عورت اور ہندوستانی تہذیب کے کھوکھلے دعوے۔۔آصف اقبال

آج یہ بات ہر زبان پر عام ہے کہ میڈیا بکائو ہے، پیڈ خبریں اور انٹرویوز نشر کیے جاتے ہیں ،پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے میڈیا کا کھلے عام استعمال ہو رہا ہے۔ وہیں اگر entertainment industry کی بات کی جائے جس میں فلمیں ، سیریل اور اشتہارات کے علاوہ دیگر پروگرام نشر کیے جاتے ہیں ، تو اس میں عورت کو بطور کموڈیٹی کے سوا کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے کہ عورت خود اس بات سے واقف ہے، اس کے باوجود وہ اس عمل میں مددگار بنتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ عمل کے نتیجہ میں دولت حاصل ہوگی جو بظاہر اس کے غموں کا مداوا اور اس کی ضرورتیں پوری کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ لیکن شاید وہ اس بات کو بھلا بیٹھی کہ سکون و اطمینان دولت سے نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی معاشرتی و خاندانی نظام سے حاصل ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں مقننہ سے وابستہ، انتظامیہ یعنی سیاسی عہدوں سے وابستہ، عدلیہ یعنی جج صاحبان، اور انتہا یہ ہے کہ مذہبی گروئوں کے متعلق بھی یہ الزامات لگتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ انہوں نے ملک کی تہذیب سے کھلواڑ کی ہے یعنی عورت کو حقیر جانتے ہوئے اس پر ظلم یا زیادتیاں کی ہیں یا ظلم و زیادتیوں کی انجام دہی کی کوشش کی ہے۔ مزید یہ کہ ملک عزیز ہند کا میڈیا بھی اس گھنائونے فعل سے بچا ہوا نہیں ہے۔ میڈیا کے تعلق سے یہ باتیں پہلے بھی آتی رہی ہیں کہ خواتین کو حد درجہ نازیبا الفاظ اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں خواتین نے ان حالات کا شکار ہونے پر خود کشی کی کوشش کی یا اس کو اختیار کیا۔ سماجی سطح کی بات کی جائے تو ہر ہندوستانی خاندان میں عورتوں پر ظلم و زیادتیاں عام ہیں ۔ کہیں جہیز کے نام پر، کہیں عائلی ناچاقیوں کی بنا پر، کہیں فحش اعمال کی بنا پرتو کہیں سماجی رسوم کی بنا پر۔
کہتے ہیں تہذیب و ثقافت، محض چند رسوم و رواج اور افکار وخیالات کے مجموعے کا نام نہیں ہے، بلکہ تہذیب و تمدن میں حقیقی طور پر مذہبی عنصر غالب ہے۔ کسی بھی تہذیب میں پائے جانے والے نظریات و خیالات او راس میں موجود رسوم ورواج کا سلسلہ، کسی نہ کسی طرح مذہب سے ضرور ملتا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ وہ رسوم و رواج مذہب کی نظر میں صحیح ہیں یا غلط، ہمارے ارد گرد ہونے والے رسوم ورواج نسل در نسل چلے آرہے ہیں ۔ رواجوں کو دوام عطا کرنے کے لئے انہیں بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، اس لیے کسی بھی دین کا سچّا متبع بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس دین کی ثقافت اور کلچر کو بھی اپنائے اور اپنی زندگی میں کسی دوسری قوم کی ثقافت کو بسنے کا موقع نہ دے۔
Michel Bugnon-Mordant (مائیکل بگنن) اپنی کتاب امریکا المستبدۃ (عربی ترجمہ) میں لکھتے ہیں:
“کسی بھی قوم کا تہذیبی ورثہ اس کی زبان، تاریخ، مہارت و لیاقت، فنی ادبی اورعلمی صلاحیتیں رسوم و رواج او راس کے اقدار ہوتے ہیں ، جس طرح یہ مذکورہ چیزیں تمدن کا ایک حصہ ہیں ، اسی طرح اسی قوم کا لباس، کھانے پینے کی اشیا، اْسلوبِِ عمل، کھیل کودکے طریقے، محبت و مسرت اور خوشی و غم کا انداز اور اس کے احساسات وجذبات بھی ثقافت میں شامل ہیں ، اگر ہم کسی قوم سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنی مذکورہ صفات سے کنارہ کش ہوجائے، اپنے اندازِ فکر اور احساسات و نظریات سے عہدہ برآ ہوجائے اوراپنی زبان و لباس کو تبدیل کردے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس قوم سے اس کی ثقافت کو سلب کررہے ہیں او راس کے تمدن کو چھین کر، دوسری تہذیب اس پر مسلط کررہے ہیں “۔
اب اگر وہ قوم تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی ثقافت سے منہ موڑ لے، تو گویا اس نے اپنے تشخص کا خاتمہ کردیا او راپنے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس مرحلہ میں سوال یہ ہے کہ کوئی قوم کس وقت اپنی تہذیب و ثقافت سے منہ موڑتی ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ قوت و اقتدار افکار و نظریات کو متاثرکر تے ہیں ۔ پھر یہی تبدیل شدہ افکار و نظریات جب مذہب سے ٹکراتے ہیں تو قوموں اور گرہوں کی تہذب و ثقافت کو مٹا کر رکھ دیتے ہیں یا اس درجہ متاثر کرتے ہیں کہ وہ اپنا تشخص ہی کھو بیٹھتی ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا جو گزشتہ صدی سے دنیا پر اپنی قوت و اقتدار کاڈنکا بجا رہی ہے،مشرقی دنیا کیو بھی متاثر کر بیٹھی ہے۔ عورت جو ایک پوری نسل پر اثرانداز ہوتی ہے،اس عورت کو مشرق ہو یا مغرب،دونوں ہی مقامات پر، ہر بنڈھن سے نہ صرف آزادکرنے کی بات کہی جا رہی ہے بلکہ مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن طریقہ بھی اختیار کریا جا تا رہا ہے۔
نتیجتاً آج جس “ترقی یافتہ دور “کا ہم حصہ ہیں اس دور نے عورت کو کھلے عام بازار میں لاکر ایک بازاری شے کی شکل دینے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ کچھی یہی معاملہ ملک عزیز ہند میں بھی ان پڑھی لکھی،با جرات،سمجھدار خواتین کے ساتھ بھی ہوا ہے، جنہوں نے گھر کی چہار دیواری میں اپنے آپ کو قیدکرنے کی بجائے،اس کھلی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی ہے،جو انہیں کبھی میسر نہیں تھی۔ لیکن سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ طرز عمل کیوں اختیار کیا؟یا اس طرز عمل کے اختیار کرنے کے پیچھے کوئی مجبوری رہی ہے؟ یا لا علمی کی بنا پرایسا ہوا؟یا پھر اپنی تہذیب اور اس کے پس پردہ موجوداصولوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے یہ بغاوت کی گئی ہے؟ان تمام حقائق کو جاننے کے لیے لازمی ہے کہ جس “ہندوستانی معاشرہ”کا ہم حصہ ہیں ، وہ ہندویا ہندوستانی معاشرہ عور ت کو نظر سے دیکھتا ہے نیز اس نے عورت کو معاشرہ میں کیا مقام فراہم کیا ہے،اس کا مطالع کیا جائے۔ مختصر مضمون میں یہ موقع نہیں کہ “ہندوستانی سماج”کو تفصیلی مطالع کیا جائے۔ لہذا چند اصول و نظریات جو اس سماج نے عورت کے سلسلے میں طے کیے ہوئے ہیں ان کا تذکرہ کرکے ہم اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں ۔
ہندوستانی سماج یا ہندو تہذیب جس کی بنیاد وید ہیں ،بے شمار اختلافات سے دوچار ہیں ۔ بنیادی اختلاف خدا کے تصور میں ہے کہ وہ کتنے ہیں ۔ یجروید میں لکھا ہے کہ دیوتا کی کل تعداد ۳۳ ہے۔ ۱۱ زمین پر ۱۱ آسمان میں اور ۱۱ جنت میں ۔ رگویہ منڈل ۳ سوکت ۹ منتر ۹ میں ہے کہ یہ تعداد۳۳۴۰ ہے۔ رگ وید کے مطابق ۳۳۳۱ دیوتائوں نے مل کر آگ دیوتا کو گھی سے سینچا اور اس کے پاس گئے تو یہ ایک دیوتا کا اضافہ ہوا‘ یوں ان کی تعداد ۳۳۴۰ بنی۔ اس کے علاوہ ذاتی‘ گھریلو اور گائوں کے بھی الگ الگ دیوتا ہیں ۔ گائے بھی دیوتا ہے۔ الغرض ان کے بے شمار دیوتائوں کی تعداد تقریبا ۳۳ کروڑ بنتی ہے (نگار خدا نمبر :ص ۶۶)۔
یہ وہ بنیادی اختلاف ہے جس نے خود خدا کے تصور کو ہی در حقیقت ختم کر دیا ہے۔ پھر اس ابتدائی اختلاف کے ساتھ دنیا اور دنیا میں موجود لوگوں اور چیزوں کے سلسلے میں بھی بے شمار ظالمانہ احکامات کی بھر مار ہے۔ یہاں صرف ہم ویودوں میں عورت کی حیثیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں :
۱۔ عورتوں کے ساتھ محبت نہیں ہوسکتی عورتوں کے دل درحقیقت بھیڑیوں کی بھٹ ہیں (رگوید منڈل ۰۱ سوکت ۵۹ منتر ۵۱)۔
۲۔ اندر نے خود یہ کہا کہ عورت کا دل استقلال سے خالی ہے اور یہ عقل کی رو سے ایک نہایت ہلکی چیز ہے (رتوید منڈل سوکت ۳۳ منتر ۷۱)۔
۳۔ عورت اور شودر دونوں کو نردھن (یعنی مال سے محروم) کیا گیا ہے (یجروید ادھیاء ۸ منتر ۵۔ منودھیاء ۸ شلوک ۶۱۴ ادھیاء۹ شلوک ۹۹۱)۔
۴۔ لڑکی باپ کی جائیداد کی وارث نہیں (اتھروید کانڈا سوکت ۷۱ منتر وغیرہ کتب)۔
۵۔ اگر کسی بیوہ کو اپنے خاوند کی طرف سے جائیداد ملتی ہے تو اسے جائیداد کی بیع و فروخت کا کوئی اختیار نہیں (اتھروید کانڈا سوکت ۷۱ منتر ۱)۔
۶۔ عورت دوسرا نکاح نہیں کرسکتی کیونکہ ایک جائیداد (جو اس کو دوسرے فوت شدہ شوہر سے ملی ہے) بلاوجہ دوسرے کے فیضہ میں نہیں جاکستی (منو ۵۱:۱۵۱)۔
۷۔ عورت خلع نہیں لے سکتی (یعنی مرد کتنا ہی ظالم یا دائم المریض کیوں نہ ہو‘ عورت کو اس سے علیحدہ ہونے کا کوئی حق نہیں ( منو ۵: ۴۵۱)۔
۸۔ عورت کو جوئے میں ہارنا اور فروخت کرنا جائز ہے(نرکت ۳:۴)۔
۹۔ جن لڑکیوں کے بھائی نہ ہوں ان کی شادی نہیں ہوسکتی (اتھرو وید ۱:۷۱:۱)۔
۱۰۔ عورت کے لئے مذہبی تعلیم ممنوع ہے (منو ۱۸:۹)۔
۱۱۔ کسی عورت کی صرف لڑکیاں ہوں تو وہ لڑکے پیدا کرنے کے لئے نیوگ کرے (ستیارتھ پرکاش باب ۴ مضمون نیوگ)۔

نیوگ کیا چیز ہے؟اس عقیدے کا مطلب ہے کہ اگر کوئی عورت بیوہ ہوجائے تو وہ دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔ اگر چاہے تو شہوت کی تسکین کے لئے دوسرے مرد کے پاس جاسکتی ہے اور اولاد پیدا کرسکتی ہے لیکن شادی نہیں کرسکتی۔ اسی طرح عورت کے ہاں اگر صرف لڑکیاں ہوں ‘ لڑکے پیدا نہ ہوتے ہوں تو شوہر کے ہوتے ہوئے بھی وہ زیادہ سے زیادہ دس مردوں کے پاس علیحدہ علیحدہ جاسکتی ہے۔ اس طرح اگر بالکل اولاد نہ ہو تو بھی یہ حکم ہے (ستیارتھ پرکاش ص ۸۳۱)۔ (بحوالہ:مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ از پروفیسر چوہدری غلام رسول چیمہ‘ تقابل ادیان و مذاہب از پروفیسر میاں منظور احمد‘ مذاہب عالم کا انسائیکلو پیڈیا از مسٹر لیوس مور)۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply