کیا عورت کو لباس بدلنے کا حق نہیں؟ ۔۔۔۔ عامر سلیمان

محترم حافظ صفوان صاحب کے ایک مضمون مرد و عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں، نے جہاں کچھ جرات اظہار کا حوصلہ دیا کہ ان کے مضمون کی بہت سی باتوں سے اتفاق ہے، وہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ ایک اچھے پیرائے میں جاتے جاتے اچانک جیسے مضمون کو معاشرے کی روایتی تنگ نظری نے اچک لیا اور مصنف نے پہلے علیحدگی کو شرعی حق مانتے ہوئے پھر اسی کے ساتھ خلع کی حوصلہ شکنی بھی فرمادی۔ یہ بات کچھ جمی نہیں۔ اگر ہمارا مذہب عورت کو بغیر کسی ردو کدح کے خلع لینے کی اجازت دیتا ہے، فقط عورت کے ساتھ نا رہ پانے کے بیان پر ہی اس سے مزید کسی پوچھ گچھ کے، تو معاشرہ کیوں اس کے اس حق کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور کئی موقعوں پر تو عورت کو یکطرفہ طور پر بدچلن اور بدکردار کا سرٹیفکٹ تک دے دیتا ہے اور وہ بھی اس کے شوہر کی نالائقی کو نظر انداز کرتے ہوئے۔

ہمارے ہاں کافی شادیاں اکثر لڑکے اور زیادہ تر لڑکی کی رضامندی کے بنا بھی انجام پاتی ہیں جس کی زیادہ تر وجوہات میں کبھی والدین کی ایموشنل بلیک میلنگ تو کبھی اس لئے کہ بھائیوں کی برادری میں ناک نہ کٹ جائے تو کبھی ماں باپ کی اپنے بہن بھائیوں حد درجہ محبت کہ اس محبت کے مارے وہ اپنے نکھٹو یا بدکردار بھتیجے بھانجے سے اپنی بیٹی کو باندھ دیتے ہیں، اس گمان میں کہ گھر کی لڑکی ہے، سدھار لے گی، لڑکے نے کیا خاک سدھرنا ہوتا ہے البتہ لڑکی کی زندگی برباد ہونے میں کوئ کسر باقی نہیں رہتی۔  کبھی باپ بھائیوں کی انا کی وجہ سے پسند کی شادی نہیں ہوپاتی، نجانے ذہن و دل کی رضامندی کے بنا نکاح کے وقت ہونے والے ایسے اقرار کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی بھی ہے یا نہیں۔

ہمارے معاشرے میں مردوں کو تو ہر قسم کی آزادی ملی ہوئی ہے، اگر اسے بیوی پسند نہیں تو اس کا جب دل چاہے وہ مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا فقط تین لفظ بول کر عورت کے سر سے چھت چھین سکتا ہے اور قانون کی نام نہاد بالادستی اس قابل بھی نہیں کہ عورت کو اس کا جائز حق نان و نفقہ ہی دلاسکے اس توانا مرد سے۔  مرد چاہے تو دھڑلے سے بدکاریاں کرتا پھرے، کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھاتا کہ مرد ہی تو ہے، کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلی بیوی کے جائز حقوق ادا کئے بغیر دوسری شادی بھی کرلیتا ہے اور پہلی بیوی کی حیثیت ایک پل میں گھر کے سٹور میں رکھے پرانے سامان کی طرح ہوجائے، اس مردانہ معاشرے کو کوئ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن دوسری طرف اگر عورت جائز الزامات کے تحت بھی عدالت پہنچ جائے خلع لینے واسطے تو اسے جیسا کہ اوپر ذکر کیا فوراً سے پیشتر بدکار اور بدچلن کا سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے۔ خود اپنے ہی بھائی بہنوں اور رشتہ داروں سمیت اہل محلہ کی معنی خیز نظریں ہر وقت اس کے تعاقب میں لگی رہتی ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ آخر ایسے کیا عوامل درپیش آئے اس کے ساتھ کہ وہ عدالت کے در تک جاپہنچی۔

اب اس تمام صورتحال سے بچنے کے لئے عورت کیا کرے ؟ کیا منافقت کی زندگی جئے اپنی اولاد کو بھی ایسی ہی منافقت بھری زندگی گذارنا سکھائے، اگر اس کی فطری خواہشیں مکمل نہیں ہوتیں تو کیا چھپ چھپ کر گناہ آلود زندگی گذارے، اگر مجبور لمحات میں وہ اپنی پسند کو حاصل نہیں کرسکی تو کیا زندگی بھر دل میں کسی اور کے تصور کے ساتھ شوہر کے بستر تک جائے۔

اسی دورخی معاشرے کا دوسرا المیہ جوانی میں بیوگی ہے۔ اگر تو اس وقت کوئ اولاد نہیں ہوئی تب بھی اس کے ہم عمر یا کنوارے کا رشتہ تو مانو شجر ممنوعہ ہی ہے۔ رشتہ آتا بھی ہے تو پینتالیس سالہ رنڈوے یا طلاق یافتہ کا جسے بیوی سے زیادہ اپنے اور اپنی اولاد کے لئے خادمہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر بیوہ صاحب اولاد بھی ہو تو پھر تو بس سمجھو اس کی زندگی ختم۔ کوئ رشتہ آبھی جائے تو وہ عورت کی پہلے سے موجود اولاد کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا ایسے میں عورت کیا کرے۔ یقیناً اسے اپنی اولاد کو جو کچھ ہی عرصے میں بڑی ہوکر اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی، ننھیال یا ددھیال میں چھوڑ کر شادی کرلینی چاہئے لیکن نہیں جناب یہاں عورت کو بھی قربانی ، وفا ، اور ایثار کے تمغے اپنے سینے پر سجانے کا شوق ہوتا ہے۔ سو تِل تِل مرتے اپنی اولاد کے لئے اپنی جوانی رولنے والی عورت کو اس کی اپنی اولاد پیروں پر کھڑے ہوتے ہی عضو معطل بناکر مانو شیلف میں سجادیتی ہے (بیشک مستثنیات بھی ہیں اس معاملے میں)۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر یہ تو ایک اضافی موضوع تھا۔ اگر ہم موجودہ ایشو کی بات کریں تو معاشرے سے سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیوں نہیں دینا چاہتا معاشرہ ہر مرد اور ہر عورت کو اس کا ہر وہ حق کہ جو اسے اس کا مذہب دیتا ہے۔ ایسی منافقت بھری معاشرت سے آپ کیا منتقل کررہے ہیں اپنی آنے والی نسلوں کو۔ ذرا سوچئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا عورت کو لباس بدلنے کا حق نہیں؟ ۔۔۔۔ عامر سلیمان

  1. میرا اس حوالے سے بس ایک ہی سوال ہے کہ خلع کا لفظ قرآن میں کہاں موجود ہے ؟ اور خلع کے حوالے سے تفصیل بھی؟
    اللہ پاک نے قرآن میں صرف لفظ طلاق استعمال کیا ہے ،چاہے مرد دی یا لے چاہے عورت ہوگی طلاق ہی
    البتہ مردوں کے نام سے تفصیل اس لیئے بتائی گئی کہ مرد ہمیشہ طلاق کے معملات مین زیادتیان کرتے آئے تھے اور ہیں
    اتنی سی بات ہے جس کو مردوں نے اپنے نفس کے چکر میں کیا سے کیا بنا دیا ہے 🙁

Leave a Reply