ٓٓٓٓٓمولوی و لبرل کے درمیان بڑھتا فرق، اویس قرنی

آج کل معاشرے میں دو قسم کی شدید طبقات وجود میں آچکے ہیں۔ ایک طبقے کا نعرہ مستانہ ہے کہ مولوی نے یہ کر دیا مولوی نے وہ کردیا مولوی ایسا ہے مولوی ویساہے۔ جبکہ دوسرے طبقہ ہر وقت اس فکر کی ترویج میں لگا رہتا ہے کہ دنیا میں تمام مسائل ملحد و لبرل وسیکولر (معذرت کے ساتھ ان تینوں کو اکھٹا لکھ رہا ہوں کیونکہ میں جس طبقے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں ان کے نزدیک یہ ایک ہی ہیں اور ان کو ان کے فرق کا نہیں پتا) کی وجہ سے ہیں۔ وہ دین میں بگاڑ کے زمہ دار ہیں اور وہی دنیا میں ہونے والی تمام بربادیوں کے زمہ دار۔

یہ طبقاتی تفریق دنیا میں عموما جبکہ برصغیر پاک و ہند میں خصوصا دیکھنے کو ملتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جسیے جیسے سوشل میڈیا کی ترویج ہوئی ہماری بدقسمتی ہے کہ تفریق بڑھتی چلی گئی اور آج دونوں طبقات ہمہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں اور بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ایک دوسرے کے نام سے جعلی پیج بنا کر اس کو بدنام کرنے کے عمل کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔

اس دوطرفہ فائرنگ کے تبادے میں وہ لوگ بلاوجہ مارے جاتے ہیں جو دونوں طبقات کو سمجھانے کے لیے مکالمے کا درس دیتے ہیں۔ مولوی گروپ کے نزدیک وہ لبرل و سیکولر وملحد قرار پاتے ہیں اور دوسرے طبقے کے نزدیک وہ جاہل ملا کے پیروکار کہلاتے ہیں۔ یہ دونوں طبقات میں نفرت بجائے کم ہونے کے دن بہ دن شدید ہوتی جارہی ہے جو کہ ہمارے معاشرے، ثقافت اور دین کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔

یہ دونوں طبقات اس مسئلے پر بات کرنا تو کیا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ ایک ہی معاشرے، ثقافت اور مذہب کا حصہ ہونے کے باوجود ان میں اس قسم کی شدید تفریق آخر پیدا کیوں ہوئی اور یہ دن بہ دن بڑھ کیوں رہی ہے۔آخر کیوں یہ دونوں طبقات ایک دوسرے سے مکالمہ تو دور کی بات ایک اچھے ماحول میں بات چیت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ بس ہمہ وقت ایک دوسرے پر طعنہ تشنیع اور گالی گلوچ پر کمر بستہ رہتے ہیں۔

میرے مطابق اس لڑائی کی بنیاد انگریز کے برصغیر پر قبضے کے دوران رکھی گئی۔ (راقم اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتا جو معاشرے میں موجود ہر برائی کا زمہ دار انگریز کو سمجھتا ہے مگر اس معاملے میں میری ایک رائے ہے جو غلط ہو سکتی ہے) ۔ ہمارے ہاں امام مسجد یا مولوی کا منصب ہمیشہ سے طاقتور اور قابل احترام رہا ہے۔جن پر بڑے بڑے جید علما کرام فائز رہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ طبقہ اس وقت معاشی طور پر مضبوط ہوتا تھا۔ اب چونکہ اس منصب کا معاشرے میں بہت عمل دخل تھا اور یہی دین کا ماخذ تھا اس لیے سب سے پہلے اسی طبقے کو ٹارگٹ کیا گیا۔ آہستہ آہستہ یہ منصب معاشی طور پر انتہائی کمزور کر دیا گیا اور اس کی بھاگ دوڑ بھی ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جن کا پہلا مسئلہ روٹی کمانا تھا۔

اس بات کو بہت بھیانک نتیجہ نکلا جو ہمارے ہمارے سامنے ایک اژدھے کی طرح کھڑا ہے۔ معاشرتی طور پر کمزور طبقہ ہمیشہ ڈرا دیا جاتا ہے اور اس کی رائے کو ئی اہمیت نہیں دی جاتی۔

وہ لوگ جو دیہات کے کلچر سے واقف ہیں وہ ایک ٹرم کمّی (کمتر)جیسی ایک گھٹیا اصتلاح سے واقف ہوں گے۔ یہ دیہات میں پایا جانے والا معاشی طور پر وہ کمزور طبقہ ہوتا ہے جن کا زریعہ معاش سارا سال لوگوں کے کام کرنا جن میں ان کے اوزار ٹھیک کرنا، کھیتوں میں پانی لگوانا، جانوروں کا خیال رکھنا، گھر کے کام کاج کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سارا سال معاشی طور پر مظبوط یا دوسرے الفاظ میں چوہدریوں اورجاگیرداروں کے ایسے کام کرتے ہیں اور پھر ہر فصل میں ایک مخصوص حصہ وصول کرتے ہیں۔ یہی ان لوگوں کا اصل زریعہ معاش ہوتا ہے۔ یہ طبقہ معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے کوئی رائے نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی مقام رکھتا ہے۔ اب مولوی یا امام مسجد کا گھر ایسا گھر ہوتا ہے جو ان لوگوں سے بھی سال بعد حصہ وصول کرتا ہے۔ یعنی اگر ہم اسی گھٹیا اصتلاح کو سامنے رکھیں تو بدقسمتی سے ہم نے مولوی کو کمّی در کمّی بنا دیا ہے۔ اب اگر امام مسجد یا مولوی کی معاشی حالت یہ ہوگی تو اس کی معاشرے میں عزت کیا ہوگی اور اس کی رائے کی اہمیت کیا ہوگی۔

میرے نزدیک یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے اس تفریق جو جنم دیا۔ غربت وہ سانپ ہے جو آپ کو ڈستا بھی ہے اور مرنے بھی نہیں دیتا۔ تو جو طبقہ اس کا شکار ہوگیا ، جس کو روٹی کے لالے پڑ گئے اس نے منبر کو بھی ایک ذریعہ معاش سمجھنا شروع کر دیا۔اب ایک تو جس کو روٹی کی فکر اور دوسری طرف جس کو معاشی عزت بھی حاصل نہیں وہ کیا ریسرچ کرے گا۔ وہ کیا اجتہاد کرے گا، وہ کیا جدید معاشرے میں دین کے کردار کو واضح کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ ایک امام مسجد کے بعد اس کا بیٹا یا اسی کا تیا ر کردہ شاگرد آتا ہے اور پھر یہ سلسلہ جارہی رہتا ہے۔

دوسری طرف لبرل و سیکولروملحد طبقے کا شدید قصور یہ ہے کہ اس نے بھی ہمیشہ کی طرح اسی مولوی کو دین کا منبع جانا اور اوپر بیان کی گئی تبدیلوں کا سمجھنے سے یکسر گریزاں رہا۔ جو مولوی نے بتا دیا انہوں نے اسی کو دین کا چہرہ جانا اور پھر اس میں موجود (اوپر دی گئی وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئی)کوتاہیوں کو سامنے رکھ کر مولوی اور اسلام پر تنقید شروع کر دی۔ کیا دین کی سمجھ یا ترویج صرف مولوی کی ذمہ داری ہے؟ ہمارے ہاں اکثر والدین بچے کو محلے کی مسجد میں قرآن پڑھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچے کو دین کی تعلیم دے دی ہے۔ کیا اس اقدام سے زمہ داری پوری ہوگئی؟ کیا اس وجہ سے پیدا ہونے والی برائی میں صرف مولوی قصور وار ہے آپ نہیں؟

میں پیشے کے لحاظ سے ایک سافٹ وئیر انجینئیر ہوں۔ میری ہمہ وقت یہ کوشش رہتی ہے کہ میں نے اپنا جو کام ایک سو لائینز میں کیا ہے میں کس طرح اس کو اور بہتر بنا کر ستر لائینوں میں لا سکتا ہوں۔ اسی طرح ایک سیلز پرسن کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کون سے جدید طریقے بڑھا کر اپنی سیل کو بڑھا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم میں سے ہر شخص ہمہ وقت اپنے پییشے میں بتدریج ترقی کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اپنا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس کا کچھ فیصد بھی خود سے دین سمجھنے کے لیے لگاتے ہیں۔ کیوں میرے نزدیک دین وہی ہے جو مجھے امام مسجد نے جمعے کی تقریر میں بتا دیا؟ کیوں میں نے کبھی خود سے دیے گئے حوالوں کی تصدیق نہیں کی؟کیوں میں اپنے اپنے تییں یہ کوشش نا کی کہ میں عربی زبان کا جو ترجمہ مجھے مولوی صاحب بتا رہے ہیں اس کی تصدیق کروں ؟

میرے نزدیک یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس نے اس تفریق جا جنم دیا اور اس بحر بیکراں میں تبدیل کر رہا ہے۔ اب آتے ہیں اس کی حل کی جانب۔ تو میرے نزدیک اس کے دو حل ہیں۔

پہلا حل یکساں نظام تعلیم۔

یہاں میں غامدی صاحب (اب آپ میں سے کچھ لوگ ، مجھے کوس سکتے ہیں) کے دئے گئے حل کو سب سے بہتر جانتا ہوں۔ بارہویں کلاس تک ایک ہی تعلیمی نظام ہونا چاہیے۔ جس نے ڈاکٹر، انجینیئر، سائینس دان بننا ہے کیا اسے دینی کی بنیادی تعلیم کی کوئی ضرور ت نہیں؟ اسی طریقے سے جس نے عالم دین بننا ہے کیا اس کے لیے جدید علوم کی بنیاد سیکھنا ضروری نہیں۔بارہویں جماعت تک سب کو دین کی بنیادی تعلیم بھی دی جائے اورسائینس کی بھی بنیاد بنائی جائے۔ بارہویں جماعت کے بعد یہ طالب علم پر چھوڑ دیا جائے کہ اسے کون سے شعبہ کی طرف جانا ہے۔

دوسرا حل معاشرتی مسائل کا خاتمہ

یہ زمہ داری حکومت اور دینی طبقے کو مل کر ادا کرنی ہے۔ مسجد سرکار کو دی جائے۔ بدلے میں سرکار امام مسجد کو مسجد کمیٹی کے چنگل سے نکال کر اسے سرکاری نوکری دے اور ایک اچھا پیکچ دیا جائے جس پر وہ زندگی کی بنیادی ضروریات آسانی سے پوری کر سکے۔ اسے سرکاری افسر بنایا جائے، بڑی مساجد کے خطیب کے گزٹڈ آفیسر کا عہدہ دیا جائے اور جس طرح ہمارے جامعات میں ترقی اب ریسرچ کرنے سے ملتی ہے اسی طرح امام مسجد اور خطیب کی ترقی اور تنخواہ میں خاطر خواہ آضافہ بھی اس کی دین میں ریسرچ کرنے پر دیا جائے۔ اگر یہ عمل ہو جائے تو آج جیسے تعلیمی لحاظ سے نسبتا بہتر طبقہ ڈاکٹر یا انجینیئر بننا چاہتا ہے وہ اسی طرح ایک عالم دین یا امام مسجد بھی بننا چاہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور جب تک یہ دونو ں حل نہیں نکلتے، دونوں طبقات سے گزارش ہے کہ بجائے طعنہ و تشنیع کے ایک دوسرے کے ساتھ سکون سے بیٹھیں اور مکالمہ کریں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ٓٓٓٓٓمولوی و لبرل کے درمیان بڑھتا فرق، اویس قرنی

  1. اس مضمون میں تھوڑا سا اور اضافہ ہونا چاہیے تھا کہ کچھ لوگ جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ کسی فرقہ کو بُرا نہ کہو، مذہب کی پیروی کرنا ہر شخص کا اپنا ایک ذاتی اور پرائیویٹ مسئلہ ہے ہمیں اُس میں دخل اندازی بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے بلکہ احترام کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ دل سے پکے اور سچے مسلمان ہوتے ہیں۔ لیکن جونہی وہ یہ اپنے خیالات مولوی نما لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں تو اُنہیں بھی ملحد اور لبرل کی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیا جاتا ہے جو کہ سراسر ذیاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فرقہ پرستی کو ایک عیب سمجھتے ہیں اور برسرعام یہ اقرار کرتے ہیں کہ بھائی ہم تو لبرل ہیں۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ لبرل کی تعریف ہر کوئی اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ ایک لبرل کو ذندیق کہتا ہے، کافروملحد کہتا ہے تو دوسری طرف لبرل اپنے آپکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق، اُمتی کہتا ہے۔ جو توحید، کلمہ، رسالت، قرآن پاک اور آسمانی کتابوں، فرشتوں اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بھی زندیق ملحد اور کہ دیا جاتا ہے جو کہ حد سے تجاوز ہے۔
    Like ·

Leave a Reply