ڈیورنڈ لائن اور پشتونوں کا مقدمہ ۔۔ سید محمد سمیع

ڈیورنڈ لائن کی مسلط کردہ اور ظالمانہ سرحد انگریزوں کی ایک بڑی فوجی یلغار کے نتیجے میں 1893 افغان حکمراں امیر عبدالرحمن کے دور میں کھینچی گئی۔ اس دن سے تقریباً ایک سو سولہ سال ہوگئے لیکن یہ سرحد ایک بین الاقوامی قانونی سرحد کی حیثیت نہ پا سکی۔ وجہ یہ ہے کہ یہ سرحد ان بین الاقوامی اصولوں کی بنیاد پر وجود میں آئی ہی نہیں جن بنیادوں پر دنیا کی دیگر سرحدیں بنیں ہیں۔

دنیا میں ملکوں کے درمیان بننے والی سرحدیں دو حصوں میں تقسیم کی جاتی ہیں، ایک قانونی دوسرا غیر قانونی۔ قانونی سرحدیں وہ ہوتی ہے جو دونوں ملکوں کے اتفاق سے کلچر اور مذہب کی بنیاد پر علاقے علیحدہ کرتی ہیں اور دونوں ملکوں کی مرضی سے پہلے کاغذات اور پھر زمین پر وجود میں آتی ہیں۔ ایسے کسی معاہدے کو دونوں ممالک کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمان یا کوئی دوسرا قانونی جرگہ پاس کرتا ہے اور ملک کے سربراہ اس پر دستخط کرتے ہیں۔ دوسرا درجہ وہ غیر قانونی سرحدیں ہیں جو طاقتور اقوام طاقت کے نشے میں کمزوروں کے وجود پر کھینچتی ہیں اور ڈیورنڈ لائن ان ہی میں سے ایک ہے۔

پختون تاریخ دان، پروفیسر حسن کاکڑ نے ڈیورنڈ لائن پر تاریخی ثبوتوں کی تحقیق کیلیے انگلستان کی لائبریریوں کی خاک چھان ماری مگر ایسی کسی سند کو نہ پا سکے جو پشتو یا دری زبان میں لکھی ہو اور اس پر امیر عبدالرحمن نے دستخط کیے ہوں۔ ایسی کوئی سند وجود رکھتی ہی نہیں ہے۔ حتی کہ خود بہت سارے انگریزوں نے لکھا ہے کہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ افغانستان اور برطانوی ھند کے درمیان ہمیشہ اور دائمی طور نہیں ہوا بلکہ اس شرط پہ ہوا کہ افغان اس لکیر کی اس طرف برطانوی ایمپائر کے خلاف فوجی کارروائیاں اور مداخلت نہیں کرینگے۔ دوسرا یہ کہ اس وقت افغانستان ایک مستقل ملک نہیں تھا اور افغانستان کی خارجہ سیاست انگریزوں کی طرف سے کی جاتی تھی۔ سو افغانستان اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ بین الاقوامی روابط جاری رکھ سکے اور دنیا والوں کو ہمنوا بنا سکے۔ اسی طرح یہ معاہدہ دو فریقین کے درمیان سمجھا جاتا ہے تو اصولی طور پر اگر ایک فریق جاتا ہے تو معاہدہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے سو انگریز استعمال کے خطے سے جاتے ہی یہ معاہدہ ختم ہو چکا۔  ڈیورنڈ لائن کے ایک پار افغانستان اور دوسری طرف انگریز تھے، جب انگریز گئے تو یہ معاہدہ کالعدم ہوگیا۔ ٹھیک اسی طرح بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد پر ہر استعماری معاہدہ سو سال بعد اپنی حیثیت اور اعتبار کھو دیتا ہے۔ بہترین مثال ہانگ کانگ معاہدہ ہے کہ جب سو سال پورے ہوئے تو انگریزوں نے ہانگ کانگ چین کے حوالے کیا۔ چین ایک طاقتور ملک ہے اور انگریز یہ نہیں کرسکتا تھا کہ چین کے حقوق پورے کرنے سے انکار کر دے۔  ڈیورنڈ لائن معاہدہ کو ایک سو سال سے زائد ہوگئے لیکن کیونکہ افغانستان اندرونی انتشار اور بیرونی غاصبوں کے درمیان گھری ایک غریب مملکت ہے، اس لیے کوئی انکا حق دینے پر آمادہ نہیں۔

 کہتے ہیں جس وقت انگریز افغانستان میں کام کررہے تھے تو انہیں اندیشہ تھا کہ اگر افغانستان نے کبھی بین الاقوامی حقوق کے ادارے میں شکایت کی تو انگریز اس معاہدے کو ہار جائیں گے۔ لیکن افغانستان کا بادشاہ اس وقت کمزوری نما مصلحتوں کا شکار تھا، خصوصاً خارجہ پالیسوں میں، اس لیے اواز اٹھانے کی جرات نہ کرسکا۔ مختصراً عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ سرحد دونوں ممالک کی مرضی سے تشکیل نہیں پائی ہے اور نہ ہی دونوں پار والوں نے اسے کبھی تسلیم کیا ہے اور نہ ہی تسلیم کرینگے۔ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اسے سرے سے ختم کیا جائے اور نہ یہ اب ممکن ہے۔ مگر جس طرح کا سلوک آج اسی سرحد پر آنے جانے والے قبائلیوں کیساتھ کیا جاتا ہے اور جس طرح مخلتف بہانوں سے انکی تذلیل کی جاتی ہے، وہ انتہائی قابل مذمت اور قابل نفرت ہے۔ اس سرحد کی دونوں طرف ایک ہی زبان، ایک ہی کلچر اور ایک ہی مذہب سے وابستہ لوگ آباد ہیں جو ایک دوسرے کیساتھ رشتوں میں بندھے ہیں۔ خدارا تنگ آمد بجنگ آمد والی صورتحال پیدا نہ کیا جائے اور انہیں خصوصی رعایتیں دی جائیں، تب آپ بھی امن سے رہیں گے اور ہم بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادارہ “مکالمہ” کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی صاحب علم اس مضمون کا تاریخ اور بین الاقوامی قانون کے تحت جواب دینا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ ایڈیٹر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply