رقص بربریت ۔۔۔مونا شہزاد

رات نے بے بسی سے ہاتھ ملے اور سر اٹھا کر اللہ تعالی سے شکوہ کیا
“یا رب العالمین! میں تو آرام کے لئے بنائی گئی تھی ،یہ میرے دامن کو تو نے سیاہ کاروں سے کیوں بھر دیا؟”
رات رینگ رینگ کر سسک سسک کر بیت رہی تھی ،کمرے میں مقید جانیں اپنے سر پٹک رہیں تھیں، ان کی آنکھوں میں ایک سوال تھا۔
“اللہ تعالی ہمارا کیا قصور ہے جو یہ درندے ہمیں نوچ رہے ہیں؟”
گھڑی کی سوئیوں کو زوال تھا، گھنٹے لگتا تھا صدیوں پر محیط ہوچکے تھے ، وقت نے تھرا کر آنکھیں بند کرلیں تھیں،وقتا فوقتا چیخوں سے کمرہ گونج اٹھتا ، تین معصوم جانیں کئی شیطانوں کی نوچ کھسوٹ کا تختہ مشق بنی ہوئی تھیں ،یہ اذیت ناک سلسلہ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے شروع تھا ،جنسی زیادتی کے جتنے بدترین طریقے تھے وہ ان بچے بچیوں پر آزمائے جاچکے تھے۔بلیک نیٹ پر دنیا بھر سے گدھ اور بھیڑیے رال ٹپکاتے بیٹھے ہوئے تھے، وہ کمپیوٹر کی بورڈ سے اپنی گرسنہ حیوانیت سے بھری خواہشات لکھتے اور ڈالرز کی بڈنگ لگاتے،سب سے زیادہ بڈنگ والے کی خواہش شیطان کے حواری بجا لاتے ،اس وسیع وعریض کمرے میں تین معصوم فرشتے قید تھے۔ان فرشتےنما معصوم بچوں کی چیخوں سے عرش معلی ہل رہا تھا۔عرش پر فرشتے بے چینی کا شکار تھے۔ ننھے بچے اب تھک چکے تھے ، ان کا رواں رواں مسلا جاچکا تھا ،مگر شیطان کے پجاری حیوانیت کے ننگے ناچ میں مصروف تھے، آخرکار حیوانیت نے اپنے خون آشام پنجوں سے ان معصوم روحوں کو اتنا پامال کیا کہ وہ تھک کر خاکی جسم سے پرواز کرگئیں ۔اب شیطان کے چیلے ان کے خاکی جسموں کو آرے سے کاٹ کر خود بھی محظوظ ہورہے تھے اور نیٹ پر بیٹھے شکاریوں کو بھی محظوظ کررہے تھے ۔انسانیت سہمی ہوئی ایک کونے میں پڑی گریہ  و زاری میں  مصروف تھی ۔انسانیت کا پیراہن تار تار ہوچکا تھا، اس کے بین زمین و آسمان کو مضطرب کررہےتھے ۔ کمرے کی بے جان اشیا اور دیواریں بھی گریہ میں مصروف تھیں۔ سرد اور بظاہر سنگی نظر آنے والی دیواریں بولیں:
“اگر اس دو پیروں والی مخلوق کو “انسان” کہا جاتا ہے تو ہم تو بے جان ہی بھلے۔”
کمرے کی بے جان اشیا چلائیں:
“نہیں! یہ “انسان “تو نہیں ہیں، یہ معصوم بچے انسان تھے ۔یہ “مخلوق ” تو درندے بھی نہیں، “درندے” بھی اپنے ہم نسل پر ایسا ستم نہیں توڑتے ۔”
کیمرے، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ بھی سسکا:
“یقین کرو ! ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہمارے ذریعے یہ لوگ ایسی بدی پھیلائیں گے۔ اللہ شیطان کا بیڑہ غرق کرے ۔”
شیطان کُرلایا:
“مجھے الزام مت دو۔ میں کسی کو کسی کام پر مجبور نہیں کرتا ،یہ تو حضرت انسان ہے جو حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ میں صرف راستہ دکھاتا ہوں، یہ تو انسان ہے جو کہیں ایٹم بم سے حملہ کرتا ہے تو کہیں جلاد کے روپ میں انسانیت کے گلشن کو تاراج کرتا ہے۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہر گلی کا کونہ کونہ چھان چکا تھا،معصوم ناز پتا نہیں کہاں گم تھی ،ایسے لگتا تھا جیسے اسے زمین نگل گئی ہو،اس نے پریشانی سے سوچا:

“اگر میں دوستوں کے ساتھ  کرکٹ کھیلنے    میں مصروف  نہ ہوتا تو  بہن گم نہ ہوتی ۔وہ ابھی کچھ دیر پہلے تک تو یہیں کھیل رہی تھی۔”
وہ گھر کی جانب تھکے تھکے قدموں سے چل پڑا۔دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا، امی کی آواز آئی ۔
“بیٹا اتنی دیر باہر لگا دی۔بہن تھک گئی ہوگی۔”
اس کی امی لپک کر صحن میں آئیں ۔اسے اکیلا پا کر وہ بے تابی سے بولیں:
“شاہد ! بہن کہاں ہے؟”
شاہد سسک سسک کر رو پڑا، اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ امی کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی معصوم گڑیا شکاریوں کی دنیا میں گم گئی ہے ،انھیں اخبار کی ساری شہ سرخیاں اور ماضی قریب کے وہ تمام واقعات یاد آگئے جب گمشدہ بچوں کی لاشیں ہی ملی تھیں ،انھوں نے ہذیان زدہ لہجے میں ابا کو آواز دی۔ابا نے جب سنا کہ ناز گم ہے تو دیوانہ وار بغیر جوتوں کے گلی میں بھاگ کر ناز کو آوازیں دینے لگے۔پورا محلہ ان کی آوازوں سے ناز کو ڈھونڈنے باہر نکل آیا۔ ہر چہرے پر ایک خوف تھا،ایک سوال تھا:
“کیا ناز زندہ سلامت گھر لوٹ پائے گی؟”۔
ناز کی امی کو رہ رہ کر غشی کے دورے پڑ رہے تھے ۔ان کی نازوں کی پلی ،چھوٹی سی تین سالہ گڑیا درندوں کی دنیا میں کہاں بھٹک رہی تھی ۔وہ بار بار کہتیں:
“ہائے اگر میری پھول سی بچی کسی درندے کے ہتھے لگ گئی تو کیا ہوگا۔”
ہر شخص کے دل میں ایک دھڑکا سا تھا ،سب لوگ بخوبی جانتے تھے کہ پچھلے کچھ سالوں سے معصوم بچے بچیوں کی آبروریزی اور قتل کے واقعات آئے دن سننے میں آتے رہتے تھے ۔چند روز ایک شور ہوتا تھا ، انصاف کی فراہمی کے وعدے ہوتے ،آخر میں پھر مقتول بچوں کے لواحقین اپنے معصوم بچوں کی یادیں دل میں بسائے نیم مردہ سے رہ جاتے تھے اور دیگر لوگ پھر اپنے معمولات زندگی میں اس طرح مصروف ہوجاتے تھے ،جیسے کبھی کوئی قیامت ٹوٹی ہی نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولوی صاحب فجر کی اذان دینے کے لئے گھر سے نکلے، کچرا کنڈی پر انھیں چند کتے کسی شئے کو سونگھتے نظر آئے ،انھوں نے بے اختیار ہی ایک چھڑی سے انھیں بھگایا ،ان کی نظر اس چیز پر پڑیں  جسے کتے سونگھ رہے تھے یہ ایک ننھا انسانی جسم تھا۔ مولوی صاحب لپک کر پاس گئے۔ایک معصوم کلی کچلی ہوئی پڑی تھی، مولوی صاحب گزشتہ دو روز سے مسجد میں اس کی بازیابی کی درخواست اور دعائیں ہی تو کروا رہے تھے ۔بچی کے عریاں جسم پر ان کی نظر پڑی تو وہ ہول گئے ،اس معصوم کا جسم اس پر ٹوٹی قیامت کی کہانی سنا رہا تھا۔ انھوں نے لپک کر اپنا صافہ اس پر ڈال دیا۔پولیس موبائل اگلے دس منٹ میں پہنچ چکی تھی ۔
مولوی صاحب کا دماغ سن تھا ،وہ بس یہ سوچ رہے تھے۔
۔۔۔” تین سال کی پیاری بچی جسے دیکھ کر کسی فرشتے کا گمان ہوتا ہے ،اسے ہوس کی نظر سے دیکھ کر کوئی کیسے پامال کرسکتا ہے۔کیا ہوس اور بوالہوسی کا دیو اس قدر طاقتور ہے کہ ایک انسان کو اس قبیح فعل کے لئے آمادہ کردیتا ہے؟
کیا “عورت” کی طلب ایسی ظالم ہے کہ آپ ایک کلی کو پوری عورت سمجھ کر مسل ڈالتے ہیں؟
کیا بازار میں جسم بکنے بند ہوگئے ہیں، جو یہ درندے اس طرح معصوم بچوں کی  چیرپھاڑ کرتے پھر رہے ہیں؟
کیا گناہ گار کی ماں عورت نہیں تھی؟
کیا اس کے گرد کوئی بہن نامی رشتہ نہیں ہوگا؟
کیا اس کی بیٹی،بھتیجی،بھانجی کوئی نہیں ہوگی؟
کیا وہ اپنے پیارے رشتوں کے جسمانی اعضاء کو اسی نظر سے دیکھتا ہوگا؟ ۔۔”
ان کے دماغ میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ وہ نماز سے فارغ ہوکر گھر پہنچے انھوں نے آرام کی  غرض سے لیٹنا چاہا مگر وہ آنکھ بند کرتے تو اس معصوم بچی کی برہنہ، نوچی ہوئی لاش ان کی نظروں کے سامنے آجاتی۔ مولوی صاحب کو ایک چپ سی لگ گئی تھی، ان کو ہر چہرے میں ایک قاتل نظر آتا۔ وہ بے بسی سے سوچتے:
“اس اشرف المخلوقات میں سے وہ کون سے لوگ ہیں جو اسفل السافلین ہیں اور گناہ کبیرہ کر کے بے فکر اللہ کی زمین پر دندناتے پھر رہے ہیں ؟”۔
ان کا دماغ ہزاروں سوالات میں گم تھا،اب وہ اپنے دونوں بچوں کو خود اسکول چھوڑتے اور خود لیتے۔اب ان کے بچے ان کے بغیر کہیں اکیلے نہیں جاتے تھے ۔مولوی صاحب کو اب ہر وقت ایک دھڑکا سا رہتا،وہ اپنے بیٹے ،بیٹی کو گلی میں کھیلنے بھی نہیں جانے دیتے۔ان کی راتیں بے خواب ہوگئی تھیں، وہ اکثر خوف ناک خواب دیکھتے ،معصوم بچے بچیوں کی جنسی زیادتی سے مسخ شدہ لاشیں دیکھتے۔پھر یہ بچے بچیاں ان کا دامن پکڑ کر پوچھتے:
“مولوی صاحب! ہمارا انصاف کون کرے گا؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بہت مشکل سے گھر پہنچی ،اس کے انگ انگ میں اذیت کا دریا بہہ رہا تھا،اس کا تین سالہ معصوم دماغ عجب بھول بھلیوں میں گم تھا ،اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اس کےساتھ کیا ہوا تھا ؟ اسے بس تکلیف یاد آئی اس نے سوچا:
وہ انکل بہت گندہ تھا، اس نے مجھے بہت درد دیا۔”
اس پر گزری واردات اسے مبہم سی یاد آئی تو وہ ڈر کر بلک بلک کر رونے لگی ، اس نے سوچا:
“اب میں کبھی امی کے بغیر باہر نہیں جاونگی۔ ”
مگر یہ کیا اس کا گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا ، اس نے حیرت سے سب کو دیکھا پھر بے یقینی سے سوچا :
“یہ سب لوگ رو کیوں رہے ہیں؟
امی کیوں بار بار گر جاتی ہیں؟
امی مجھے کیوں نہیں دیکھ پارہیں؟
یہ مجھے سفید کپڑوں میں کیوں لپیٹ رہے ہیں؟
یہ مجھے چارپائی پر ڈال کر کہاں لے جا رہے ہیں؟”
وہ سہمی سہمی سی اس چارپائی کے پیچھے چل رہی تھی ۔اس کے والد کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔اس نے اپنے والد کا ہاتھ پکڑا،وہ ایک لحظہ کے لئے چونک سے گئے۔مگر پھر کلمہ پڑھتے چارپائی کندھوں پر اٹھائے چلتے گئے۔
وہ خوف زدہ تھی ،مگر ابا کا کرتہ تھامے ان کے ساتھ چلتی گئی۔اس نے دیکھا چارپائی مٹی کے ڈھیر کے پاس رکھ دی گئی۔ وہ تڑپ گئی اور بولی:
“ابا جی ! دیکھیں۔۔۔ میری طرف دیکھیں ۔۔۔۔ ”
مگر وہاں نماز شروع ہوگئی ،اس کی چارپائی سامنے رکھی تھی اور سب لوگ نماز پڑھ رہے تھے،اس نے سوچا یہ کیسی نماز ہے ؟
یہ کون سی جگہ ہے ؟
دور دور تک بس سفید پتھر لگے ہوئے تھے،وہ ابھی سوالات کے بیچ گرفتار تھی کہ ابا نے اس کے بھائی کے ساتھ اسے اٹھا کر مٹی کے گڑھے میں ڈال دیا۔وہ بلک بلک کر روئی :
“ابا جی ! بھیا ! مجھے دیکھو تو سہی۔ میں امی کے بغیر اس گڑھے میں کیسے سو سکوں گی۔مجھے ڈر لگے گا۔”
اباجی اور بھیا بہت اونچی آواز سے رو رہے تھے ۔اس نے کبھی انہیں روتے نہیں دیکھا تھا،وہ سسکتی رہی ،مگر اس کی آواز کسی نے نہیں سنی۔
کچھ دیر بعدسب لوگ واپس چلے گئے ،وہ قبرستان میں اپنی ہی ننھی قبر کے سرہانے بیٹھ گئی ۔اچانک ایک طرف سے بچوں کا ایک گروہ آیا ،اس کی سربراہی ایک سبز آنکھوں والی بچی کررہی تھی۔اس نے اپنا نام زینب بتایا اس  نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور بولی:
“چلو ناز اب ہمارے ساتھ چلو۔”
ناز نے معصومیت سے اس کی طرف دیکھا ،وہ لڑکی مسکرائی اور بولی:
“اب اس دنیا کو ہماری ضرورت نہیں رہی۔اب یہاں بھیڑیوں کا راج ہے۔”
اس کا ننھا دماغ سب کچھ سمجھنے سے قاصر تھا۔اس نے دیکھا ان سب بچوں کے چہرے روشنی سے چمک رہے تھے، انھوں نے خوبصورت پریوں جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔وہ بھی اب تکلیف اٹھا اٹھا کر تھک چکی تھی ۔اس لئے ان خوبصورت معصوم روحوں کے ساتھ چل پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبرستان میں ایک عجب سوگواری کی فضا طاری تھی۔تمام اہل قبور سر جھکائے ننھی قبر کے سرہانے بیٹھے تھے۔ قبرستان کے سب سے پرانے باسی نصیر احمد بولے:
“اچھا ہی ہوا میں اتنے سال پہلے یہاں کا مکین بن گیا ،اب اس گیٹ سے باہر کی دنیا رہنے کے قابل نہیں رہی ۔”
اماں ہاجرہ بھی آہستگی سے بولیں:۔
” چلو آج “زمین “سے ایک وعدہ لیتے ہیں ۔۔۔ ان قبیح سانحوں کے ذمہ دار افراد جب تمھاری گود میں سمٹنے آئیں گے ،تو تم انھیں جگہ نہیں دو گی؟۔۔۔۔”
زمین نے تھرتھرا کر اثبات میں جواب دیا۔دور سورج غروب ہوچکا تھا، پرندے گھروں کو لوٹ چکے تھے ۔قبرستان میں ہوا گلاب کے پھولوں اور اگر بتیوں کی خوشبووں سے بوجھل سی سسکتی پھر رہی تھی ۔ انسانیت کی لاش بیچ قبرستان میں بے گور و کفن پڑی تھی۔انسانیت کی لاش کی سرد کھلی ہوئی آنکھیں ایک سوال کررہی تھیں ۔
“اے حضرت انسان کیا تجھے میری اب ضرورت نہیں رہی؟”۔

 

Facebook Comments

Munnaza S
میرا نام مونا شہزاد ہے، میں کالج کے زمانے سے لکھتی تھی،1994 میں بی اے کے دوران قومی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا،جو گاہے بگاہے چلتا رہا۔2001 میں شادی کے بعد کینیڈا آنے سے سلسلہ رک گیا۔میں زندگی کی مصروفیات میں گم ہوگئی،زینب کے سانحے نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کیامیں نے قلم سے رشتہ استوار کیا۔اب میری تحریریں تمام بڑے آن لائن پلیٹ فارمز،آن لائن رسالوں، دیگر رسالوں اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply