• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کامیاب ایشیائی بلاک میں انڈیا کہاں ہو گا؟ ۔۔۔۔ عمیر فاروق

کامیاب ایشیائی بلاک میں انڈیا کہاں ہو گا؟ ۔۔۔۔ عمیر فاروق

ایشیا جوہری تبدیلیوں کی زد میں ہے لیکن حیرت تب ہوتی ہے جب قرنوں کی غیر حاضری کے بعد واپس آنے والے وادی سندھ کے پرسکون اور با اعتماد رویہ کے برعکس تجربہ کار دہلی ان تبدیلیوں میں گھبراہٹ آمیز بھونچال پیدا کرتا ہے۔ ہمارا اشارہ پچھلے چند ہفتوں میں ہونے والے غیر معمولی واقعات کی طرف ہے۔ انڈیا کے رویے نے خطہ میں تو بھونچال پیدا کیا لیکن اردگرد کی طاقتوں کو لازماً حیران بھی کیا ہے۔ اس کی وجہ محض مودی یا ہندتوا کو قرار دینا سطحی پن ہوگا۔ اس کی گہرائی اور گیرائی کو سنجیدگی سے ناپنے کی ضرورت ہے تاکہ پیش آمدہ واقعات پہ اس کے ردعمل کا اندازہ ہوسکے کہ آنے والا وقت نہایت اہم ہے ۔ ایسے فیصلے جن کے بعد واپسی کا راستہ نہیں ہوتا۔ بھارت میں ایک خاص طرز فکر موجود ہے جس کی جڑیں نائن الیون میں موجود ہیں۔ وہ طرز فکر کیا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش سے قبل ضروری ہے کہ ہم حالیہ تبدیلیوں پہ نئی دہلی کے فیصلوں پہ نظر ڈال لیں۔

کچھ عرصہ قبل ایران اور انڈیا کے چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدہ کی خبر آئی تھی۔ جس پہ انڈین میڈیا نے یہ بتایا کہ چاہ بہار سے ایران نے انڈیا کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک کاریڈور دینے کا فیصلہ کردیا ہے جو سی پیک کا مقابل اور متحارب ہوگا۔ ہمارے ہاں اس پہ جس طرح یقین ہوا اور گرما گرم بحثیں شروع ہوئیں، وہ الگ معاملہ لیکن خبر کی حقیقت یہ تھی کہ یہ ایران کا اپنا فیصلہ تھا ۔ان کا مسئلہ یہ تھا کہ کئی بار انہوں نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی تو دی لیکن وہ ایسا کرنہیں سکتے تھے کیونکہ ان کی واحد بندرگاہ، بندر عباس آبنائے ہرمز کے پار واقع ہے اور اس صورت میں ان کی بھی تجارت بند ہوجاتی۔ دوسرے یہ گہرے پانیوں کی بندرگاہ ہے بھی نہیں جہاں بڑے جہاز لنگر انداز ہوسکیں تو چاہ بہار ان کی ضرورت تھی۔ مزید یہ کہ بعینہ سی پیک کی طرح وہ روس سے نارتھ ساؤتھ کاریڈور کا معاہدہ کرچکے تھے جس میں براستہ آذربائیجان ماسکو سے ایران تک راستہ تعمیر کرنا تھا۔ ان حالات میں انڈیا کو چاہ بہار کا ٹھیکہ دینے میں کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔

اوّل یہ کہ وہ پابندیوں کے دور میں انڈیا کو ادھار تیل بیچتے رہے اور انڈیا ادائیگی کے معاملہ میں ان سے پابندیاں اٹھنے تک معذرت کرتا رہا۔ انڈین فرم کو ٹھیکہ دینے میں انہیں یہ سہولت تھی کہ اپنی جیب سے ادائیگی کی بجائے وہ انڈین گورنمنٹ کو کہہ سکتے تھے کہ مذکورہ فرم کو اس کھاتہ سے ادائیگی کی جائے۔ اس کے ساتھ اہم ترین مقصد تھا انڈیا کو امریکہ کے کیمپ میں شامل ہونے سے روکنا اور روس اور ایران کے کیمپ میں رکھنا۔ اس لئے انہوں نے اشارہ دیا کہ انڈیا کو نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سی پیک اور نارتھ ساؤتھ کاریڈور دو متوازی اور الگ الگ ایشیائی پراجیکٹ ہوتے جو حتمی طور پہ یوریشائی پراجیکٹ کا حصہ بن جاتے۔ یوریشائی پراجیکٹ نیٹو کو ایس سی او کے ممالک سے ملاتا ہے اور ایس سی او کی روح یہ ہے کہ یہ ایشیائی نیٹو ہے۔ اس اتحاد میں روس اور چین تو روح رواں ہیں ہی اور وسطی ایشیا بھی اس کا حصہ ہے۔ حالیہ دور میں پاکستان اور انڈیا کو آزمائشی طور پہ اس میں شامل کیا گیا۔ انڈیا کی شمولیت پہ چین کا اعتراض تھا لیکن روس کے اصرار پہ شامل کیا گیا۔ روس کا ویژن یہ تھا کہ بشمول انڈیا یہ تمام خطہ ایسے معاشی اور دفاعی انتظام میں شامل ہو جس میں غیر ایشیائی قوتوں کی جگہ نہ ہو۔ بعینہ یورپ کی طرز پہ۔ یہی وجہ تھی کہ انڈیا کو یہ آفر کی گئی تاکہ امریکی کیمپ میں شامل ہونے کی وجہ نہ ملے۔ باقی یہ آپ نے بھی دیکھ لیا کہ انڈیا نے اسے کس طرح پراجیکٹ کیا۔ میڈیا میں ایک انڈین فتح کے طور پہ اور اس کا حتمی انجام کیا نکلا؟ ایران کوسی پیک کا حصہ بننا پڑا۔

اسی طرح دوسری مثال کو بھی دیکھ لیں روس کی پاکستان سے فوجی مشقیں طے شدہ تھیں لیکن اس سے پہلے انڈیا نے روس پہ ان کو منسوخ کرنے کے لئے خط لکھا جو مسترد ہوا۔ اس استرداد کے باوجود انڈین میڈیا میں یہ بتایا گیا کہ انڈیا کے دباؤ پہ روس نے یہ مشقیں منسوخ کردی ہیں۔ اس پہ روس کا برافروختہ ہونا جائز تھا انہوں نے اسے اپنے خلاف میڈیا وار سے تعبیر کیا۔ پاکستان کے معاملات میں تو ہم نے دیکھ ہی لیا کہ انڈین میڈیا نے کیا بتایا اور حقیقت کیا نکلی؟ یہاں ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کیونکہ انڈیا کے ضمن میں خواہش اور خبر کا فرق مٹ چکا اور حقیقت و تخیل کے درمیان لکیر معدوم ہوتی نظر آتی ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ اور اس کے نتائج کیا مرتب ہوسکتے ہیں؟ اس ضمن میں شکریہ یا نہ شکریہ امریکہ کا، نائن الیون سے قبل انڈیا کا میڈیا کچھ اور تھا لیکن اس کے بعد امریکی بیانیہ کو وہاں بہت سنجیدگی سے لیا گیا جس کے اجزا یہ تھے۔ یہ واقعتاً دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے(وسطی ایشیا کے ذخائر و پٹرولیم سے استفادہ مکمل نظر انداز) ۔ تمام مسلمان ملک دہشت گردی کا شکار ہیں، جو قدرتی ہے کیونکہ یہ مذہب ہی دہشت گردی سکھاتا ہے اور اب اپنی اندرونی دہشت گردی کا شکار ہوکے خود اندر سے ہی گر جائیں گے بشمول پاکستان۔ لہذا پاکستان سے بات کرنے یا اس کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں اگر بات کرنی بھی ہو تو صرف دہشت گردی پہ کرو۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے چین کا نمبر دوسرا ضرور ہے لیکن امریکہ کی مدد سے ۲۰۳۰ تک انڈیا چین سے آگے نکل جائے گا(روس کی واپسی کا کوئی ذکر نہیں) ایران اور روس ماضی کے اتحادی تھے، روس معاشی طور پہ مجبور ہے اور اس کی واحد آمدن اسلحہ کی فروخت ہے جو امریکہ کے معیار کا نہیں اور ایران دوسرا مسلم ملک ہے جو کسی بھی وقت اپنے اندر کے جہادیوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ لہذا انڈیا ان کی ضرورت ہے یہ ممالک انڈیا کی ضرورت نہیں۔ المختصر انڈیا سپر پاور ہے۔

یہ سوچ انڈین میڈیا سے ٹرانسفر ہوکے اس کے عوام ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازوں کے ذہن پہ بھی مسلط ہوچکی ہے۔ اسی لئے روس اور ایران کو ٹھکرایا گیا کیونکہ ذہن میں یہ چیز موجود تھی کہ ہم ناگزیر ہیں۔ ناگزیریت کی یہ سوچ عالمی سیاست یا سفارتکاری میں امریکی پہلے ہی اپنا چکے تھے جس کو امریکی یہ کہتے تھے کہ ہم واحد عالمی طاقت کے طور پہ ناگزیر ہیں یعنی کہ ہم بیک وقت دو متحارب طاقتوں سے دوستی رکھ سکتے ہیں اور دونوں ہم سے انکار نہیں کرسکتے اسی طرح ناراضی پہ ہم دونوں یا سب کو دھمکی دے سکتے ہیں کہ آپ اگر ہمارے ساتھ نہیں تو ہمارے دشمن ہیں۔

الغرض یہ سوچ انڈین میڈیا کے توسط سے انڈین عوام ہی نہیں بلکہ پالیسی سازوں کے ذہن میں نقش ہوچکی ہے اور یہ وجہ ہے ان کے حد سے گزرے جارحانہ رویہ کی۔ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ یوکرائن سے لیکر پاکستان تک تین طاقتوں کا میدان جنگ بنا ہے جس میں امریکہ مسلسل پسپائی اختیار کررہا ہے اور اپنی جگہ داعش جیسے گروپوں یا اپنے دوستوں کا مقامی اتحاد بناتے ہوئے پسپا ہورہا ہے۔ افغانستان کا ٹھیکہ بھی انڈیا کو دے دیا گیا ہے(غیر علانیہ)۔ ان حالات میں جبکہ ایس سی او کے ممالک امریکہ کو افغانستان سے نکالنے اور شام کی مدد کرنے کا ایجنڈا لے کے بیٹھیں گے تو انڈیا کا موقف کیا ہوگا؟

کیا گوا میں برکس کی کانفرنس میں بھی اہم فیصلے ہونے والے ہیں ان حالات میں کہ برازیل میں حکومت تبدیل ہوکے پرو امریکہ آچُکی ، جنوبی افریقہ امریکہ سے دور جاتا نہیں لگتا تو روس، چین اور انڈیا کی تکون میں سے انڈیا کس طرف چلتا ہے؟ یاد رہے کہ انڈیا کے تمام فیصلے اب تک امریکہ کے حق میں رہے۔ حتی کہ ایرانی آخری وقت ان کو روکنے کے لئے پیغام لے کے آئے کہ افغانستان میں روس، ایران ان کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں لیکن انڈیا نے اس پہ ہاں کر کے امریکہ کے ساتھ فوجی اڈوں کے تبادلہ اور اسلحہ کی خریداری کا معاہدہ کیا جس پہ ان کو مایوسی ہوئی۔ ان فیصلوں کی بنیاد اسی سوچ میں ہے کہ ساری دنیا کو انڈیا کی ضرورت ہے اور وہ خود چل کے انڈیا آئیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی مزید فیصلے ہونے والے ہیں مثلاً ایس سی او کی مستقل رکنیت ؟ ۲۰۱۳ میں جب امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا تو انڈیا کی پریشانی ظاہر تھی تب پوتن نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ اسلحہ کی خریداری آپ کے لئے مناسب ہے لیکن زیادہ گھبراہٹ کا مظاہرہ آپ کو علاقائی دفاعی میکنزم سے دور کرسکتا ہے کیا وہ وقت قریب آچکا ہے؟ آنے والے سال کے اندر بنیادی فیصلہ جات ہوجائیں گے۔ لیکن اگر ہم یہ سوچیں کہ انڈیا کا رویہ کیا ہوگا تو وہ ایشیائی نیٹو سے دور جاتا نظر آتا ہے۔ ایک عجیب و غریب طریقے سے پاکستان اور امریکہ کے دور رس مفادات بھی ملتے نظر آتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply