اگرالیکشن نہ ہوئے؟-نجم ولی خان

یہ واضح ہوتا چلا جا رہا ہے کہ تمام ادارے الیکشن نہ کروانے کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ، جس نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر پنجاب کی نئی اسمبلی کے لئے انتخابات کی تاریخ کااعلان کرے وہ خود ریٹرننگ افسران سمیت انتخابی عمل کے اہم ترین افسران دینے سے انکار کر چکی ہے۔ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے یہ افسران انتخابات کروانے کے حوالے سے تجربہ کار سمجھے جاتے ہیں اور یہ تجربہ کسی دوسرے ادارے کے افسران کے پاس نہیں۔ اگر آپ دوسرے افسران لیتے ہیں تو ان کی تربیت ہی ایک بڑا مسئلہ بن جائے گی۔ مجھے نہیں علم کہ جب لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب یہ فیصلہ دے رہے تھے تو کیا انہوں نے اپنے ادارے کے عمل کو بھی ڈسکس کیا تھا جس نے تیرہ لاکھ کے قریب کیسز کے زیر التوا ہونے کو بنیاد بناتے ہوئے انتخابی مصروفیات سے معذرت کی ہے۔

انتخابات کے نوے روز میں انعقاد کے حوالے سے ہمارے پاس دو ’اپروچز‘ موجود ہیں۔ پہلی اپروچ آئینی ہے۔ آئین بہرصورت اسمبلیاں ٹوٹنے کے نوے روز میں انتخابات کو ضروری قرار دیتا ہے اور اگر کسی بھی فرد، ادارے یا جماعت کی وجہ سے یہ انتخابا ت نہیں ہوتے تو یہ آئین کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ اب آپ اسی تناظر میں فوج کی طرف سے سیکورٹی فراہم کرنے سے معذرت، عدلیہ کی طرف سے افسران فراہم کرنے سے معذرت اورحکومت کی طرف سے فنڈز فراہم کرنے سے معذرت کا جائزہ لیجئے۔ یہ تمام معذرتیں آئین پر عمل کرنے سے معذرتیں ہیں اور کوئی معذرت آئین شکنی کا جواز نہیں بن سکتی۔ ہمارے کچھ دوستوں کی دلیل ہے کہ اگر اردو کا نفاذ اور مردم شماری تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں تو الیکشن کیوں نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر اللہ دتہ اوررمضان بھٹی قتل ہوسکتے ہیں تواعجاز الحق کیوں نہیں، کیا یہ دلیل کسی مہذب اورمنطقی پلیٹ فارم پردی جا سکتی ہے، ہرگز نہیں۔ مجھے یہ سوال کرنا ہے کہ اگر پاکستان کے ادارے الیکشن کروانے کے لئے یہ سب ضروریات پوری نہیں کرتے تو کیا ہمیں کسی دوسرے ملک کے اداروں سے درخواست کرنی ہوگی کہ وہ آئیں اور ہمارے ملک میں آئین کا نفاذ ممکن بنائیں، نہیں، ہمیں اپنے کام خود کرنے ہیں۔

مسلم لیگ نون یا پی ڈی ایم کے حامی تجزیہ کار اس وقت ان تمام دلائل کی جگالی کر رہے ہیں جو الیکشن نہ کروانے کے لئے دئیے جا رہے ہیں مگر مجھے ان کی قبر میں نہیں اپنی قبر میں جانا ہے۔ مجھے دو باتیں کہنے اور بتانے میں عار نہیں کہ اگر آپ اسمبلیوں کی تحلیل کو آئینی، جمہوری اور وزیراعلیٰ کا درست اختیار مان لیتے ہیں تواس کے بعد آپ کے پاس نوے روز میں انتخابات کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔اگر آپ انتخابات نہیں کرواتے تو آپ آئین سبوتاژ کرتے ہوئے خود کو پرویز مشرف، عمران خان اور قاسم سوری جیسی پوزیشن میں لے جا رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر ننانوے کے مارشل لا کی جائزیت ایک مرتبہ پارلیمنٹ سے حاصل کر لی تھی جو بعدازاں ختم ہو گئی مگر اس کے بعد ایمرجنسی پلس کی منظوری ایک مرتبہ بھی حاصل نہ کرسکے۔لاکھ کہاجاتا رہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت غیر آئینی تھی مگر درست بات تو یہ ہے کہ ان کا فیصلہ ملک کی تاریخ میں لکھا جا چکا ہے۔اس پر انہیں ملک سے بھاگنا پڑا اور اسی وقت واپس آ سکے جب وہ خود ایک تابوت میں تھے۔ عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر بھی ایک تلوار لٹک رہی ہے جب انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو لٹکایا۔ پرویز مشرف بچ گئے کیونکہ وہ طاقتور ادارے کی عزت کا مسئلہ تھے مگر شائد سیاستدان نہ بچ سکیں۔ شہباز شریف کی بطور وزیراعظم اوربلیغ الرحمان کی بطور گورنر پنجاب ذمے داری ہے کہ وہ صوبے میں انتخابات کروائیں۔ میں آپ کو دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ایک مرتبہ آئین سے باہر نکل گئے تو یہی سمجھئے کہ کے ٹو سر کرتے ہوئے میں طے شدہ روٹ سے باہر نکل گئے۔ اس کے بعد آپ کے سامنے کون سے پہاڑ ہیں اور کون سی کھائیاں ہیں اس بارے آپ کچھ نہیں کہہ سکتے اور یہ بھی کہ کیاآپ کبھی اپنی منزل پر پہنچ سکیں گے۔

اگر نواز لیگ الیکشن سے بچنا چاہتی ہے تواس کا ایک ہی آئینی اور قانونی طریقہ تھا کہ وہ عمران خان کی ہدایت پر چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے پنجاب کی اسمبلی تحلیل کرنے کے خلاف عدالت میں جاتی اور اب بھی اس کے بہت سارے ارکان اسمبلی اکٹھے ہو کر جا سکتے ہیں جو باقاعدہ متاثرہ فریق ہیں۔ عدالت میں ثابت کیا جاتا کہ پنجاب کی اسمبلی کو بدنیتی سے سیاسی مقاصد کے لئے تحلیل کیا گیا ہے تاکہ ملک کو ایک اور بحران میں داخل کیا جاسکے۔ میری نظر وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے اس اختیار کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے جس میں وہ کوئی بھی اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔ اسے یہ ثابت کرنے کا پابند بنانے کی ضرورت ہے کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے جن کی بنیاد پر اسمبلی نہیں چل رہی تھی یا نہیں چل پا رہی تھی اور ایک آئینی، حکومتی، انتظامی بحران پیدا ہو چکا تھا۔ اس کی مثال موجود ہے جب صدر کو آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اٹھاون ٹوبی کے کلہاڑے سے اسمبلی توڑنے کا اختیار ملا تھا تو اس پر لازم تھا کہ وہ ثابت کرے کہ ایسے حالات پید ا ہو گئے تھے کہ اسمبلی یا حکومت نہیں چل سکتی تھی اور اس کے سوا کو ئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ اگر آپ اسمبلی کی تحلیل کو بدنیتی اور سازش ثابت نہیں کرسکتے تو آپ کے پاس انتخابات سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آئین کو ماضی میں فوجی آمر سبوتاژ کرتے رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس واحد سیفٹی لائن ہی آئین ہے۔ یہ چوک میں لگے ہوئے اشارے کی طرح ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کیا تو حادثات ہوں گے، جانیں جائیں گی اور ٹریفک یعنی ملک چلنا بند ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری تمام سٹیک ہولڈرز سے درخواست ہے کہ ہم نے آئین پر عمل نہ کر کے اب تک اپنا آدھا ملک گنوا لیا اور باقی آدھے کی بقا پر بھی بہت سارے سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔عمران خان نے سیاست اور جمہوریت کو اپنے مفادات کی چھری سے قتل کرنے کی ہر طرح سے کوشش کی ہے اور اگرآپ نے بھی جواب میں چھری اٹھا لی تو پھر یہاں کچھ باقی نہیں بچے گا۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت مہنگائی سب سے بڑا ایشو ہے اور وہ آپ کو انتخابات میں مشکل دے سکتا ہے تو اپنے بیانئیے اور کارکردگی کو بہتر بنائیے۔ لوگوں کو بتائیے کہ پاکستان کی اقتصادی موت کے خطرے عمران خان کے لئے ہوئے قومی تاریخ کے ریکارڈ قرضے (جو کسی ڈویلپمنٹ پر بھی خرچ نہیں ہوئے) اورآئی ایم ایف سے دو ہزار انیس میں کئے ہوئے معاہدے کی وجہ سے ہیں اور اس کرپٹ ناایل دور کی واپسی اجتماعی خود کشی ہے۔ آپ الیکشن ہارتے ہیں تو ہار جائیں مگر آئین شکنی مت کریں۔اس کی قیمت قوم کو بھی چکانی پڑے گی اور آپ کو بھی۔ ایک دوست آپ کو خبردارہی کر سکتا ہے کہ آئین سے باہر ہر راستہ تباہی کا راستہ ہے، بربادی کا راستہ ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply