دو ملزم دو الگ قانون

حالیہ دنوں میں دو مختلف واقعات ہوuyجس میں دو مختلف قانون دیکھنے کو ملے ، جن کو دیکھ کے لگتا ہے کہ یہ ملک اشرافیہ کے لئے ہی بنا ہے اور وہی حکمرانی کا حق رکھتے ہیں باقی تو سب صرف کیڑے مکوڑے ہی ہیں ۔پختون میپ کے صدر محمود خان اچکزئی اور گورنر بلوچستان کے کزن ایم پی اے مجید اچکزئی نے اپنی گاڈی کے نیچے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کار کو کچل کر مار ڈالا اس کے بعد قانون حرکت میں آیا اور کیمرہ فوٹیج میں نظر آنے کے باوجود ایف آئی آر نا معلوم فرد پر کاٹ ڈالی ، مختلف میڈیا چینلز پر خبر چلی شور مچا تو پھر جا کے مجید اچکزئی کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا چیف جسٹس کے نوٹس لینے پر بالآخر مجید اچکزئی کو گرفتار کرنا پڑا صوبائی اسمبلی کے سپیکر کو آگاہ کیا گیا اور مجید اچکزئی کو گرفتار کر لیا گیا ۔
غفلت برتنے پر مقامی تھانے کے ایس ایچ او ، متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس پی کو معطل کر دیا گیا ۔ملزم مجید اچکزئی کو پولیس نے سیشن جج کی عدالت میں بغیر ہتھکڑیوں کے پیش کیا پولیس افسران کھڑے تھے اور ملزم کو عزت کے ساتھ بنچ پر بٹھایا گیا مجید اچکزئی پولیس افسران کو جھڑک کر پوچھ رہے تھے کہ کیا ان میڈیا والوں کو تم نے بلایا ہے یہاں عدالت کے باہر ؟آخر بہت بڑے گھرانے سے جو ہیں تو حوالات کے اندر بھی فل پروٹوکول دینا حکومتی اداروں کی ذمہ داری جو ٹھہری تو لہٰذا کھانے کا بہترین انتظام ، پینے کا انتظام ، سونے کا انتظام اور گرمی کی بھی شدت ہے تو ایئر کنڈیشن کا بھی انتظام کر دیا گیا ،یاد رہے یہ وہی مجید اچکزئی ہیں جن پر اس سے پہلے بھی قتل کے مقدمات تھے اور یہ اشتہاری تھے ان تمام مقدمات میں اب ان کیسز میں بھی دھر لئے گئے ہیں بس پھر اللہ کی لاٹھی بھی تو بے آواز ہے نا۔
باقی اچکزئی کا پورا خاندان اب مقتولین کے گھر والوں کو زبردستی دیت کے لئے راضی کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے ۔
پختونحواہ ملی عوامی پارٹی ایک قوم پرست جماعت ہے اور اسکی روزی روٹی قوم پرستی پر ہی چلتی ہے ، قیام پاکستان سے اب تک اس جماعت کی تمام تر ہمدردیاں پاکستان سے کم اور افغانستان سے زیادہ رہی ہیں۔پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والی یہ جماعت شروع سے ہی ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کرتی آ رہی ہے اور پوری پشتون بیلٹ کو افغانستان میں ضم کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوے ہے ، کھاتے پاکستان کا ہیں اور گاتے افغانستان کا ہیں ۔
جمشید دستی جنوبی پنجاب کے علاقہ مظفر گڈہ سے ایم این اے منتخب ہوئے ہیں اور اپنے علاقہ کے وڈیروں کو شکست دی ۔یہ بہت بڑی بات تھی کہ جمشید دستی نےایک غریب طبقے سے ہوتے ہوئے بھی وڈیروں کو شکست دے دی ۔
گزشتہ دنوں جمشید دستی پر نہر کا پانی کھولنے پر ایک مقدمہ درج کیا گیا اور ساتھ ہی دہشت گردی کا بھی مقدمہ درج کر دیا گیا ، کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو سپیکر قومی اسمبلی کے نوٹس میں لائے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب کے اس معاملے میں اسکی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور جمشید دستی کو گرفتار کر لیا گیا ۔پولیس کی طرف سے جمشید دستی کو سیشن کورٹ میں ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا گیا اور عدالت سے مزید تفتیش کے لئے ریمانڈ لے لیا گیا ۔
دوران ریمانڈ جمشید دستی مسلسل یہ الزام لگاتے رہے کہ پولیس نہ کھانا دیتی ہے اور نہ ہی پینے کو صاف پانی بلکہ جس جگہ رکھا ہے وہاں چوہے اور بچھو ہیں میں پوری رات سو بھی نہیں پاتا ۔کچھ دن بعد جمشید دستی کو عدالت نے تمام مقدمات میں ضمانت دے دی تو پولیس نے فوری ایک اور مقدمہ درج کر دیا کہ جمشید دستی نے عوام کو کار سرکار میں مداخلت پر ابھارا ہے اور کمرہ عدالت سے پھر گرفتار کر لیا اور سرگودھا جیل منتقل کر دیا جس پر جمشید دستی نے پولیس پر یہ الزام لگایا کہ یہ مجھے راستے میں قتل کرنا چاہتے ہیں اس لیے مختلف جیلوں میں منتقل کر رہے ہیں ۔
عوامی راج پارٹی کے صدر جمشید دستی مسلسل یہ الزام لگاتے رہے کہ حکومت مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے کیوں کہ میں ایک غریب طبقے سے ہوں ۔آرٹیکل نمبر چار ہر شہری کو مکمل آزادی کا حق دیتا ہے ۔جمشید دستی کی اگرچہ ضمانت ہو چکی ہے مگر دستی اور اچکزئی کے ساتھ قانون کا رویہالکل مختلف رہا۔
جو فرد بھی قانون کو توڑے تو اسکو سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن قانون تو سب کے لیے ایک جیسا ہی ہونا چاہیے وہ چاہے جمشید دستی ہو ، مجید اچکزائی ہو یا کوئی اور فرد ۔
کیا یہ ملک واقعی اشرافیہ کا ہے؟ فیصلہ آپکا ۔

Facebook Comments

امیر حمزہ
ایڈووکیٹ،لاہور ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply