کیونکہ آپ اس کے اہل نہیں ہیں ۔۔۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

شام کے وقت بادشاہ کے شہر میں آنے کا اعلان کیا گیا۔ آگے آگے فوجی بینڈ دھنیں بجاتا چل رہا تھا اردگرد کئی محافظ تھے جن کے درمیان میں بادشاہ سلامت چل رہے تھے۔ بادشاہ کو اس حال میں دیکھ کر جو شخص بھی ہنستا اسے بے وقوف سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ ایسی کیا بات تھی کہ بادشاہ کو دیکھ کر لوگوں کی ہنسی نکلتی تھی اور وہ بے وقوفوں میں شمار ہوتے تھے۔ دراصل بیوقوف لوگ نہیں بادشاہ اور ان کے وزراء تھے۔

کسی ملک پر ایک ایسا بادشاہ حکومت کرتا تھا جسے اللّٰہ تعالیٰ  نے ہر چیز سے نواز رکھا تھا سوائے عقلمندی کے۔ اس کی  بیوقوفی کی خبر سن کر پڑوسی ملک سے دو درزی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کو ایک حیرت انگیز لباس تیار کرکے دیں گے۔ بادشاہ نے پوچھا حیرت انگیز سے کیا مطلب ہے تمہارا؟ ۔۔درزیوں نے کہا بادشاہ سلامت ہم آپ کو ایسا لباس تیار کرکے دیں گے جسے صرف عقلمند دیکھ سکیں گے بیوقوف لوگ اسے نہیں دیکھ سکیں گے۔ بادشاہ جو خوبصورت کپڑوں کا شوقین تھا وہ فوراً تیار ہوگیا۔ اس نے درزیوں کے لیے الگ کمرے کا انتظام کیا اور انہیں سونے کے دھاگے کے بہت سے گولے بھی فراہم کیے ان چالاک درزیوں نے سونے کے وہ گولے چھپا دیے اور خالی مشین چلانے لگے جس کی آوازیں سن کر سب یہی سمجھتے تھے کہ درزی بہت محنت سے کام کررہے ہیں۔ کئی روز گزرنے کے بعد بادشاہ نے اپنا سپہ سالار بھیجا کہ جاؤ اور دیکھوں کہ میرا حیرت انگیز لباس کس طرح تیار ہورہا ہے۔ سپہ سالار درزیوں کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ خالی قینچی اور مشین چلاتے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہاں تو کپڑے کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ لیکن ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے درزیوں کی بات یاد آگئی کہ ان کپڑوں کو صرف عقلمند ہی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔بیوقوف سمجھے جانے کے ڈر سے سپہ سالار خاموش رہ گیا اور درزیوں سے کہنے لگا کہ بھئی تم تو بہت ہی اچھے کپڑے سی رہے ہو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ درزیوں نے سونے کے دھاگے طلب کیے جو انہیں دے دیے گئے۔ سپہ سالار نے بادشاہ کو جاکر بتایا کہ عالی جناب واقعی بہت ہی شاندار کپڑے تیار ہورہےہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کی خوشی مزید بڑھ گئی اور ہر وقت اپنے نئے لباس کے بارے میں سوچتا رہا۔

اب چند دن گزرنے کے بعد بادشاہ نے اپنے وزیر کو بھیجا کہ تم دیکھ کر آؤں۔ وزیر نے بھی وہاں کپڑا تو دور سونے کا وہ دھاگہ تک نہیں دیکھا۔ لیکن اسے بھی درزیوں کی وہ بات یاد آگئی اور خاموش رہا۔ اور بولا کہ تم تو واقعی بہت ہی اچھے کپڑے بنا رہے ہو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟ درزیوں نے مزید دھاگہ طلب کیا جو انہیں دیدیا گیا۔ وزیر صاحب نے بھی بادشاہ کو یقین دلایا کہ نہایت ہی خوبصورت کپڑے تیار ہورہےہیں۔ بلآخر مقررہ وقت آپہنچا۔ پورے ملک میں اعلان کرادیا گیا کہ آج شام بادشاہ سلامت اپنے نئے کپڑوں میں پورے ملک کی سیر کریں گے۔ صبح صبح بادشاہ درزیوں کے پاس پہنچا اور اپنے کپڑے طلب کیے۔ ایک درزی خالی تھیلی اُٹھائے ہوئے آیا اس نے بادشاہ کے کپڑے اتروائے اور پھر بادشاہ کے آگے پیچھے خالی ہاتھ گھمانے شروع کر دیے ۔۔تھوڑی دیر یہ کھیل جاری رکھنے کے بعد بادشاہ سلامت سے کہا گیا اب آپ تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔ بادشاہ کو تو کوئی کپڑا نظر نہیں آیا لیکن اس نے بھی اپنی عقلمندی کا بھرم رکھتے ہوئے چالاک درزیوں کو بہت ساری دولت دی اور ان کی خوب تعریف کی۔ درزیوں نے بادشاہ سے اجازت طلب کی اور اپنے ملک روانہ ہوگئے۔ بادشاہ اعلان کے مطابق اپنے اس نئے لباس میں شہر کی سیر کو نکلے۔ آخر بادشاہ نے پورے شہر کا چکر کاٹ لیا سب کے سامنے اس کی بے عزتی ہوگئی لیکن وہ بیچارہ کیا کرتا۔ کیا اپنے آپ کو بیوقوف کہلواتا؟

آج وطن عزیز کی حکمران جماعت اور ان کو حکمران بنانے والے لوگ بالکل اس کیفیت سے گزر رہے ہیں جس سے اس کہانی کے کردار یعنی بادشاہ اور اس کے وزراء گزرے تھے۔ آئے دن برسرِ اقتدار جماعت اپنی غلط بیانیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کے سامنے ننگے ہونا تو پسند کرتے ہیں لیکن اپنی نااہلی کا اعتراف کرکے خود کو بیوقوف ڈکلیئر نہیں کرسکتے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے سلیکشن کے لیے ووٹ دیے ہیں وہ بھی ان کی برپا کی ہوئی تباہی کو تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں اور بیوقوف بن کر خود کو دھوکا دیتے ہیں۔ یعنی کپتان کو حکمران بنانے والوں نے کپتان پر صادق اور امین کا لیبل چسپاں کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے بیچارے یوتھیوں کا کپتان پر ایمان زیادہ پختہ ہوگیا ہے۔ اور چونکہ یوتھیوں کی نظر میں صرف کپتان ہی نجات دہندہ ہے اسی لیے اگر آج ڈالر اور پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھ کر مہنگائی کا طوفان برپا کررہی ہیں تو یوتھیوں کی نظر میں یہ تباہی نہیں تبدیلی ہے۔ اگر کپتان پورے ملک کو آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈال دیں تو یوتھیوں کے مطابق اسی میں ہی ملک کی بقا ہیں۔

آج یوتھیے  اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ کپتان ایک ایک کر کے ہر اس چیز سے سبسڈی ختم کررہا ہے جس میں غریب کی سہولت ہو حالانکہ  دعویٰ ان کا غربت ختم کرنے کا تھا جبکہ یہ تو غریب کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز اور نام نہاد سستی بازاروں میں دستیاب قلیل مقداروں کی اشیاء جہاں عام مارکیٹ سے قیمت زیادہ ہے وہی معیار بھی ناقص ہے بلکہ جن اشیاء مثلاً آٹا، گھی اور چینی کی قیمت میں جو کچھ کمی ہے وہ عدم دستیاب ہیں۔ آج یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ترقی کی شرح اس سال نیپال اور مالدیپ جیسے ملکوں سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود بیچارے یوتھیے  ایسی امید یں لگائے  بیٹھے ہیں جیسے راکیش روشن کی فلم میں وہ بڑھیا اس امید کے ساتھ جیتی ہے کہ میرے کرن اور ارجن آئیں گے اور پی ٹی آئی کے یوتھیے  اس امید میں بیٹھے ہیں کہ میرے کپتان کے نئے پاکستان میں باہر ملکوں کے لوگ کام کرنے آئیں گے۔ میری ان یوتھیوں سے گزارش ہے کہ براہِ کرم آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ” ایشیا اینڈ دی پیسفک” کے سالانہ اقتصادی اور سماجی سروے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ بنگلہ دیش کی 7.3 فیصد بھارت کی 7.5 فیصد مالدیپ اور نیپال کی 6.5 فیصد کے مقابلے میں 2019 میں پاکستان کی جی ڈی پی” مجموعی پیداوار” 4.2 فیصد رہی گی جبکہ 2020 تک یہ 4 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

نفسیات کی لیکچرر کلاس میں داخل ہوئی اور پانی سے بھرا گلاس ہاتھ میں اٹھا کر پوچھا اس کا وزن کتنا ہے؟ کلاس کے ہر طالب علم نے اپنی سمجھ کے مطابق وزن بتایا۔ لیکچرر نے گلاس بدستور ہاتھ میں اٹھائے رکھا اور کہا اگر ایک منٹ تک اٹھائے رکھوں تو اس کا وزن معمولی ہے۔ ایک گھنٹہ اٹھائے رکھوں تو میرا ہاتھ دکھنے لگے گا ۔ ایک دن اٹھائے رکھوں گا تو میرا ہاتھ شل ہو جائے گا جبکہ گلاس اور پانی کا وزن اتنا ہی ہے۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مثال پر کپتان نیازی اور اس کی  ٹیم کو غور کرنا چاہیے کہ دنیا کے سامنے خود کو بے پردہ کرنے کے بجائے اپنی نااہلی کا اعتراف کرلیں اور ملک کے چلانے کا یہ بوجھ اپنے ذہن سے اتار لیں جس کے آپ اہل نہیں ہیں ۔ کیوں کہ آئندہ دنوں میں یہ بوجھ مزید بھاری ہونے والا ہے۔ اگر ایک گلاس پانی پورے دن اٹھائے رکھنے سے ہاتھ شل ہوسکتا ہے تو پھر اس پورے ملک کے بوجھ کو سالوں اٹھانے سے آپ کے ذہن اور جسم دونوں شل ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ آپ اس کے اہل نہیں ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply