• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹیکنالوجی اور ہماری نوکرشاہی کی شکست خوردہ ذہنیت۔

ٹیکنالوجی اور ہماری نوکرشاہی کی شکست خوردہ ذہنیت۔

اُبر اور کاریم جیسی : رائڈ شیئرنگ: کمپنیوں کے ظہور پذیر ہونے سے قبل وہ تمام گاڑیاں جو اب ان کمپنیوں کے زیر استعمال ہیں، یا یوں کہیئے کہ ان کمپنیوں کے ذریعے زیر استعمال ہیں، یا تو 60 فیصد سے زیادہ وقت فارغ کھڑی رہتی تھیں یا پھر وجود ہی نہیں رکھتی تھیں۔چنانچہ ان گاڑیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی اقتصادی سرگرمی وابستہ نہیں تھی ۔ نتیجہً کسی قسم کی ایکسائز ڈیوٹی یا ٹیکس کی مد میں بھی ان کی سرے سے کوئی شراکت داری ہی نہیں تھی۔ یہ ایک ایسا نادر موقع تھا جس پر کم ہی لوگوں کی نظر تھی، اور کاریم اور اُوبر وہ کمپنیاں بن کر سامنے آئیں جنہوں نےاس موقع کو حقیقت میں بدل ڈالا اور وہ پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں ان فارغ کھڑی گاڑیوں کو استعمال میں لاکر نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کا تدارک کیا جاسکتا ہے ،بلکہ بلاواسطہ اقتصادی سرگرمیاں رواں کی جاسکتی ہیں۔ تاہم اب ہماری صوبائی حکومتیں، خصوصاً سندھ حکومت اپنی اپنی شاندار روایات کے مدنظر پرعزم ہےکہ کسی طرح اس انقلابی پیش قدمی کا راستہ روک کر ان کمپنیز کو صرف اس لئے تباہ کردیا جائے کہ چونکہ ان کے تحت نجی گاڑیاں تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہیں، اس لئے اب ان سے ایکسائز ڈیوٹی اور ٹیکس بھی وصول کیا جانا چاہیئے۔

میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ان آئنسٹائنز کو کوئی بتائے کہ حضور والا ! ان کمپنیوں کی غیر معمولی کامیابی کی بنیادی وجہ ہی ان کا اپنے صارفین کو کم قیمت میں معیاری ٹرانسپورٹ مہیا کرنا ہے۔ اور سروس کی قیمت کم رکھنے کے لئے لاگت کا کم ہونا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اگر ان کمپنیز سے راویتی پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح معاملات روا رکھے گئے تو آپ ان کی لاگت میں اضافہ کروا کر انہیں اپنی قیمت بڑھانے پر مجبور کر دیں گے، اور یہ سلسلہ بالآخر ان کمپنیوں کے غیر موثر ہوکر بند ہونے پر منتنج ہوگا۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا بہت ضروری ہے کہ جو فروشندہ گان (وینڈرز) اُوبر اور کاریم جیسی کمپنیز کے ساتھ مشغول ہیں ان میں اکثریت بڑے سرمایہ داروں کے بجائے عام لوگوں کی ہے جنہوں اپنی ذاتی گاڑیوں سے کام کی ابتدا کی اور پھر جیسے تیسے بینکوں سے لیز کروا کرگاڑیوں کی تعداد 2سے 3 تک بڑھا لی۔ آپ جتنے بالواسطہ ٹیکس اور ڈیوٹیز بیچ میں لائیں گے، ان کی لاگت میں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔بالآخر جب لوگ بلند لاگت کی وجہ سے کاروبار میں مندی کا شکار ہوں گے توکام بند کرنے سے سوا ان کے پاس اور کیا چارہ کار باقی بچے گا؟ ان کمپنیوں کے بند ہونے سے ہماری حکومتوں کو کون سے فوائد یا مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں؟ یہ بات نہ بھولیں کہ یہ کمپنیاں پاکستان میں کمپنیز آرڈیننس کے تحت بطور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیز رجسٹرڈ ہیں (بصورت دیگر یہ پاکستان میں کاروبار کیسے کرسکتی ہیں؟) اور اس قانون کی رو ہے یہ خود بخود ٹیکس نیٹ میں آجاتی ہیں اور اپنی مجموعی آمدن پر ٹیکس دینے کی پابندہیں۔پھر حکومت اس صورتحال سے خوش کیوں نہیں ؟اچانک، جہاں سے آپ کو ایک پیسہ نہیں مل رہا تھا، دو کمپنیاں آتی ہیں اور کامیابی سے کثیر منافع کمانا شروع کردیتی ہیں، اور اپنے مجموعی منافع پر کم ازکم 35فیصد ٹیکس بھی دینا شروع کردیتی ہیں، کیا یہ حکومت کے لئے آمدن کا اضافی دھارا نہیں بن رہا؟ جہاں سے کل تک آپ کو کچھ نہیں مل رہا تھا، اب وہاں سے ٹیکس کی صورت اچھا خاصہ پیسہ آرہا ہے۔ ایسے میں کیا حکومت کے لئے یہ واقعی گھاٹے کا سودا ہے؟ اگرچہ ایسا ہرگز نہیں ہے مگر ہمارے کرتا دھرتاؤں کی لالچی سوچ اور ان کی کم ادراکی انہیں اس لیموں کو مزید نچوڑنے پر اکسا رہی ہیں جس سے پہلے ہی رس کشید کیا جاچکا ۔ یا تو انہیں اندازہ نہیں، یا پھر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ مزید طبع آزمائی محض لیموں کو چاک کرکے فنا کردے گی، حاصل کچھ نہ ہوگا!

یاد رکھیئے کہ ایسا دنیا میں پہلی بار نہیں ہوا کہ بیوروکریسی نے جدت طرازی کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہو۔ ایسا نہ صرف برصغیر میں ہوا ہے، بلکہ خود مغربی ممالک میں بھی اس کی کئی نظیریں موجود ہیں۔تاہم خوش قسمتی سے وہ ممالک اتنا فہم و ذکاوت رکھتے تھے کہ جلد ہی مسئلے کاسب کے لئے قابل قبول حل ڈھونڈ سکیں۔انہوں نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ بدلتے وقت کے ساتھ انہیں ان نئی طرح کے کاروباروں کی ضابطہ کاری کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، نہ کہ ان پر 19ویں صدی کے قوانین تھوپ دیئے جائیں۔اب اگرچہ عوام کے شدید اعتراض کے بعد سامنے آنے والے پنجاب حکومت کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہاں صورتحال کچھ بہتر ہو جائے گی، بدقسمتی سے سندھ ، بالخصوص کراچی کے حوالے سے صورتحال ابھی بھی تاریک ہی نظر آتی ہے ۔ ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق کراچی ٹریفک پولیس نے ابھی سے اُوبر اور کاریم سے وابستہ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ نے اپنے پنجاب کے ہم منصب کی نقل میں ان کمپنیوں پر کسی قسم کی پابندی کا انکار کیا تھا، تاہم زمینی حقائق کچھ اور بیان کر رہے ہیں اور ہمیشہ کی طرح محکمہ جاتی ہم آہنگی کا شدید فقدان نظر آرہا ہے۔پنجاب کی طرح ہمیں یہاں بھی ایک نئی اور تازہ سوچ کی ضرورت ہے، جو اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگا سکتی ہو اور جسے اس بات کا ادراک ہو کہ ان ٹیکنالوجی کی پشت پناہی سے چلنے والے نئے سیٹ اپس کی ضابطہ کاری نئی قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔روایتی : سندھ سیکریٹریٹ: اپروچ صرف اورصرف حکومت کے خالی خزانوں کو بھررہے آمدن کے اس قیمتی نئے اضافی دھارے کو بند کروا سکتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں! بغیر سوچے سمجھے ان گاڑیوں کے پر ایکسائز ڈیوٹی سے حاصل شدہ پیسے پر رال ٹپکانے کے بجائے، ان گاڑیوں کے مالکان کی اس آمدن پر بلاواسطہ ٹیکس لگا نے کی کوشش کی جانی چاہیئے جو وہ ان سروسز کے ذریعے کما رہے ہیں۔یہ اس قسم کے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا زیادہ آسان اور کار آمد طریقہ ہوگا کیونکہ حکومت ان کمپنیوں سے گاڑیوں کے مالکان کی مکمل تفصیلات حاصل کر کے ان کی آمدن اور ٹیکس واجبات کا حساب رکھ سکتی ہے!

افسوس! مستقبل قریب میں، کم از کم سندھ کی حد تک تو ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے نئے وزیر اعلیٰ جو خود نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر ہیں، وہ اپنی اس بی اے پاس نالائق بیوروکریسی کےان مضحکہ خیز اقدامات کا نوٹس لے کر ان کی سرزنش کیوں نہیں کرتے؟ صاحب فرماتے ہیں کہ فٹنس سرٹیفیکٹ لے کر آؤ ۔۔۔ کوئی ان افلاطونوں سے پوچھے کہ بھائی جو لگژری ٹرانسپورٹ شہر کی سڑکوں پر چل رہی ہے اس کے فٹنس سرٹیفیکٹ فرشتوں سے لئے گئے تھے؟ مطلب یہ طے کر لیا گیا ہے کہ شہری علاقوں کے لوگوں کو کسی صورت کوئی سہولت مہیا نہیں ہونی چاہیئے، بھلے وہ ذاتی خرچ پر ہی کیوں نہ ہو۔عوامی حکومت نے پہلے تو 9 سال کراچی کے عوام کو کچرے کے نیچے دفن کرنے کی کوشش کی، جب اس سے بات نہ بنی تو (غیرمعیاری) ترقیاتی کاموں کے بہانے دھول اور گرد سے نہلانے کا انتظام کیا اور جو اس سے بھی بچ گئے انہیں سڑکوں پر رولنے کا منصوبہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فی الحال تو امید کی واحد کرن یہی نظر آتی ہے کہ اُوبر اور کاریم وغیرہ عدالت عالیہ سے حکم امتناعی حاصل کرلیں، جس کے تحت انہیں اتنا وقت مل جائے کہ وہ حکومت کو سمجھانے کی کوشش تو کرسکیں کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں! میں دعا کرتا ہوں کہ ایسا حکم امتناعی کم از کم 2018 تک موثر رہ سکے، جب ہمارے پا س نئے انتخابات کے ذریعے اس عوامی حکومت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کاموقع تو میسر ہوگا، اورشاید ایک روشن مستقبل کی امید بھی!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply