لازمی شادی ایکٹ بل، اور ملکی معیشت۔۔رابعہ الرَباء

جب سے ہم نے ملکی معیشت کی ترقی میں شامل ایک پنجرے میں جبری طور پہ پانچ مرغیوں اور ایک مرغے کو دیکھا ہے۔ تب سے ہمیں یقین تھا انسانوں کے لئے بھی کچھ ایسا ہی جبری بل آ نے والا ہے۔ مگر بل نے آ تے آ تے دیر کر دی۔ لہذاہم کہہ سکتے ہیں “دیر ہوئی آ نے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آ ئے تو”۔

گویا خیال یہ ہے کہ اس کی منظوری سے ریپ اور فحاشی میں کمی ہو گی۔ مگر یہ کم علمی کے سِوا کچھ نہیں ہے۔ اس سے  جبری ریپ میں اضافہ ہو گا۔ کیونکہ پہلے تو جبری شادیاں ہو نگی۔ پھر نوجوان لڑکوں کے نیٹ سے دیکھے چڑھے خمار کا تجربہ کرنے کو ایک مفت کا ساتھی مل جائے گا۔ جس سے  جنسی مسائل کم نہیں،زیادہ ہو نگے۔ کیونکہ ہم نے تجربہ گاہ میں بغیر تربیت دئیے بندر چھوڑ دینے ہیں۔

اس کے بعد ملک میں جو آ بادی بڑھے گی ، اس کا ذمہ دار اور کفالت کرنے والا کون ہو گا۔ کیا حکومت سندھ ؟۔۔جو اپنے صوبے میں پانی کے مسائل حل نہیں کر پا رہی۔ وہ اس آ بادی کے لئے وظیفے مقرر کر ے گی؟ کیا یہ شادیاں مدرسوں کے اندر بھی ہونگی؟ وہا ں تو شادی شدہ مجرم موجود ہیں۔ خیر شادی شدہ مجرم تو باہر بھی موجود ہیں۔

لیکن کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ ریپ کرنے والے اکثر باہر کی بچی یا عورت کا انتخاب کرتے ہیں۔ تا کہ نہ  تو ان سے پوچھ گچھ  ہو، نہ مقدمہ بن سکے۔ اور رشتے میں تو انسیت کی مہک آ جاتی ہے بھلے ایک فی صد ہی سہی۔ اور یہ مہک ظلم کا لطف نہیں لینے دیتی۔ ریپ ایک جرم ہے۔ اور ریپ کرنے والا ذہنی مریض۔ ہم اس کا علاج نہیں کروانا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کو خواراک مہیا کر دی جائے۔ تا کہ وہ عادی مجرم بن جائے۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کینیڈا میں بے گھر ذہنی مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جو مختلف مالز میں جا کر ان کا آ ئے دن نقصان کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں ذہنی صحت کے حوالے سے مسلسل تحقیقی کام ہو تا رہتا ہے۔ اور حکومت اس کی پذیرائی کرتی ہے۔

یہ لازمی شادی ایکٹ بل بے گھر انسانوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بنے گا۔ کیا بل پیش کرنے والے افراد کی نظر ملک کی معشت اور سماجیات پہ نہیں ہو تی۔؟ یا وہ اس ملک کی قوم کو تجربہ کا خام سمجھتے ہیں۔ یا ان کی عقل کی معراج ہی اتنی ہو تی ہے یا طاقت کا خمار ہی اتنا ہو تا ہے کہ آ ئیں اور جو بل چاہیں اسمبلی میں پیش کر دیں۔

یا سوچ کی پروازاس سے بلند ہے کہ آ ئندہ چندہ ماہ میں ہم لازمی شادی ایکٹ بھیک پروگرام سے استفادہ کر نا چاہتے ہیں۔ جہیز اور بری کے فنڈ عالمی اداروں سے لینا چاہتے ہیں۔ ارے ہمارے ہاں تو غریب والدین بچوں کو پیدا ہی اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے بڑھاپے کا سہارا ہونگے۔ ان کا سہارا کون ہو گا ،وہ یہ تو کبھی سوچتے ہی نہیں۔ یہ بل بھی ایسا ہی کوئی بڑھاپے کا سہارا سا لگتا ہے۔ جو غریب والدین کو یہ سوچنے پہ مجبور کر دے گا کہ اگر وہ اٹھارہ سال میں بچے کی شادی نہ کر سکے تو جرمانہ ہو گا۔ اس لئے بچے ہی پیدا نہ کئے جائیں۔ خالی شادی کر لی جائے۔

یوں مستقبل قریب میں ہمارا ملک بھی چین،اٹلی اور جاپان کے مقابل آ جائے گا جہا ں بزرگوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اور ملک کو چلانے والے ہاتھ کم ہو نگے۔

اگرچہ بختارو بھٹو زرداری نے بیان دیا ہے کہ ہم بل کو مسترد کر دیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم کچھ دن بعد ایسا لطیفہ کیو ں چھوڑتے رہتے ہیں۔ جسے ملک میں ہلچل کی کیفیت ہو جائے۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا ابھی بجلی کے بلوں کی طرف توجہ دیں۔ گرمی آ گئی ہے اور   عوام کی اکثریت  غربت کی پٹی کو چھورہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply