• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پنجابی استعمار اور محروم اقلیتیں۔۔۔۔ سید مصطفین کاظمی

پنجابی استعمار اور محروم اقلیتیں۔۔۔۔ سید مصطفین کاظمی

ماضی قریب میں چھوٹے صوبوں میں شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں پنجابی سرمایہ دار اور حکمران براہ راست رکاوٹ رہے ہیں۔ گدون امازئی کے کارخانوں کو حکومتی سرپرستی میں تباہ کر کے سرمائے اور مشینری کو پنجاب اور سندھ میں مال غنیمت کی طرح بانٹا گیا ۔ غازی بروتھا پاور پروجیکٹ کے نقشے میں زبردستی تبدیلی کی گئی تاکہ بڑے صوبے کو سب زیادہ سبسڈی کا حقدار ٹھرایا جا سکے۔ حال میں سی-پیک میں زبردستی مشرقی روٹ شامل کیا گیا اور اصل روٹ، جس کا گذر ملک کے پسماندہ ترین علاقوں سے ہونا تھا، کو پشت پر ڈال کر پھر سے پنجاب کی حاکمیت اور چھوٹے صوبوں کو محروم رکھنے کے روایت کو برقرار رکھا گیا ۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی اور بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں یہاں کے عوام کو ان کی محرومیوں کو یاد دلانے کا کام بدرجہ احسن انجام دیتی چلی آ رہی ہیں ۔ اس ضمن میں محمود خان اچکزئی کی تقاریر اور بیانات کو ملکی میڈیا میں بھرپور کوریج دی جاتی ہے۔

البتہ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ بلوچستان و خیبر پختونخواہ میں عوامی حقوق کے استحصال میں پنجابی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ خود ان صوبوں کے عوامی نمائندے بھی برابر کے شریک ہیں۔ پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی اشتراکی حکومت پانچ سال رہی لیکن جب بھی عوام کو ریلیف دلانے کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ جناب ہم تو طالبان کے نشانے پر تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ایسے ہی حالات میں فنڈز چوری کے نئے ریکارڈ بنے۔ مشہور تھا کہ تب کے وزیراعلی، حیدر خان ہوتی، کام پڑنے پر اپنے والد کا حوالے دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ” بابا لاایزی لوڈ او کا” ( بابا کو ایزی لوڈ کروا دو )۔ اور اب “اے این پی” کے رہنما اپنے جلسوں اور پروگراموں میں عوام کو مسلسل باور کرواتی ہے کہ ان کی محرومیوں کا براہ راست زمہ دار پنجاب ہے ۔ 

محمود اچکزئی اپنی تقاریر و بیانات میں کھل کر پشتون عوام کے استحصال کا ذکر کرتے ہیں ۔ گویا ہر دو صوبوں کے پشتون عوام نے اپنے حقوق کی جنگ کا ٹھیکہ خان صاحب کو دیا ہوا ہے ۔ لیکن درحقیقت بلوچستان کے وسائل سے سب زیادہ فیض اچکزئی خاندان اور ان کے احباب کو پہنچ رہا ہے، پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں کا سا سماں ہے۔ محمود خان خود میاں صاحب کے مشیر خاص ہیں، ان ایک بھائی صوبے کا گورنر ، دو اور بھائی اور بیوی کی بھابی صوبائی اسمبلی کے ممبر ، ایک اور سالی ایم این اے اس کے علاوہ ان ایک سالا مینیجر کوئٹہ ائر پورٹ، دوسرا سالا ڈی آئی جی موٹر وے پولیس اور اگر دیگر عزیز و اقارب کا تذکرہ کیا جائے تو بات دور نکل جائے گی ۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب افراد اپنی قابلیت کے وجہ سے اس مقام پر پہنچے ہیں تو شاید یہ اس دہائی کا سب بڑا لطیفہ ہوگا ۔ چلیں اچکزئی صاحب سے یہ پوچھ لیں کہ جناب آپ اور آپ کے خاندان کے ممبران اسمبلی نے اپنے ترقیاتی فنڈز میں سے کتنی رقم عوامی فلاح پر خرچ کی، کتنے کالج، کتنے سکول ، کتنے ہسپتال اور دیہی صحت کے کتنے مراکز قائم کیے ؟

غربت اور حقوق کے سلب ہونے کا احساس وہ مرکب ہے جو عوام کو حکمرانوں کے سامنے کھڑا ہونے پر اور بغاوت پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ ہی احساس محرومی تھا جس کی وجہ سے سن اکہتر میں ملک کی اکثریت، اپنا پاکستان اقلیت کے حوالے کر کے نیا ملک بنا گئی ۔ لیکن ہماری تنگ نظر اور نااہل اسٹیبلشمنٹ نے اس سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھا اور محروم قومیتوں کے حقوق پر اکثریت اور اسکے اقلیت میں موجود گماشتوں کی اجارہ داری اب بھی قائم ہے۔

صاحبو ‘ پاکستان میں اب بھی چند مشرقی پاکستان موجود ہیں۔ گلگت بلتستان کا علاقہ جہاں کے عوام نے اپنے زور بازو سے آزادی حاصل کر کے پاکستان میں شامل ہونا چاہا تھا، اسکی عوام کو آج بھی پاکستان سے الحاق کا انتظار ہے ۔ فاٹا کو دقیانوسی ایف سی آر کے خاتمے کا انتظار ہے ۔ بلوچ عوام کا احتجاج، جسے اکثر شورش کا نام دیا جاتا ہے، دراصل حقوق کی جدوجہد ہے ۔ ان علاقوں کی محرومیوں کے خاتمے تک یہاں حکیم اللہ محسود اور براہمداغ بگٹی جسے لوگ پیدا پوتے رہیں گے اور ماضی کیطرح مستقبل میں بھی ہندوستان ، امریکہ یا پھر مشرق وسطی کے ممالک میں ان کی بولی لگتی رہے گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر پنجاب کے کوئی دوست پنجاب کے محکوموں کا مقدمہ پیش کرنا چاہیں تو “مکالمہ” حاضر ہے۔ ایڈیٹر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply