• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاشم خان

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاشم خان

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی (غالبؔ)
یہ شکست بھی ضروری تھی ۲۰۱۴ کی طرح کیوں کہ اس شکست سے ہندوستانی مسلمانوں کو جو سبق حاصل کرنا تھا وہ نہیں کرسکے۔ لیکن رکیں پہلے ذرا تاریخ کا ایک ورق الٹ لیتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے انڈیا ونس فریڈم میں لکھا ہے کہ سردار پٹیل جواہر لال نہرو کے بالمقابل زیادہ بہتر صدر( اور بعد ازاں وزیراعظم )ثابت ہوتے۔ یقیناً مولانا نے کچھ دیکھ سوچ کر ہی سردارپٹیل کو اپنے ہمدم دیرینہ پر فوقیت عطا کی تھی، مولانا کے اس بیان کا ایک مفہوم یہ نکالا جارہا ہے کہ چونکہ سردار پٹیل سخت مزاج منتظم تھے اس لئے وہ کوٹ کاٹ کر مسلمانوں کو راہ راست پر لے آتے، تو کیا تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کو اتنا نہیں کوٹا گیا تھا کہ وہ راہ راست پر آجاتے، نہیں بالکل نہیں، کم از کم اس طرح نہیں جس طرح سردارپٹیل کوٹتے، اور سردار پٹیل کس طرح کوٹتے؟ سرادر پٹیل ہندو ذہنیت یا ہندوتواکو ساتھ میں ‘سرکاری‘ سطح پر فروغ بھی دیتے۔

قصہ مختصر یہ کہ مولانا آزاد چاہتے تھے کہ مسلمان فی الحال اپنی توجہ سیاست سے ہٹا کرتعلیم و اقتصادیات پر مرکوز کریں اور مولانا کے اس خیال کی اس وقت کے علما و سیاسی قائدین نے مخالفت بھی کی تھی اور یہ خیال اگر آج بھی پیش کیا جائے تو علماء و مشائخ آج بھی اس کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کریں گے۔

خیر تفصیل میں جانے کا موقع  نہیں ہے لیکن موٹی موٹی چیزیں ذہن میں رکھ لیں کہ ہندوستانی مسلمانوں نے سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا۔ معصوم عن الخطا علماء و مشائخ کا خیال تھا کہ سیاست میں حصہ لئے بغیر نظام مصطفیٰ یا دین الٰہیہ کیسے قائم کیا جاسکتا ہے۔ سو تقسیم ہند کے بعد مسلم علماء و مشائخ نے اپنی کمیونٹی کو ’ووٹ بینک‘ کے طور پر پیش کیا کہ اگر آپ ہمارا منہ بند نہیں کریں گے تو پھر یہ ووٹ آپ کے ہاتھ سے گیا۔ کئی عشروں تک یہ کھیل چلتا رہا، کانگریس سیکولرزم کے نام پرملا ،مشائخ اور قائدین کی منہ بھرائی کرتی رہی اور مسلمان ’کمیونٹی‘ووٹ بینک‘ کے طور پر فروخت ہوتا رہا۔ تاریخی تسلسل اور مدارج میں ہندوتوا کے لئے سرگرم تنظیموں نے اس چیز کو کیش کرایا اور وہ بھی ہندو ووٹ بینک کے طور پر سامنے آئے اور ایساہونا تھا کیوں کہ ۸۰ فیصد ہندوؤں کے ملک میں جب ۱۵ فیصد مسلمان ووٹ بینک ہوسکتا ہے تو ہندو کیوں نہیں۔ کانگریس کا سیکولرزم ’ہندوتووادی‘ ہوتا گیا اور بی جے پی ’ہندو ووٹ بینک‘ کے رتھ پر سوار آگے بڑھتی گئی۔ آر ایس ایس پہلے جماعت اسلامی کی طرح ایک سماجی تنظیم تھی لیکن جماعت اسلامی کے’نظام مصطفیٰ ‘ کی طرح وہ بھی اپنے ہندوتوا کی استھاپنا چاہتی تھی اور اس کے لئے یہ زیادہ آسان تھا کیوں کہ اس کے پاس زمین تھی، آبادی تھی اور وسائل بھی اور وہ اپنے اس مقصد میں بتدریج کامیاب ہوتی گئی۔ مسلمانوں نےجس کثرت سے سیاسی اودھم مچایا اسی کثرت سے آرایس ایس کو فائدہ بھی ہوا۔ مسلمان کمیونٹی کی تو بات کرتا رہا لیکن اس کے پاؤں زمین پر نہیں آسمان پر تھے۔ انجام کار وہ ’ووٹ بینک‘ کی طاقت سے بھی محروم ہوگیا۔ آپ اس الیکشن کا جس طرح چاہیں تجزیہ کرلیں ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اب مسلمان کانگریس کو ووٹ دے یا کسی اور جماعت کو ،بی جے پی،آرایس ایس اور ہندوتوا کی ساکھ کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ خدشات آج سے پچاس سال قبل محسوس نہیں کئے جاسکتے تھے؟

جواب یہ ہے کہ ہم آج بھی ان خطرات کو محسوس نہیں کررہے ہیں جو مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی نے پیدا کئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں؟

تو اس کا بھی جواب سن لیں کہ ہمارے نزدیک مذہب زندگی گزارنے کا ایک طریقہ نہیں بلکہ ایک سپرنیچولرپاور (مافوق الفطرت طاقت) ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے تمام مسائل چشم زدن میں حل کئے جاسکتے ہیں۔

مسلمانوں نے سیاست کے برخلاف اگر تعلیم اور معیشت پر توجہ دی ہوتی تو آج سیاسی بے وزنی سے پیدا ہونے والے اس ناقابل تلافی خسارے کو کچھ کم کیا جاسکتا تھا۔ اس وقت تو صرف یہی حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ مسلمان ۲۵ کروڑ ہیں اور بے کار ہیں۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان تعلیم کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، مذہبی چندے دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے لیکن سماجی کام سرکار کے حوالے کردیتا ہے۔ معیاری اسکول ،کالج ، تکنیکی ادارے، کمیونٹی سینٹر اور اسپتال وغیرہ قائم کرنے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ دور جانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ہندوستان میں سرگرم مذہبی جماعتوں پر ایک نظر ڈال لیں کہ کون سی جماعت کس پیمانے پر کالج ، تکنیکی ادارے یا اسپتال وغیرہ چلا رہی ہے۔ مسلمان اپنی غلط ترجیحات کی وجہ سے مارا جارہا ہے اور الزام آرایس ایس،بی جے پی،مودی،راہل اور فرضی سیکولرزم کے سر ڈال رہا ہے۔

جب تک مسلمان اپنی غلط ترجیحات پر کھلے دل سے ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد نہیں کرے گا اس کے اچھے دن نہیں آنے والے ہیں۔اور ان غلط ترجیحات میں ’سیاست میں فعالیت سر فہرست ہے۔ اس کی دوسری ترجیح شاندار گھر نہیں معیاری تعلیمی ادارے ہونا چاہئے۔ میں ممبرا میں رہتا ہوں جہاں مسلمانوں کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ ہے اور ان کے پاس ایک بھی معیاری اسکول یا کالج نہیں ہے۔ سو جس طرح یہ پانچ لاکھ مسلمان بے حس ہے یا یوں کہہ لیں کہ کوئے کی طرح بہت ہوشیار ہے(کوا صبح صبح سب سے پہلے سنڈاس پر ہی ٹھور مارتا ہے) ٹھیک اسی طرح ہندوستان کا ۲۵ کروڑ مسلمان ہے۔ یہ کرتا کچھ نہیں ہے صرف شور مچاتا ہے۔یہ اس خوش فہمی میں ہے کہ کانگریس کی شکست اس کی اپنی شکست ہے جب کہ کانگریس کی شکست ایک ’سیکولر ذہن‘ کی شکست ہےاور اس میں مسلمان آٹے میں نمک کے برابر ہے لہٰذا وہ جس قدر جلد اس غلط فہمی سے باہر نکل کر زمینی سطح پر خود کو سنوارنا شروع کرے گا اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہوگا۔ اگر مسلمان خود نہیں بدلے گا، خود فلاح و بہبود کا کام نہیں کرے گاتو پھر دوسری کوئی طاقت نہیں کرنے والی ہے۔اس لئے یہ شکست مبارک ہو کہ اگر اب بھی ہوش میں نہیں آئے تو پھر تمہاری داستان نسل آئندگان لکھتے ہوئے تھوکے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :یہ تحریر ہاشم خان کی فیس بک وال سے شکریہ کے ساتھ کاپی کی گئی ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply