• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • معیشت کے گورکھ دھندے اور حکومتی کارکردگی! (آخری قسط)

معیشت کے گورکھ دھندے اور حکومتی کارکردگی! (آخری قسط)

گزشتہ قسط کے اختتام پر ہم نے موجودہ حکومت کی بہتر فنانشل مینجمنٹ کا تذکرہ کیا تھا، کہ کس طرح موجودہ حکومت نے کم بیرونی قرضہ لے کر بھی گزشتہ حکومت کے مقابلے میں بیرونی قرض کے فی ڈالر کےعوض جی ڈی پی میں 2.35 گنا زیادہ اضافہ کیا۔ اگر اس پیسے کے استعمال کی سمت درست نہ ہوتی تو دیگر اقتصادی اشاریے چیخ چیخ کر کرپشن میں ہوشربا اضافے کی دہائی دے رہے ہوتے ، جبکہ اصل صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ سب سے پہلے تو کرپشن کی عالمی درجہ بندی ہی دیکھ لیں ۔ گزشتہ 3.5 سال میں اس میں 21 درجے بہتری آئی ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے وقت پاکستان کرپشن کی عالمی درجہ بندی میں 139ویں نمبر پر تھا، جبکہ 2016 کے اختتام پر یہ پوزیشن 118 پر آچکی تھی، جس میں مزید بہتری متوقع ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا اسکور گزشتہ سال 32رہا، جو پیپلز پارٹی کے دور میں گرتے گرتے 25 تک بھی پہنچ چکا تھا۔ خطے کے دیگر ممالک سے مقابلہ کیا جائے تو بھارت کا سکور ہم سے بہتر، 46 ہے، جبکہ بنگلہ دیش ہم سے نیچے ، 26 کے اسکور کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 145ویں نمبر پر ہے۔ یوں ان اربوں کھربوں کی اس اعلیٰ سطحی حکومتی کرپشن اور کمیشن خوری کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی جو زیادہ تر انور لودھی جیسے آئن سٹائنوں کی سوشل میڈیا پوسٹس میں ہی پائی جاتی ہے۔ میں سب اچھا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا مگر جس طرح کے مضحکہ خیز دعوے سوشل میڈیا پر کیے جاتے ہیں وہ ان لوگوں کی ذہنی پسماندگی کی پست سطح کو خوب واضح کرتے ہیں۔ مثلاً ابھی جب پنجاب پولیس کے یونیفارم تبدیل کیے گئے تو سوشل میڈیا پرنئے یونیفارم پر نشاط ملز کا لیبل لگا دکھا کر ’’اربوں کھربوں‘‘ کے ٹھیکے میاں منشا ء کو جاری کئے جانے کا دعویٰ کیا جارہا تھا! قطع نظر اس کے کہ صوبائی بجٹ میں پولیس کے جوانوں کی وردیوں کے اخراجات ہر سال شامل ہوتے ہیں، اوریہ کہ ان کی اصل مالیت 1ارب روپے سے بھی کم ہوتی ہے، اس پوسٹ کو دھڑا دھڑ شیئر کرنے والے معصومین کو شاید یہ بھی پتہ نہ ہو کہ اس سال پنجاب حکومت کے بجٹ میں اخراجات کا کل تخمینہ ہی 1.7 کھرب سے کم تھا، تو اس میں ’’کھربوں‘‘ روپے کے ٹھیکے دے کر اربوں کے کمیشن کیسے کھائے جاسکتے ہیں؟
بات کو واپس اقتصادی اشاریوں کی طرف لے کر آتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ اگر کرپشن اورکمیشن خوری عروج پر ہوں تو اقتصادی اشاریے خود اس کا اعلان کر دیتے ہیں کیونکہ ایسی صورتحال میں رواں اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں ہوشربا حد تک مصنوعی اضافہ کر کے دکھانا پڑتا ( جیسے طارق روڈ کا 2کلومیٹر حصہ 56 کروڑ میں بنتا ہے) جبکہ اس کے مقابلے آمدن وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ نتیجتاً خارجی اور داخلی ادائیگیوں کا توازن برقرا رکھنے کے لیے مال کی رسد اضافی نوٹ چھاپ کر پوری کی جاتی ہے (کیونکہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا پیسہ کرپشن کی نذر ہوکر دستاویزی معیشت سے غائب ہوجاتا ہے) ۔اس کا سب سے پہلا اثر افراط زر کی شرح پر پڑتا ہے، جبکہ دوسرے نمبر پر یہ آپ کی معاشی نمو کی شرح، یعنی جی ڈی پی گروتھ ریٹ کو کھانا شروع کر دیتی ہے۔پیپلز پارٹی کے دور کا تجزیہ کیا جائے تو تمام اقتصادی اشاریے اس بات پر مہر ثبت کرتے نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے کرپشن کی عالمی درجہ بندی ہی دیکھ لیں۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار سنبھالتے وقت پاکستان کرپشن کی عالمی درجہ بندی میں 134ویں نمبر پر تھا (جس سے آپ مشرف صاحب کے کڑے احتساب کی حقیقت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں) جو کہ ان کے دور میں بڑھتے بڑھتے 139 تک جا پہنچی ! یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے یہ لوگ اس میزان کو الٹا پڑھتے ہوں اور بڑے نمبر کو بہتر رینکنگ تصور کرتے ہوں۔ خیر ہم تقابل اعداد وشمار کی بنیاد پر کرنے کے قائل ہیں نہ کہ ذاتی تاثرات پر، سو اگر ہم دونوں کے دور حکومت کے پہلے 3.5 سال میں افراط زر کی اوسط شرح کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی کےدور میں یہ 15 فیصد تھی جبکہ موجودہ حکومت کے دورمیں یہ 5.5 فیصد ہے، جبکہ رواں مالی سال میں یہ 3.8 فیصد (موونگ ایوریج) ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کی بیرونی اور اندرونی قرضہ مجموعی طور پر درست سمت میں استعمال ہو رہا ، اور حکومت بے تحاشا نئے نوٹ چھاپ کر ادائیگیاں نہیں کر رہی۔ اسی وجہ سے موجودہ حکومت کے پہلے 3.5 سال میں اوسط شرح سود 7.8فیصد رہی ہے (اور فی الوقت 5.75 فیصد ہے) جبکہ گزشتہ حکومت کے پہلے 3.5 سال میں یہ اوسطاً 12.8فیصد تک رہی تھی۔ اگر جی ڈی پی کی شرح نمو کی بات کریں تو رواں مالی سال میں عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق یہ 5.2فیصد تک رہے گی، جبکہ موجودہ حکومت کے پہلے 3.5سال کا اوسط 4.2 فیصد رہا (کیونکہ پہلے مالی سال میں پیپلز پارٹی کے چھوڑے ورثے کی وجہ سے شرح نمو 3.5 فیصد بھی نہیں تھی)۔ اس کے مقابلے پیپلز پارٹی کے پہلے 3.5 سال میں یہ 2.9 فیصد تک محدود تھی جبکہ اس دوران آبادی میں اضافے کی شرح ہی 2 فیصد کے قریب تھی۔ زر مبادلہ کے ذخائر کی بات کریں تو 2011 کے اختتام پر یہ 17 ارب ڈالر کے قریب تھے جبکہ درآمدات 43.5ارب ڈالر پر محیط تھیں، یوں یہ ذخائرصرف 20 ہفتوں کی درآمدات کے لئے کافی تھے ۔ اس کے مقابلے میں موجود حکومت کے دور میں 2016 کے اختتام پر زر مبادلہ کے ذخائر 22 ارب ڈالر تھے، جبکہ رواں سال کل 40 ارب ڈالر کی درآمدات متوقع ہیں۔ یوں یہ ذخائر29 ہفتوں کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ فی کس سالانہ آمدنی (پی پی پی ؛ پرچیزنگ پاور پیرٹی یا مساوی قوت خرید) کو دیکھا جائے پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے 3 سال اس میں محض 35 ڈالر یا 0.8فیصد کا اضافہ ہوا تھا اور یہ 4287 ڈالر فی کس سالانہ سے بڑھ کر 4322 ڈالر تک ہی پہنچ پائی، جبکہ موجودہ حکومت نے اس کے مقابلے میں پہلے 3.5 سال میں فی کس آمدنی میں 644 ڈالر یا تقریباً 14فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ قرضوں کا پیسہ عوام کی جیب میں ہی جانے کی اس سے واضح مثال شاید آپ کو دوسری نہ مل سکے!
میں نے اس سلسلہِ مضامین میں موجودہ حکومت کی اقتصادی کارکردگی کا صرف حقائق کی روشنی میں پوری غیر جانبداری سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے دونوں ادوار حکومت کا تقابل صرف اعداد و شمار کی بنیا د پر کیاہے، وگرنہ میں کبھی نون لیگ کا ووٹر نہیں رہا ، بلکہ کئی سیاسی اور پالیسی معاملات پر نوازشریف پر تنقید بھی کرتا ہوں۔ 2013 میں جب نواز شریف الیکشن جیتا اور تحریک انصاف کی شکست واضح ہوچکی تھی تو میں نے فیس بک پر اپنی مایوسی کے اظہار پر مبنی اسٹیٹس لگایا تھا، کیونکہ میں کراچی میں بیٹھ کر نون لیگ کی پنجاب میں کارکردگی کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکاتھا۔ دیگر لوگوں کی طرح مجھے بھی اس وقت عمران خان میں امید کی کرن نظر آتی تھی اور نواز شریف میر ے نزدیک اس وقت ایک نفیس چور تھا جو زرداری کی طرح ڈاکے تو نہیں مارے گا لیکن پانچ سال میں ملک کو بیچ کھائے گا۔ آج 4 سال بعد مجھے یہ تسلیم کرنے میں قطعاً کوئی عار نہیں ہے کہ میں اس وقت غلط تھا۔ جس طرح عمران خان نے اقتدار میں آکر اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کی جستجو پر وقت ضائع کیا ہے، بہت اچھا ہوا کہ قوم نے اس وقت جذبات میں آکر اسے وزیراعظم نہیں بنوا دیا۔ جس شخص کے پاس 4 سال بعد اپنی حکومت کی اقتصادی کارکردگی بتانے کے لئے 80کروڑ درخت جیسی بڑھکوں، غیر سیاسی پولیس اور فوٹوشاپ منصوبوں کے علاوہ کچھ نہ ہو، وہ اقتدار میں آکر اس ملک کی معیشت کا کیا حشر کرتا، اس کا اندازہ لگانا کم از کم اب میرے لئے مشکل نہیں رہا! حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نےملکی معیشت کو ہر لحاظ سے بہتر کیا ہے ، جس میں سب سے بڑا کام ٹیکس نیٹ کو پھیلانا، اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول نہ کرنا ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز اس کی واضح مثالیں ہیں۔ افراط زر کی شرح مستحکم ہے، زر مبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں، شرح سود کم ہوئی ہے، کرپشن کی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے، عالمی اداروں نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی ہے، ہماری جاری کی گئی سکیوریٹیز کو بین الاقوامی مارکیٹ میں اچھا رسپانس مل رہا ہے، عالمی مالیاتی ادارے مسلسل مثبت رپورٹس دے رہے ہیں اور معیشت پر علی اعلان اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے جس کی بڑی مثال اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی ہے جو اس وقت دنیا کی بہترین مارکیٹس میں شمار کی جار ہی ہے۔ غرض یہ کہ کس کس بات کو جھٹلایا جائے؟ اور کب تک حقیقت سے آنکھیں چرائی جائیں؟ ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ ہم اپنی انا سے بالاتر ہو کر کسی کی کامیابی کو تسلیم کرسکیں۔
معیشت میں اتنی واضح بہتری کے باوجود بہت سے لوگ صرف اس لئے نواز شریف کو اقتدار سے باہر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو عمران خان پسند ہے بس ! کیوں پسند ہے؟ جی کیونکہ اس نے ورلڈکپ جیتا تھا اور عوام کے پیسے سے ہسپتال بنایا تھا۔ اچھا جی! مگر ورلڈ کپ تو یونس خان نے بھی جیتاتھا اور عوام کے چندے سے تو پتہ نہیں کتنے ہسپتال جماعت اسلامی بھی چلاتی ہے تو یونس خان یا سراج الحق کو کیوں نہ وزیر اعظم بنا دیا جائے؟ مگر عمران خان نے کم ازکم کوئی کرپشن تو نہیں کی نہ! اچھا جی تو پھر وہ پارٹی فنڈنگ کیس؟ وہ بہنوں کے نام پر آفشور پراپرٹی وہ ۔۔۔۔ چل نکل ، جاہل پٹواری کہیں کا!
غنیمت ہے کہ ایسے لوگ فی الوقت اقلیت میں ہی ہیں ، اکثریت اس بہتری کو نہ صرف محسوس کرتی ہے بلکہ ضمنی و بلدیاتی انتخابات میں گاہے بگاہے اپنی رائے کے ذریعے اس کا اعتراف بھی کرتی ہے۔
نوٹ: اس سلسلہ وار مضامین کی تیاری کے لئے اعدادو شمار مندرجہ ذیل ذرائع سے حاصل کئے گئے ہیں۔
www.tradingeconomics.com
data.worldbank.org
Official website of State Bank of Pakistan
Official website of FBR
Official website of Federal Ministry of Finance
Official Website of TDAP
Wikipedia

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply