• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراؤں کے متعلق ایک بے بنیاد تحریر کا پوسٹ مارٹم ۔۔۔ معاذ بن محمود

خواجہ سراؤں کے متعلق ایک بے بنیاد تحریر کا پوسٹ مارٹم ۔۔۔ معاذ بن محمود

سنا تھا اوسط انسان اپنے دماغ کی 10 فیصد سے بھی کم صلاحیت استعمال کرنے کے قابل ہوتا ہے. کچھ دن پہلے اس افواہ کے رد میں ایک مضمون پڑھنے کو ملا. ویسے تو مضمون میں شماریات و عقلی دلائل کا بھرپور استعمال تھا، تاہم کچھ دیر پہلے خواجہ سراؤں کی تکالیف و مصائب کا رد کرتی ایک تحریر سامنے آئی جس کے بعد دل ایک بار پھر 10 فیصد بلکہ اس سے بھی کم دماغی پرفارمنس پہ ایمان لانے کو تیار ہے۔

سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پہ غامدی صاحب کی آراء کو غامدیت نامی فرقہ مان کر اس کے خلاف باقاعدہ ایک ڈیجیٹل جہاد جاری ہے. اکابرین فیس بک، اسلاف فیس بک کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے میں محو ہیں. کئی مخالفین ایسے ہیں جن کا آپس میں بیر مشہور ہے البتہ اس محاذ پہ سب اکٹھے ہیں. اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ خواجہ سرا کی زندگی اور غامدی و غیر غامدی کا کیا تعلق ہے، تو آپ کی سوچ بالکل جائز ہے کیونکہ میں بھی کافی دیر تک یہی سوچتا رہا کہ میرے عاقل دوست کی جانب سے مشرق و مغرب کو ملانے کی کیا تک بن سکتی ہے.

غامدی سے چڑنے والے اس بھلے مانس نے خواجہ سراؤں پہ زیادتی کو ایک افسانہ قرار دیتے ہوے جو مضمون لکھا، اس کی ابتداء ایک مغالطے سے ہوتی ہے جس کے تحت سوشل میڈیا پہ ہر شخص مشہور بیانیے کو اپنانا ہی بہتر سمجھتا ہے. کافی کوشش کے باوجود کم از کم میں یہ نہ سمجھ پایا کہ آخرکار صحیح یا غلط کا معیار منطق و دلیل کے پیمانے پہ ماپا جائے یا منفی و دلیل پہ؟ مزید یہ، کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر مشہور بیانیہ غلط ہو؟

موصوف آگے چل کے شماریات کے کسی ادارے کا ریفرنس دیے بغیر فرماتے ہیں کہ دنیا میں خواجہ سراؤں کا تناسب ایک ہزار میں ایک ہے، یعنی پاکستان میں ہر ہزار انسانوں میں سے ایک خواجہ سرا ہے. یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ ان معلومات کا منبع کیا ہے، تاہم مشہور زمانہ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق امریکی آبادی کا 0.3 فیصد خواجہ سرا ہیں. یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ موصوف چونکہ ببانگ دہل بنا کسی دلیل غامدی صاحب پہ حملہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، لہذا راقم الحروف کو اس بات کا غالب گماں ہے کہ خواجہ سرا ہونے کی موصوف کے پاس ایک اور محض ایک ہی تعریف ہے جس کا کلی تعلق انسان کی طبعی ہیئت سے ہے۔

میں اپنے لکھاری بھائی اور ان کے تمام ہم خیال نوجوانوں کو بتاتا چلوں کہ خواجہ سرا یا Transgender کی عالمی تعریف ان انسانوں پہ مبنی ہے جن کی پیدائشی جنس یا تو قابل شناخت نہیں یا پھر ان کے جنسی جذبات ان کی پیدائشی جنس کے برخلاف ہوں. مثال کے طور پر ایسے تمام مرد جن کی جنسی خواہشات عورتوں والی ہوں یا وہ تمام انسان جن کی طبعی شناخت مرد یا عورت کے طور پہ یقینی نہ ہو سکے، یا جن میں دونوں جنسوں کی خصوصیات موجود ہوں.

موصوف اپنے ہوائی قلعے کی فصیل چنتے ہوے ایک خودساختہ سروے کا ذکر فرمائے ہیں جس کے تحت ان کی 600 افراد پر مشتمل “Sample Space” میں قریب نصف لوگ وہ تھے جنہیں اغواء کے بعد زبردستی نامرد بنا دیا گیا تھا تاکہ وہ بھیک مانگ سکیں. معلوم نہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد ایسے لوگ مرد کہلائیں گے یا عورت یا خواجہ سرا مگر سچ پوچھیے تو ایسے مجبور لوگوں کے ذکر کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی. حضور فرماتے ہیں کہ کراچی میں انہیں کوئی اردو بولنےوالا اب زنخا نہیں ملے گا. یہ چونکہ ذاتی تجربہ ہے لہذا اس پہ زیادہ بات مناسب نہیں البتہ یہ طے ہے کہ طارق روڈ کے سگنل پہ بھیک مانگتے کسی خواجہ سرا کے لہجے سے اس کا پٹھان یا پنجابی ہونا کبھی محسوس نہیں ہوا.

حضرت کچھ آگے جا کر کراچی کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں جس کا کوئی سر پیر مجھے سمجھ نہ آسکا. کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ ایک صاحب نے کسی خواجہ سرا کے ساتھ شادی کی اور کسی اور مجاہد نے ان دونوں کو “جہنم واصل کر ڈالا. قصے میں تاثر یہ دیا گیا جیسے یہ قتل متحدہ قومی موومنٹ کے ایما پہ کیا گیا ہو اور طاقتور خواجہ سراؤں کے گروہ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کو گرفتار کروا ڈالا. کہانی فکشن تھی یا مزاح یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں.

پچھلے مواد کی طرح حضرت اپنے اگلے پیرائے میں فرماتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کے گروہوں کی سرپرستی ملک کی معروف این جی اوز کی جانب سے کی جاتی ہے. مزید یہ کہ خواجہ سراؤں کی اوسط عمر 39 سال اور موت کے حالات انتہائی اذیت ناک ہوتے ہیں. میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ جو گروہ متحدہ جیسی جماعت ہو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دے اور جس کی پشت پناہی دنیا بھر کی این جی از کرتی ہوں، اس کے ممبر 39 سال اوسط عمر میں کسمپرسی کی حالت میں اللہ کو کیونکر پیارے کو سکتے ہیں، وہ بھی اذیت ناک حالات میں؟

ہوا میں کھڑی اس دلیل میں بہت سے نام نہاد سرویز کے علاوہ خواجہ سراؤں کو ملک میں ہونے والی بچوں سے زیادتی کا موجب بھی ٹھہرایا گیا ہے. مزید برآں، اسی مخلوق کو ملک بھر میں پائی جانے والی جنسی بیماریوں کے پھیلاؤ کی اصل وجہ بھی مانا گیا ہے. ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ اچانک غامدی کو پھر سے بیچ میں لا کر ان پہ تیر اندازی کر دی جاتی ہے.

ان تمام خرافات کو اگر مان بھی لیا جائے تب بھی فاضل دوست سے یہ سوال واجب ٹھہرتے ہیں..

کیا خواجہ سرا کو جینے کا حق حاصل نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا خواجہ سرا اپنی مرضی سے جنسی کاروبار میں ملوث ہیں؟ کیا خواجہ سرا اپنی مرضی سے جنسی بیماریاں پھیلا رہے ہیں؟

ان سوالات کے تسلی بخش جوابات تک یہ مکالمہ جاری و ساری رہے گا. آخر میں چند لنکس جو Transgenders کے بارے میں تحقیقات پر مبنی ہیں..

Advertisements
julia rana solicitors

> http://www.nytimes.com/2015/06/09/upshot/the-search-for-the-best-estimate-of-the-transgender-population.html?_r=0 > http://williamsinstitute.law.ucla.edu/wp-content/uploads/Gates-How-Many-People-LGBT-Apr-2011.pdf > http://www.marieclaire.com/culture/g3065/transgender-facts-figures/

The Search for the Best Estimate of the Transgender Population
Knowing the numbers is important for a variety of policy reasons, but firm answers are elusive.
nytimes.com

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply