کیا افغانستان دوسرا شام بننے جارہا ہے

بدترین خدشات کی تصدیق ہوتی نظر آرہی ہے۔ مغربی مین سٹریم میڈیا جس موضوع پہ خاموش رہا اب اپنا چپ کا روزہ توڑتا نظر آرہا ہے تو شائد ہم جیسے بھی کھل کے اس موضوع پہ بات کرلیں ورنہ تو مخالفت کا طوفان اٹھ جاتا ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کی رپورٹ چشم کشا ہے جس کے مطابق پاکستانی حکام نے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور علاقائی نمائندے جنرل جان نکلسن کو کھل کے بتایا کہ امریکہ افغانستان میں داعش کی آمد اور ترویج کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اخبار کے مطابق پاکستان کا اصرار تھا کہ امریکہ افغانستان میں داعش کے پھیلاؤ اور طالبان کے ساتھ کشمکش کے نتیجے میں پھیلنے والے انتشار پہ جلد سے جلد قابو پالے ورنہ روس افغانستان میں اسی نوعیت کی فوجی مداخلت کرسکتا ہے جس نوعیت کی شام میں ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں شام میں داعش کو مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ بہت اہم خبر ہے جس کو نظرانداز کرنا حماقت ہے۔ شام میں شکست کے بعد افغانستان میں داعش کی قوت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ خود افغانی مندوب برائے ایشیائی کانفرنس نے تسلیم کیا کہ داعش افغانستان کی قوت چالیس سے پینتالیس ہزار افراد پہ مشتمل ہے لیکن آزاد ذرائع کا اندازہ ہے کہ ساٹھ ہزار افراد تک مشتمل ہوسکتی ہے یعنی افغان طالبان کے برابر۔ اخبار بتاتا ہے کہ پاکستانی حکام نے امریکہ کو اطلاع دے دی تھی کہ شام کے شکست خوردہ داعشی اپنا اگلا ٹھکانا افغانستان میں بنانے والے ہیں لیکن امریکہ ان کی افغانستان آمد کو روکنے میں ناکام رہا۔ حکام کے مطابق اگر امریکہ اب بھی افغانستان میں پھیلنے والے داعشی اور طالبانی انتشار کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتا ہے تو روس کے پاس مکمل جواز ہے اپنی اور اپنے علاقائی اتحادیوں کی سلامتی کو جواز بنا کے افغانستان میں فوجی مداخلت کرنے کا۔
دو ماہ قبل افغانستان کے قضیہ پہ چین، روس اور پاکستان کی مشترکہ کانفرینس ماسکو میں ہوئی تھی جس میں یقیناً اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی پہ غور کیا گیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ روسی میڈیا نے اسے روس، چین، پاکستان سپر پاور تکون کا نام دیا جو یوریشیا میں سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ہر طرح سے تیار ہے۔ شائد اس کانفرنس میں اہم اور بنیادی تزویروتی فیصلہ جات ہوچکے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے جواب میں پاکستان نے کسی انتظار کے بغیر افغانستان میں موجود داعشی ٹھکانوں پہ گولہ باری کی۔ اور افغانستان سے کچھ کرنے کا مطالبہ کیا۔
ضروری ہے کہ صورتحال کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔
افغانستان کے اندر داعش اور افغان طالبان کی قوت تقریباً برابر ہوچکی عالمی میڈیا اس بات پہ مکمل طور پہ خاموش ہے کہ شام کے شکست خوردہ داعشی کس راستہ سے افغانستان میں داخل ہوئے؟؟ لاجسٹک سپورٹ کس کی تھی؟؟ اس میں انڈیا کا نام لینے سے سب کو خوف ہے۔ سیاسی مجبوریاں ہر ایک سیاسی لابی کی اپنی ہیں لہذا سیاسی مجبورین کی مجبوریوں کو نظرانداز کرتے معاملہ پہ منطقی انداز میں غور کر لیتے ہیں۔ اخبار کا یہ کہنا بھی تھا کہ روس چین اور پاکستان اب افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد کی صورت حال سے مل جل کے نمٹنے کے لئے تیار ہیں تاکہ طاقت کا خلا پورا کیا جاسکے۔ روسی مبصرین کا ماننا ہے کہ صرف چین اور روس ہی نہیں بلکہ پاکستان بھی افغانستان میں فوجی مداخلت پہ تیار ہے۔ درحقیقت افغانستان داعش سے سلامتی کے خطرات محض پاکستان کو ہی نہیں بلکہ روس اور چین کا بھی ہیں۔ چین مشرقی ترکستان موومنٹ کے پھیلاؤ سے خوفزدہ ہے اور روس وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں اور روسی فیڈریشن کے مسلمانوں پہ اس کے اثرات سے خوفزدہ ہے۔ شام بہت دور تھا لیکن افغانستان روس کے نرم پیٹ میں واقع ہوا ہے لہذا اس کی بے چینی ظاہر ہے جس خدشہ کا پاکستانی حکام نے بتایا۔
یہاں زمینی صورت حال کچھ ایسی ہے۔ بقول روسی مبصر پاؤلیناتخانووا، خود افغانستان کے اندر چینی فوج موجود ہے جس کا سرکاری طور پہ اعتراف نہیں کیا جاتا۔ ظاہر ہے یہ چینی فوج امریکہ اور افغان حکومت کی رضامندی سے آئی تھی لیکن عالمی میڈیا نے کبھی اس کا ذکر ہی نہ کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل خبریں کس طرح چھپائی جارہی ہیں۔
بہرحال افغانستان کے اندر اب تین قوتیں موجود ہیں۔ طالبان( جنکی یاری علاقہ کے تمام ہمسائیوں بشمول ایران سے بھی ہے) داعش جسکی قوت طالبان کے برابر ہے اور افغان حکومت/فورسز۔
افغان فورسز کے بارے میں اطلاع یہ ہے کہ ساڑھے تین لاکھ فوج میں سے صرف بیس ہزار فوجی عملی طور پہ میدان جنگ میں لڑنے کے قابل ہیں۔ اس فورس میں پولیس بھی شامل ہے اور انکے کے جرنیلوں کی تعداد حیرت انگیز طور پہ ایک ہزار ہے۔ لیکن یہ ایک ہزار جرنیل قابلیت کی بنا پہ فائز نہیں ہوئے بلکہ قبائلی اثر کی بنا پہ فائز ہوئے جنکی جنگی اور تنظیمی قابلیت صفر ہے۔
سوال ہےکہ کون افغانستان کو کنٹرول کرسکتا ہے؟ افغان فورسز؟ جو ہر ماہ علاقہ چھوڑتی جارہی ہیں، اب افغانستان کا پینتیس فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے جس کا اعتراف کیا جاتا ہے لیکن داعش کا زیر قبضہ علاقہ کا بتایا ہی نہیں جارہا جو اس روسی بیانیہ کو تقویت دیتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ ہی نہیں رہا بلکہ پردہ کے پیچھے رہ کے اس کو بڑھا رہا ہے۔
کیا افغانستان خود کو سنبھال سکتا ہے، جبکہ اس کے پاس جنگ لڑنے کے اہل فوجی تعداد میں داعش یا طالبان سے تین گنا کم ہیں اور خود افغان قیادت ہی ذاتی مفادات کی بنا پہ الجھی ہوئ ہے۔ مثلاً افغانستان میں امارات کے سفیروں کو قتل کئے جانے پہ یہ اطلاع بھی آئی کہ یہ سفیروں کا قتل دراصل کرزئی اور اشرف غنی کی باہمی پشتون آویزش کا نتیجہ تھی۔
زور امریکہ پہ ڈالا جارہا ہے کہ امریکہ ہی مسئلہ کو حل کرے ورنہ روس اس کو اپنے طریقہ سے حل کرنے پہ مجبور ہوگا۔ یاد رہے کہ آئندہ ماسکو کانفرینس میں افغانستان کے ساتھ انڈیا اور ایران کو بھی مدعو کیا جائے اور روسی مبصرین یہ بتا چکے ہیں کہ ایران بھی علاقائی طاقتوں پاکستان ، چین اور روس کے ساتھ چلے گا۔ تو اس صورت میں جہاں افغانستان میں امریکی فوج محض آٹھ ہزار رہ گئی ہے جو صرف فضائی سپورٹ اور تربیت و نگرانی کی اہل ہے کچھ کردار ادا کرسکتی ہے؟کیا کچھ کردار ادا کرسکتی ہے؟ جس کا جواب نفی میں ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس پاکستانی وارننگ پہ اپنا کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟
اس سوال کا جواب ہے کہ اب بہت مشکل ہے امریکہ کو کم سے کم ایک لاکھ فوج دوبارہ پہنچانی پڑے گی جس کے لئے پاکستانی اجازت کی ضرورت ہے لیکن اب اس مطالبہ کے پیچھے نائن الیون کے حالات موجود نہ ہونگے اور پاکستان اپنے علاقائی اتحادیوں، روس اور چین کے مشورہ کے بغیر امریکہ کو یہ اجازت نہ دے گا۔ پاکستانی شرائط بہت زیادہ سخت ہونگی جس کی انڈیا اپنے اتحادی امریکہ کو اجازت نہ دے گا۔
لگ یہ رہا ہے کہ ہم نئے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں امریکی یک قطبیت کی دنیا دم توڑ رہی ہے۔
جو بھی ہو افغانستان کے اندر ایک سخت پراکسی وار کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے اور پاکستان کے اندر افغان باشندوں کی پکڑدھکڑ اسی کا حصہ ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ماضی میں افغان مہاجرین کی آزادانہ نقل و حمل اور پاکستانی شہری حقوق دئے جانے پہ ناقد تھے اب اسی کی وکالت کرتے پائے گئے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply