ایک خواب، ایک حقیقت ۔۔۔۔ فیصل وقاص خٹک

کل رات ایک عجیب خواب دیکھا ۔ میں نے دیکھا کہ میں وقت کا سفر کرتے کرتے کافی پیچھے چلا گیا ہوں۔ دہلی کے ریلوے سٹیشن پر ایک اردو اخبار پڑھ رہا ہوں ۔ اخبار میں لکھا ہے کہ بزرگان قوم نے دو قومی نظریہ پیش کیا ہے ۔ جس کے مطابق’ا’نسان ‘‘اور ’’انتہا پسند‘‘ دو الگ الگ قومیں ہیں ، دونوں ایک ساتھ ایک جغرافیےکے اندر نہیں رہ سکتیں۔ لہٰذا انسانوں کو انتہا پسندوں سے الگ کیا جائے اور ایسا آزاد وطن بنایا جائے جہاں انسان پیار محبت سے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے زندگیاں گزار سکیں۔

پھر میں دیکھتا ہوں کہ پورے ہندوستان میں تحریک انسانستان زور پکڑتی ہے اور بالآخر ہندوستان دو ٹکڑے ہوتا ہے ۔ ایک نیا ملک انسانستان وجود میں آتا ہے ۔ جبکہ اس کے ساتھ دوسرا دیس شرستان کے قیام کا اعلان بھی ہوتا ہے ۔ میں شس وپنج میں مبتلا ہوجاتا ہوں کہ کس دیس کا حصہ بنوں۔ سو میں پہلے شر ستان جانے کا ارادہ کرتا ہوں۔ شرستان میں دیکھتا ہوں کہ اسلحہ بنانے کی انڈسٹریاں بنائی جارہی ہیں۔ جگہ جگہ پر مختلف کسان سرخ اور سبز رنگ کے کپڑے پہنے بارود کاشت کر رہے ہیں۔ ملک کے وزیراعظم جناب نریندر مودی اور صدر مملکت جناب ملا فضل اللہ میں کافی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے تاکہ دنیا پر چڑھائی کے خواب کو پورا کیا جاسکے۔ دونوں میں باہمی مشاورت سے کام کیا جارہا ہے۔ ملک کی دو اہم سیاسی جماعتیں بی جے پی اور ٹی ٹی پی میں تمام تر اختلافات کے باوجود بہت سی باتوں میں اتفاق رائے ہے۔

میں نے دیکھا دونوں میں شدت پسندی کو مذہب کے فروغ کا واحد راستہ تصور کیا جارہا ہے۔ اسلام کے بارے میں ملک کے ہر مکتب فکر کے انتہاپسندوں کی رائے ایک جیسی ہی ہے کہ اسلام طاقت کے زور پر پھیلا اور انسانیت کے خون کا درس دیتا ہے۔ میں نے دیکھا گائے رکھشک اور جماعت سلامی والے ایک ہی مخفل میں بیٹھتے ہیں ایک ساتھ پیار محبت سے آپس میں انسانستان کو فتح کرنے کے لیے تقریریں کر رہے ہیں ۔ ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب میں نے سوچا کیوں نہ ایک چکر انسانستان کا لگایا جاے ۔ سو میں بارڈر کراس کر کے انسانستان پہنچ جاتا ہوں۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوتا ہوں مجھے گاندھی جی نظر آتے ہیں۔میں پوچھتا ہوں ۔ ارے سر مجھے کچھ کچھ یاد آرہا ہے آپ شاید قتل ہوچکے تھے؟ وہ مسکرا کر فرماتے ہیں لو بھلا انسانستان میں میرا قتل کیسے ہو سکتا ہے ۔اسی دوران مجھے دور سے قائد اعظم نظر آتے ہیں۔میں حیرانی کے عالم میں پوچھتا ہوں ۔ سر آپ اس خراب ایمبولینس میں کیسے بچ گئے؟ قائد فرماتے ہیں ۔۔۔بیٹا انسانستان کے لوگ بھلا اپنے لیڈر کو کیسے مرنے دینگے ؟؟؟ میں آگے جاتا ہوں تو مجھے سمجھوتہ ایکسپریس ، مالے گائوں ، کوئٹہ بار ، اے پی ایس ، گائےکے نام پہ قتل ہونے والے ، مسلک کے نام پہ مارے جانے والے ، امام بارگاہوں ، مسجدوں میں شہید ہونے والے تمام لوگ زندہ سلامت نظر آتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر انسان دوسرے کا خیرخواہ ، غم خوار ہے۔ میں دیکھتا ہوں یہاں کی زبان میں ریپ ، قتل ، دھماکے ، جیسے الفاظ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے غائب ہوچکے ہیں۔میں دیکھتا ہوں یہاں براہمن اور شودر ایک ہی تھالی میں کھا رہے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں یہاں ہندو بھی ہیں مسلمان بھی ہیں سکھ بھی ہیں عیسائی بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔ کوئی دشمنی نہیں ہے ۔ کوئی ذات پات کامسئلہ نہیں ہے ۔ ابھی میں انسانستان کی شہریت لینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سب مخص ایک خواب تھا ۔حقیقت نہیں۔ حقیقت بہت تلخ ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply