آنسو بھی فرقہ پرست ہوچکے

نہ توُ آئے گی نہ ہی چین آئے گا۔۔۔ یہ بول جس کے لئے بھی کہے گئے تھے وہ آئی یا نہیں مگر موت آگئی اور ابدی چین بھی آگیا۔ میری یادوں کا ایک سلسلہ تھا جو یونیورسٹی کی راہداریوں سے ہوتا ہوا کالج کی راہوں پر چلتا ہوا اسکول کے زمانے تک پہنچ گیا۔ جب ایک نوجوان ٹی وی پر اپنے گٹار کے تاروں کو چھیڑتا تھا تو لوگوں کے دلوں کے تار حرکت کرنے لگتے تھے اور ہر شخص جذبہ حب الوطنی سے جھومنے لگتا تھا۔ وہ ایک نغمہ دے گیا جس کی استھائی کے پہلے مصرعے میں لوگوں کو آسمان پر اپنا دل نظر آتا تھا اور دوسرے مصرے میں زمین پر اپنی جان نظر آتی تھی۔ جس کے انترے میں بکھرے ہوئے ہجوم کو ایک گھر کا تصور ملتا تھا۔ جب زمین، آسمان،دل،جان اور گھر کے الفاظ آپس میں ملتے تھے تو پاکستان بن جاتا تھا اور وہ بے ہنگم ہجوم ایک لمحے کے لئے سہی مگر ایک منظم قوم کی شکل اختیار کرلیتا تھا۔
دل دل پاکستان جان جان پاکستان ان چند نغموں میں سے ایک ہے جس کے بول تقریباَ دو نسلوں کو زبانی یاد ہیں اور کئی نسلوں کو یاد رہیں گے۔ کیا کیا جائے کہ ہم بھی مردہ پرست ہیں عبدالستار ایدھی،امجد صابری، فاطمہ ثریا بجیا،عبداللہ حسین اور انتظار حسین جیسے عظیم لوگ زندگی میں ناقدری کا شکار رہتے ہیں اور موت کے بعد ان پر عقیدت کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہم انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے دو بول سچ کے نہیں کہہ پاتے اور ان کے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی تعریف میں اکثر جھوٹ کی آمیزش بھی کرجاتے ہیں۔ شاید مسلک آڑے آجاتے ہیں قومیتیں اور سیاسی وابستگیاں آڑے آجاتی ہیں۔ ہمارا لبرل غیر مسلم کی موت پر واویلا کرتا ہے۔ کوئی داڑھی والا شخص جس کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہوں وہ تو اس کے لئے انسان ہی نہیں۔ اب تو آنسو بھی فرقہ پرست ہوچکے۔ بہنے سے پہلے مرنے والے کا مسلک پوچھتے ہیں۔ آہیں اور سسکیاں قوم پرست ہوچکیں۔ تقسیمِ ہند سے قبل یہ آنسو آہیں اور سسکیاں ہندو یا مسلمان ہوا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سرحدوں کے دونوں جانب آہ وزاریوں اور اشکوں کے مذاہب، مسالک اور قومیتیں تبدیل ہوگئی ہیں۔
امجد صابری جیسے نرم دل فنکار کے لئے اگر کوئی نظم لکھ دی جائے تو شاعر پر بریلویت کی مہر لگادی جاتی ہے۔ جنید جمشید کی تصویر کو اگر کوئی اپنی پروفائل پر لگالے تو وہ دیو بندی کہلاتا ہے۔ شیعہ برادری کے قتلِ عام پر اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کا ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے۔ یہی معاملہ مختلف سیاسی جماعتوں کے جان سے ہاتھ دھونے والے بے گناہ کارکنوں کے ساتھ بھی ہے۔ اس معاشرے میں رونے پر بھی پابندی ہے۔ آہ وزاری اور واویلا کرتے ہوئے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ انھیں ناگوار نہ گذرے۔ ایسے معاشرے میں ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگوں کا اس قوم کے لئے اجنبی رہنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ جہاں ایک ایک لفظ لکھتے ہوئے یا بولتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ توہینِ رسالت یا توہینِ عدالت کا الزام نہ لگادیا جائے۔ کہیں آرٹیکل چھ لگاکر پابندِ سلاسل نہ کردیا جائے۔ یا پھر نامعلوم افراد کے ہاتھوں معلوم موت نہ واقع ہوجائے۔
جن مرنے والوں کے لئے ہم نوحے لکھتے ہیں اُن افراد کو بھی زندگی میں اسی قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ایدھی صاحب پر ان کی زندگی میں اسرائیلی ایجنٹ ہونے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔ جنید جمشید کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا اس کا بھی سب کو علم ہے۔ مردہ پرستی کی عادت سے جان چھڑا کر اب زندوں کی قدر کرنا سیکھئے تاکہ مردہ معاشرے میں بھی زندگی کے آثار نظر آئیں۔ وہ لوگ جو ملک و قوم کا اثاثہ ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو۔ مذہب مسلک یا کسی بھی قومیت سے وہ تعلق رکھتے ہوں۔ اپنے فرصت کے لمحات میں کبھی ان کے پاس پھولوں کے گلدستے لے کر جائیے۔ بجائے اس کے کہ ان کے دارِ فانی سے کُوچ کرنے کے بعد ان کی قبروں پر گل پاشی کی جائے۔

Facebook Comments

افروز ہمایوں
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ایک کتاب (ملائیشیا کیسے آگے بڑھا) کے مصنف ہیں جبکہ دوسری کتاب زیرِ تصنیف ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply