اس بار ۲۴ نومبر کو شروع ہونے والی عمران خان کی فیصلہ کن تحریک کے نشانے پر وزیر اعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان یحیٰ خان آفریدی ہیں۔ عمران خان کے اہداف کی لسٹ سے آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے نام غائب ہیں۔ بلکہ عسکری قیادت جنہیں وہ ہینڈلر کہہ کر پکارتے ہیں، سےبات چیت کرنے کے لئے ایک مذاکراتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
عمران خان کو یقین ہے کہ انکی اعلان کردہ تحریک میں ملک کے کونے کونے سے جوش و جذبہ سے سر شار لاکھوں احتجاجی عوام نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے آخری معرکہ آرائی میں شہباز حکومت کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کر دیں گے۔ اڈیالہ جیل کے دروازے کھل جائیں گے اور عمران خان فاتحانہ مارچ کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہوں گے۔ مسلح افواج کے سربراہان لائن میں کھڑے عمران خان کا استقبال کرنے اور سیلوٹ مارنے کے لئےبے چین نظر آئیں گے۔ جبکہ چیف جسٹس یحیٰ خان آفریدی خود ہی مستعفی ہو جائیں گے اور جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ یاد رہے عمران خان اور انکے چاہنے والے امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ کی متوقع حمایت اور مدد کے شدت سے منتظر ہیں۔
اڈیالہ جیل میں مقید پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے ۲۴ ۔نومبر سے شہباز حکومت کے خاتمے کے لئے آخری اور فیصلہ کن احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ احتجاجی تحریک اپنے حتمی مقاصد حاصل کئے بغیر ختم نہیں کی جائے گی۔ احتجاجی تحریک کا مرکز اسلام آباد ہو گا جبکہ ملک کے کونے کونے سے لاکھوں عوام احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لئے جوش و جذبے کے ساتھ گھروں سے نکلیں گے۔ عمران خان نے نوجوانوں، طالب علموں، وکلاء، مرو و خواتین، محنت کشوں اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام سے اس آخری معرکہ میں شرکت اختیار کرنے کا کہا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اورپاکستانی حکومت کے خلاف ہر ملک میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا کہا ہے۔ تحریک کابنیادی حدف شہباز حکومت کا خاتمہ کرکے عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنا ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم ختم کرکے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پرفائزکرنا بھی اس تحریک کے بنیادی حدف میں شامل ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کارکنوں کو جیلوں سے رہائی دلانا اس تحریک کا مقصد قرار دیا گیاہے۔
اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان متعدبار احتجاجی تحریکوں، مظاہروں، جلسوں اور جلوسوں کا اعلان اور انعقاد کر چکے ہیں۔ ۹ مئی کے متشدد مظاہروں سے بھی عمران خان اپنےمطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے۔ بلکہ ۹ مئی کے مظاہروں کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی جبر اورکریک ڈاؤن کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاریوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے راہنماوں اور کارکنوں کے سروں پر مقدموں کی بھرمار اور خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ عمران خان کے پابند سلاسل ہونے اور ریاستی جبر کی وجہ سے پارٹی کی تنظیم اور پارٹی راہنماؤں کی سیاسی صلاحتوں پر سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔
عمران خان اور پارٹی کے دیگر راہنما کسی ا حتجاجی مظاہرے یا جلسہ کے اعلان سے قبل کارکنوں اور عوام کو موثر طریقے سے متحرک کرنے کو اہم نہیں سمجھتے۔ صوبہ پختون خواہ کے سرکاری وسائل پر انحصار کو پی ٹی آئی کی حکمت عملی کا بنیادی عنصر سمجھ لیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی لایعنی بڑھک بازی کو پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کا بہترین ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔آج تک پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں پارٹی کی تنظیم اور قیادت متحرک کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
حکومت مخالف تحریک چلانے میں پے در پے ناکامیوں کا منہ دیکھنے کے باوجود عمران خان کی مقبولیت اور ووٹ بینک ابھی تک برقرار لگتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ نظام کے خلاف تحریک چلانے کی تمام کاوشیں عمران خان کی مقبولیت کو عوامی تحریک میں ڈھالنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ بے شک کسی حد تک ان ناکامیوں کا ذمہ دار پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی کریک ڈاون کو بھی ٹھرایا جا سکتا ہے۔ مگر پارٹی تنظیم اور قیادت کی ناکامیوں کو بری الزمہ قرارنہیں دیا جا سکتا۔ زمینی حقائق جانے بغیر جذبات، غصے اور مایوسی کے عالم میں کئے گئے عمران خان کے فیصلوں پر ایماندارانہ رائے دینے کی جرات پی ٹی آئی کا کوئی راہنماء نہیں کرپاتا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے راہنماوں میں گروہ بندی، فکری انتشار اور سیاسی صلاحیتوں کے فقدان کے چرچے زبان زد عام ہیں۔ پی ٹی آئی کا ایک المیہ یہ بھی ہےکہ پنجاب اور سندھ میں کارکنوں کی راہنمائی کرنے والا کوئی راہنما ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ عمران خان کے علاوہ پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر پارٹی میں انتشار، گروہ بندی اوربے عملی کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ایسے لگتا ہے عمران خان نے ۲۴۔ نومبر کو فیصلہ کن تحریک چلانے کا اعلان صوبہ پختون خواہ کے سرکاری وسائل پر انحصار کرتے ہوئے کیا ہے۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے اردگرد سے کارکنوں کی احتجاج میں شمولیت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ مگر متوقعہ ریاستی کریک ڈاون کی وجہ سے پنجاب کے دیگر علاقوں سے کارکنوں کا اسلام آباد پہنچنا بہت دشوار ہو گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ پنجاب اور وفاقی حکومت تحریک کو کچلنے کے لئے کس قدر ریاستی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اس لئے احتجاجی تحریک کا آغاز وزیر اعلی گنڈاپور کی قیادت میں صوبے کےعوامی ، مادی اور مالی وسائل کے بل بوتے پر کئے جانے کا امکان ہے۔ گنڈا پور صوبہ کے سرکاری وسائل کی طاقت سے عوام کو کس قدر متحرک کرکے اسلام آباد لا سکیں گے۔ عوام اور کارکنوں کو کتنا عرصہ اسلام آباد دھرنا میں مشغول رکھ سکیں گے۔ اس کا پتہ تو ۲۴۔ نومبر کو چل جائے گا۔ اہم سوال کہ کیا حکومت پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اسلام آباد داخل ہو کر دھرنا دینے کی کھلی چھٹی دےدے گی۔ مگر یہاں گنڈاپور کی مشکوک اور دوغلی سیاسی چال بازی کا ذکر کرنا اچھنبے کی بات نہ ہوگی۔ اس تحریک سے یہ بھی عیاں ہو جائے گا کہ گنڈا پور عمران خان کی کشتی پار لگانے والا ناخدابنتا ہے یا ولن کا کردار ادا کرنے والا بروٹس۔
پاکستانی سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ تجزیہ کرنا مشکل نہیں کہ عمران خان کی فیصلہ کن احتجاجی تحریک یا دھرنے کے نتیجہ میں نہ شہباز حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے اور نہ ہی عمران خان وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے والے ہیں۔ نہ ہی چھبیسویں آئینی ترمیم ختم ہو کر جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔ ابھی تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کہ اس تحریک کے دباو میں آکر عسکری اسٹبلشمنٹ عمران خان سے مذاکرات یا ڈیل کرنے پر آمادہ ہو جائے گی۔ برٹش اخبار گارڈین کی ۱۵۔ نومبر کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سنیئر عسکری ذرائع نے اخبار کو بتایا ہے کہ ملٹری قیادت عمران خان سے مذاکرات یا کسی قسم کی ڈیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
Attachments cannot be downloaded.Learn more
تخت یا تختہ
.odt
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں