی، اخبارات ھوں یا سوشل میڈیا، ہمارے دانشور بس مسائل کے تجزیوں میں، ان میں نئے نئے نکات ڈھونڈھنے میں، یا ان پہ صفائیاں دینے میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔

،سوشل میڈیا پہ الیاس گھمن سکینڈل زبردست ہاٹ ایشو بن گیا، ہمارے فیسبک کے دانشور حضرات نے اس پہ خوب لکھا اور خوب داد بھی سمیٹی۔ میں مسلسل تین سے فیرینڈ لسٹ میں موجود دوستوں کی وال، مکالم، اور دلیل جیسی بڑی ویب سائٹس اور مختلف گروپس اور پیجز پہ بہت سارے دانشوروں کے خیالات پڑھ رہا ہوں اور انگشت بدنداں ہوں۔  اسی طرح اس پہلے جنگ، را ایجنٹ، الطاف حسین، مفتی قوی، قندیل بلوچ، اور ان سے پہلے،قصور سکینڈل، پانامہ.سکینڈل، وغیرہ جیسے سیکڑوں ایشو بھی پڑھ چکا ہوں۔ ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی ایشو ہو، ہمارا میڈیا تو وہی کرتا ہے جو اسے کرنا چاہئے یعنی اس پہ بات کرنے کا موقع فراہم فراہم کرتا ہے، اس میں اگر چہ میڈیا کو اپنی ریٹنگ بھی مطلوب ہوتی ہے مگر یہ تو میڈیا پروفیشن کا تقاضا ہے اور انکا حق بھی،لہٰذا میڈیا سے مجھے کوئی گلہ نہیں ہے ـ گلہ تو دانشوروں سے ہے جو کہ در حقیقت دانشور نہیں محض ڈیبیٹر یا لکھاری یا مناظر ہیں، مگر اپنے زور بیاں کی بدولت دانشور قرار پا چکے ہیں۔  اب الیاس گھمن والے ہی ایشو کو لے لیں، اس ایشو پہ الیاس گھمن کے حق میں اور مخالفت میں مضامین کی بھر مار ہے۔ ماہرین نے اپنے تجزیوں،  مدارس کے پورے سلسلوں ، مولوی کی پوری سائکالوجیاں، اور انگنت ایسے واقعات تک سنا ڈالے ھیں جنکی قطعاً ضرورت نہیں تھی. اسی طرح صفائی دینے والوں نے الیاس گھمن کا بچپن، بلوغت اور تعلیمی ادوار ، اور جانے کیا کیا بیان کر دیا الیاس گھمن کو درست ثابت کرنے کے لئے… اور یہ سب کرنے والے عام لوگ نہیں سوشل میڈیا کے سب سے جانے مانے دانشور لوگ ہیں، جن میں مکالمہ کے لئے لکھنے والے بڑے نام قاری حنیف ڈار، رعائت اللہ فاروقی، شاد مردانوی، نور درویش، اور وقاص خان جیسے نام، اور دلیل کے لئے لکھنے والے بھی کئی بڑے نام شامل ہیں۔ انکی باتیں پڑھ کے محسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ واقعی کچھ بھی اپنی پسند سے بیان کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ یہ لوگ سب کچھ بیان کر سکتے ہیں مگر نہیں جو بیان کر سکتے توان سلگتے مسائل کا حل نہیں بیان کر سکتے۔

 یہی حال ہمارے ٹی وی کے دانشوروں کا بھی ہے۔ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ یہ مسائل ہمارے ملک میں بنتے اور پنپتے ہیں، جو منظر عام پہ آ جاتے ہیں وہ تو گنتی میں ہیں لیکن جو سامنے نہیں آ پاتے وہ انگنت ہیں۔  قاری ڈار صاحب کے بقول، وہ خود ایسے بہت سے کیسز کے چشم دید گواہ ہیں، اسی طرح ھم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے علاقہ میں ایسے بہت سے واقعات سنتا ہی رہتا ھے۔ تعلیمی اداروں میں مدارس وہ جگہیں ہیں جہاں ایسی سرگرمیاں سب سے کم ہوتی ہیں اور ہمارے سکولز ، کالجز، یونیورسٹیز، دفاتر،اور گلی محلوں وغیرہ میں ان واقعات کی تعداد مدارس سے کہیں زیادہ ہے۔  قصور سکینڈل جیسے واقعات ا نکے علاوہ ہیں، یعنی یہ ہمارے بلکل سامنے کی بات ہے کہ یہ کسی فرد کا ، ادارے کا مسلہ نہیں ہے بلکہ یہ اس ہمارے پورے نظام کا پرابلم ہے جو اس طرح کے حالات پیدا کرنے کے مواقع برابر فراہم کر رہا ہے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دانشور اس نظام کو بدلنے کا شعور دیں، ان بنیادی وجوہات کو تفصیلی بیان کریں جو ایسے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔ اپنے معاشرتی اور تعلیمی و تربیتی نظاموں کو درست کرنے کی سوچ خود بھی اپنائیں اور اسکو ہی فروغ بھی دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مانا کہ یہ آسان کام نہیں ہے لیکن کیا ہم کوئی ضروری اور اہم کام فقط اس لئے چھوڑ دیں کہ وہ آساں نہیں ہے؟؟ دوستو، حالات بدلنے ہیں تو نظام بدلنا ہوگا، ورنہ ایسے ہی ہاٹ ایشوز آتے رہیں گے اور بنا کسی نتیجہ کے جاتے بھی رہیں گے۔ جیسے قصور سکینڈل چلا گیا، قندیل بلوچ سکینڈل چلا گیا، ایان علی کیس چلا گیا۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے، کہ تالیاں بجاتے رہنا ہے یا کچھ درست بھی کرنا ہے۔ ،

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply