قومی مسلئہ گائے ہے؟۔۔ نازش ہما صدیقی

جب سے مودی ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں ہندوستان مسلسل دہشت گردانہ حملوں کی زد میں آگیا ہے۔ دوسالہ دور اقتدار میں چار ایسے خطرناک دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں جس سے ہندوستان کے طاقتور ہونے پر شک ہونے لگا ہے۔ ان حملوں نے جہاں ہندوستانیوں کو خوف کے سایے میں جینے پر مجبور کردیا ہے وہیں ذہنی اعتبار سے اپنی کمزوری کا احساس بھی دلادیا ہے۔ ان خطرناک دہشت گردانہ حملوں میں انسانی جان کا ضیاع تو ہوا ہی ہے ساتھ ہی ملک کی سیکوریٹی پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ہندوستان ایک بڑا اور طاقت ور ملک ہے۔ ظاہر سی بات ہے جتنا بڑا ملک ہے اسی حساب سے اس کی سیکوریٹی بھی سخت ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ آئے دن دہشت گرد سرحد عبور کرکے ہندوستان میں خون خرابہ کرتے ہیں۔ دندناتے ہوئے آکر فوجیوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کرکے خود بھی اپنے گماں کے مطابق(جنت )رسید ہوجاتے ہیں۔ ایک سال کے اندر اندر دو ایسے خطرناک دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں جس میں ہندوستانی فوجیوں کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے ۔۔۔درجنوں فوجی وطن کی سلامتی کی خاطر اپنی جان نچھاور کرچکے ہیں۔ حالیہ اڑی سانحہ میں بیس جوان شہید ہوگئے ہیں۔ ملک میں اس حملے کے بعد تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوگ کا عالم بپا ہے۔ ہند پاک جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ عام انسان سے لے کر خاص تک متفکر نظر آنے لگے ہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حملہ بھی ایسی جگہ ہوا ہے جہاں فوج کا اڈہ تھا۔ اطلاع کے مطابق اس حملے کی پیشین گوئی پندرہ دن قبل ہی کردی گئی تھی پھر ہندوستانی خفیہ ایجنسی اور سیکوریٹی اہلکار اس کے سد باب کے لئے کیوں نہیں آگے آئے۔۔۔؟ کیوں فوج کی اتنی بڑی تعداد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئی۔۔۔؟ روایتی طور پر اس حملے میں پاکستان کا ہاتھ ثابت ہوگیا ہے اور ذہنی طور پر انہوں نے بھی قبول کرلیا ہے کہ یہ حملہ پاکستان ہی کی طرف سے کیاگیا ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ہندوستان میں ہر دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے لشکرطیبہ اور جیش کا ہاتھ پایا جاتا ہے اور یہ ہاتھ اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ ایک سو بیس کروڑسے زائد کی آبادی والا ملک ان چند دہشت گرد کے ہاتھوں بے بس نظر آتا ہے۔ وہ جب بھی چاہتے ہیں ہندوستان میں دراندازی کرکے فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔۔۔ جب چاہتے ہیں فوج کی وردی پہن کر اسکولی بچوں کے سامنے آکر ملک میں سراسیمگی پھیلا دیتے ہیں۔ پھر حکومت کی طرف سے ہائی الرٹ جاری کردیا جاتا ہے پھر بھی یہ حملے اپنے معینہ وقت پر ہوہی جاتے ہیں۔ اور ہم ہر حملے کے بعد پاکستان مردہ باد اور پاکستانی جھنڈے جلا کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں، شہیدوں کو شردھانجلی پیش کرکے ان کی خدمات کو بھلا کر دوسرے حملے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ اس کے بعدپھر اپنے نعروں کی گونج سے اخباروں میں سرخیاں بٹور سکیں۔ اور دیش بھکتی کا مکمل ثبوت پیش کرتے رہیں۔ 

آزادی کے بعد سے’’ کشمیر‘‘ ہند۔ پاک کے لئے ناسور بن گیا ہے۔ ایک ایسا زخم جو ہمیشہ رستا ہی رہتا ہے۔ دونوں طرف سے آئے دن ہورہی فائرنگ اورمسلسل کرفیومیں بے قصور کشمیری اپنی بے بسی پر آنسو بہانے کو مجبور ہیں۔ آئے دن فوج اور دہشت گردوں کے تصادم میں امواتیں ہوتی رہتی ہیں۔ فدائین سرحد پار کرکے ہم پر فدا ہوجاتے ہیں۔۔۔ آخر حکومت کوئی ایسا قدم کیوں نہیں اْٹھاتی جس سے لاشوں کی سوداگری کا سلسلہ رک جاتا۔یہ سچ ہے کہ پاکستان، ہندوستان کے مقابلے میں کم طاقتور ہے لیکن وہ کیوں آئے دن اس طرح کی واردات انجام دے رہا ہے جس سے دونوں ملکوں میں جنگ کی کیفیت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کشیدگی او رتناؤ میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی حملہ ہوتا ہے تو پاکستان ذمہ دار اور قصور وار قرار دیاجاتا ہے او رپاکستان میں حملہ ہوتا ہے تو پاکستانی ہی قصور وار۔ ہمیں پاکستان کی طرف داری نہیں کرنی ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیوں ایسا ہوتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ رہے ہیں کہ اڑی اور پٹھان کوٹ ایئر بیس حملوں میں پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے اگر ہاتھ ہے تو آخر کیوں ہے۔ کیوں ہم آزادی کے بعد سے مسلسل باہری حملوں کی زد میں آرہے ہیں۔ کیوں ہمارے فوجی جان نچھاور کررہے ہیں۔ کوئی تو وجہ ہونی چاہئے۔کیوں نہیں ہم پاکستان پر دباؤ بناکر ان تنظیموں کو پابندی کے مراحل سے گزارنے کا عمل کرتے ہیں۔ ابھی تک ممبئی حملوں کا ہم پاکستان سے بدلہ نہیں لے سکے، کیا قصاب کو پھانسی چڑھانے کے بعد اس طرح کے حملے رک گئے ؟اگر ہم اسی وقت سخت رویہ اپناتے ہوئے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرتے تو شاید پٹھان کوٹ اور اڑی جیسے سانحات رونما ہی نہیں ہوتے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

سرحد پار کے دہشت گرد اس طرح کے حملے اور دہشت گردانہ کارروائیاں تو بے خوف ہوکر کرتے رہتے ہیں اور ہمارے ملک کی تنظیمیں ان دہشت گردوں کو صرف بیان کے ذریعے ہی زیر کرنا جانتی ہے ،وہ اسی میں مگن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے ان کا پلٹ وار دے دیا ،زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کیا جاتا ہے تو بالی ووڈ والے فلم کے اندر حافظ سعید کو مار کر خوش ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے ملک کی تنظیمیں جن میں آر ایس ایس ، ہندو مہا سبھااور شیوسینا وغیرہ بھی تو اسی طرح کی کارروائی کا مسلسل اپنے بیانوں میں عندیہ دیتے رہتے ہیں کہ دس منٹ میں ہندوستان سے پولیس کو ہٹالو تو ہندوستانی مسلمانوں کو نیست ونابود کردیں گے۔ آخر وہ تنظیمیں مسلسل ہورہے دہشت گردانہ حملوں کے وقت کہاں چلی جاتی ہیں ۔۔۔؟ حکومت کو کوسنے کی بجائے کیو ں نہیں سرحد پر جاکر اپنی مردانگی کا ثبوت پیش کرتی ہے ۔۔۔ ؟کیوں نہیں پاکستانی دہشت گرد تنظیموں کی طرح پاکستان میں گھس کر اپنی فوج کا بدلہ لیتی ہے ۔۔۔؟اگر ایسا کریں تو ممکن ہے کہ فوجیوں کے اہل خانہ آنسو بہانے پر مجبور نہ ہوں۔ کیا ان کا بنیادی مسئلہ صرف مسلمان ،دلت اور گائے ہی ہے۔۔۔؟۔ اس سلسلے میں حالیہ واقعات پر منکووووووول نے بہت ہی چبھتاہواتبصرہ کیا ہے:’’شکر ہے کہ دہشت گردوں نے فوج کو شہید کیا، گائے کو ہاتھ نہیں لگایا، نہیں تو پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی‘‘۔کیا ہمارا قومی مسئلہ گائے ہی رہ گیا ہے۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم اسی میں الجھے ہوئے رہیں گے او رباہری طاقتیں ہمارے انتشار کا فائدہ اْٹھا کرآئے دن ہمیں دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعہ رونے پر مجبور کرتی رہے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply