گلا سڑا نظام ۔۔۔عامر حسینی

میں “او بل ” کی فلم ” ریم پیچ ،دی پریذیڈنٹ ڈاؤن ” دیکھ رہا تھا –اس فلم کا بنیادی تھیم ہے کہ امریکی اشرافیہ کی ریاست اور میڈیا دونوں غلامی کررہے ہیں اور وہاں عام اور کم تنخواہ پہ گزارا کرنے والے لوگوں کے لئے کوئی آزادی نہیں ہے۔اس سارے شعور کے ساتھ ایک کم تنخواہ والا میکنک خود ان امیروں کو سزا دینے کے مشن پہ نکل پڑتا ہے اور پھر ایک انارکی پھیل جاتی ہے۔اس فلم پہ تنقید بھی بہت ہوئی ہے لیکن بہت سے لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ “او بل ” نے اس فلم میں حقیقت کی ایک عکاسی کی ہے۔انفرادی دہشت گردی کے زریعے سے سماج سدھار کی کوشش کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور اس پہ اکیڈمک تنقید بھی سامنے آتی رہی ہے۔لیکن اس فلم کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک ایسے کیس کی فلم چل رہی تھی جس سے میں خود ان دنوں نبردآزما رہا ہوں۔

غلام مرتضی ایک موٹر سائیکل مکینک ہے اور وہ خانیوال شہر میں کالونی نمبر 3 میں ایک ورکشاپ کھولے ہوئے ہے اور اس کی دکان کے سامنے سڑک کےپار ایک پولٹری کی دکان ہے۔جہاں ہر شام 8 بجے پولٹری کچرا اٹھانے کی گاڑی آتی ہے اور وہ پولٹری کچرا اٹھانے کے لئے وہاں ٹھہرجاتی ہے۔اس سے اس پورے ایریا میں 15 سے 20 منٹ تک ناقابل برداشت تعفن پھیل جاتا ہے۔اس پولٹری کی دکان کے ساتھ ہی ایک بوڑھی عورت کا گھر بھی ہے جس کو یرقان کا مرض ہے اور دیگر بیماریاں بھی جو اس عمر میں لگ ہی جاتی ہیں۔اس کے گھر میں جس کمرے میں وہ رہتی ہے ، اس کی چھت سے لگا پنکھا بھی اس ساری بدبو کو اس کے کمرے میں کافی دیر تک پھیلائے رکھتا ہے۔

غلام مرتضی کو اس نے بلایا اور یہ سب بتایا۔اس کے ساتھ ساتھ اردگرد دکانوں والے بھی اس بدبو سے انتہائی متاثر ہیں اور وہ بھی اس کا تدارک چاہتے ہیں۔پولٹری کی دکان کے ساتھ ایک نائی کی دکان ہے –جس کا کاروبار متاثر ہورہا تھا تو اس نے اس حوالے سے ایک درخواست تحصیل مونسپل آفس کو گزاری مگر پولٹری کے اس کام میں تین شراکت دار ہیں اور دو شراکت دار سیاسی طور پہ بہت بااثر ہیں۔انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس درخواست پہ کوئی ایکشن نہ ہونے دیا۔رولز اس حوالے سے یہ کہتے ہیں پولٹری کے کام سے منسلک دکاندار پولٹری کچرے کو پلاسٹک کے بڑے تھیلوں میں سیل کرکے شہر سے باہر ایک جگہ پہنچائیں گے ، رات بارہ بجے کے بعد گاڑی اسے اٹھائے گی اور یہ گاڑی شہر کی حدود میں داخل نہیں ہوگی –لیکن اس رول پہ عمل کون کرائے گا؟

دو ستمبر کی شام کو غلام مرتضی نے ہمراہ اپنے ایک دوست ملک عبداللطیف کچرا گاڑی کے ڈرائیور کو کہا کہ وہ رات بارہ بجے کچرا اٹھالیا کرے اور چائے وغیرہ پینے یہاں نہ بیٹھ جایا کرے –ابھی اتنی بات ہورہی تھی کہ پولٹری دکاندار نے اپنے ملازمین سمیت غلام مرتضی پہ آہنی راڈ ، ڈنڈوں کے ساتھ حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں غلام مرتضی ، ملک عبدالطیف کو شدید چوٹیں آئیں۔یہ تھانہ سٹی خانیوال پہنچے تو پہلے پولیس سیاسی اپروچ کے سبب ان کے میڈیکل ڈاکٹ جاری کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی –پھر جب ڈی پی او سے کہا گیا تو پھر کہیں جاکر رات گئے ڈاکٹ جاری ہوئے اور ہسپتال میں دو بجے رات میڈیکل کا عمل مکمل ہوا مگر ایک ایم ایل سی رات کے وقت ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر کے نہ ہونے کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔

اگلے دن جب ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر ڈیوٹی پہ آئی اور وہ عبداللطیف نامی شخص کے ہاتھوں کی دو انگلیوں میں فریکچر کا ایم ایل سی ایکسرے رپورٹ دیکھ کر بنانے لگی تو عین وقت پہ ہسپتال کے ایم ایس نے اسے بلالیا۔اور واپسی پہ اس نے بجائے فریکچر لکھنے مزید ایکسپرٹ رائے مانگنے کے لئے ان ایکسرے رپورٹ کو نشتر ہسپتال ریفر کیا اور سٹی سکین رپورٹ مانگ لی اور یہ پروسس مکمل کرانے کے لئے مظلوم مدعیان کو کئی بار نشتر ہسپتال کے چکر کاٹنے پڑے اور پھر وہاں بھی ملزم پارٹی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور جب سٹی سکین رپورٹ مرتب ہوگئی تو ڈسپیچ برانچ کے ہیڈ کلرک نے تاخیری حربے استعمال کئے اور اس طرح سے 19 دن میں یہ رپورٹ واپس آئی اور آگے پھر دو دن ایم ایس کی وجہ سے یہ ایم ایل سی نہ بن سکا۔آخرکار یہ ایم ایل سی بنا جس میں مضروب عبدالطیف کی دو انگلیاں فریکچر تھیں اور اس بنیاد پہ پولیس کو ایف آئی آر کاٹنا پڑی۔لیکن اس دوران خود پولیس کا رویہ بھی غیر جانبدار نہین تھا۔

وقوعہ جیسے ہوا ، اس کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 324 لگتی تھی اور مقدمہ درج کیا جاسکتا تھا۔لیکن پولیس نے ایسا نہ کیا۔پہلے تو مدعی کی درخواست ہی غائب کردی گئی اور ایک ہفتہ گزرنے کے بعد ملزمان کی ایک درخواست سابقہ تاریخ میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی اور اس پہ ایس ایچ او نے سمن بھی جاری کردیا۔یعنی الٹا مدعی کو ملزم بنانے کی کوشش کی جارہی تھی۔اس پہ جب آر پی او ملتان ، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر خانیوال ، ڈی ایس پی صدر تک اپروچ کی گئی اور میڈیا کا دباؤ پڑا تو کہیں جاکے یہ سراسر بوگس کاروائی روکی جاسکی ۔

ایف آئی آر کے اندراج تک کے دورانیہ میں مدعی مضروب کے قریب قریب 60 ہزار روپے خرچ ہوگئے اور ایک دن ملک عبداللطیف نے مجھ سے کہا، ” سر! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے اس معاملے میں کچھ صحافی ، کونسلر ، سیاست دان ، تاجر ایسوسی ایشن کے رہنماء کئی قسم کے رابطے کام آگئے اور پھر ہمارے پاس ان کو لانے لیجانے کے وسائل موجود تھے لیکن ایسا آدمی جو غریب ہو اور اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ کیسے اس نظام میں اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کو روک سکتا ہے؟

یہ ملک عبدالطیف اپنے آپ میں ایک پوری تاریخ ہے۔ایک زمانے میں یہ شہر کا نامی گرامی بدمعاش ہوا کرتا تھا۔اس نے شراب ، چرس ، افیم سبھی بیچیں اور پھر گورنمنٹ ٹھیکے داری بھی کی ۔وقت گزرا تو سب چھوڑ چھاڑ دیا۔رند تو رہا ، مولوی یا چلّہ کاٹنے اور اپنے نام نہاد گناہوں کی معافی مانگنے کے لئے گزی داڑھی تو نہ رکھی اور نہ ہی پائنچوں کو ٹخنوں سے اوپر کیا مگر دھندا چھوڑ دیا۔” کالی دنیا ” کے لوگ اب بھی اس واقف ہیں۔اور جب اس پہ حملے کا اس دنیا سے تعلق رکھنے والے کئی نامور لوگوں کو پتا چلا تو وہ اس کے پاس آئے بھی لیکن یہ برف ثابت ہوا۔اس کے اپنے دس جوان بیٹے ہیں اور وہ بھی جوش میں تھے لیکن اس نے ان کو بھی روک دیا۔اور میں اس کے سکون کو دیکھ کر حیران (لطیف کے لفظوں میں حریان) تھا۔

یہ اسقدر تجربہ کار آدمی ہے کہ جب یہ ایس ایچ او کے پاس درخواست دینے گیا تو اس نے ایس ایچ او کی بدن بولی دیکھ کر بتایا کہ ایس ایچ او ملزم پارٹی سے مل گیا ہے اور یہ بات بعد میں ‎سچ ثابت ہوئی –جب ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر تہمینہ اٹھ کر ایم ایس اکبّر بھٹی کے پاس گئیں تو اس نے کہا کہ اب ایم ایل سی نہیں کٹے گا بلکہ نشتر ریفر ہوگا۔نشتر ہسپتال میں اس نے کہا کہ ریڈیالوجسٹ ایماندار ہے اور کلرک بے ایمان ہے تو جب رپورٹ تیار ہونے کے باوجود دس دن تک کلرک کی الماری میں پڑتی سڑتی رہی تو ہمیں اس کے تجربے کا یقین آگیا۔پولیس کے معاملے میں جب حکام بالا سے بات ہوگئی اور پھر یہ ایس ایچ او سے ملا تو اس کی بدن بولی اسے تبدیل ملی تو اس نے کہا کہ اب ایس ایچ او مقدمہ درج کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔یہ ابھی ایک پروسس مکمل ہوا ہے۔

ایف آئی آر کے اندراج کے بعد لطیف کے بقول ملزم پارٹی میڈیکل کو چیلنچ کرنے کے لئے عدالت جائے گی اور وہاں بھی طاقتور وکلاء اور ججز تک کو اپروچ کرنے کا دعوی کرنے والا مافیا موجود ہے۔اس کے ساتھ ساتھ خود اچھا وکیل کرنے کے لئے روپیہ پیسہ درکار ہوگا۔ساتھ ساتھ انوسٹی گیشن آفیسر سے دیانت داری پہ مبنی کامنٹس لکھوانے کے لئے بھی لکشمی کی ضرورت ہوگی اور ٹائم الگ برباد ہوگا۔مقدمہ کب تک چلے گا کچھ پتہ نہیں –اور آخر میں انصاف ملے گا یا نہیں اس کا بھی کچھ پتا نہیں ہے۔

یہ نظام قدم قدم پہ آپ کو سخت بے بسی اور طاقتوروں کی حکمرانی کا احساس دلاتا ہے۔اور آپ کے اندر وہ فرسٹریشن پیدا کرتا ہے جو ہم نے ” ریم پیج ” کی ٹرائیلوجی میں دیکھی –نظام سے یہ فرسٹریشن داعش ، طالبان ، القائدہ جیسی تنظیموں کے لئے پیدل سپاہیوں کی فراہمی کا کام آسان کردیتی ہے۔اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت زیادہ سیاہ ماضی رکھنے والے ،ڈرگ کا شکار ، خانگی زندگی برباد کرنے والے اور نظام سے پیدا ہوئی فرسٹریشن کا شکار ان جیسی دہشت گرد تنظیموں کا حصّہ بن جاتے ہیں ۔جیسا کہ ہم “ریم پیج ” میں دیکھتے ہیں کہ جب میڈیا کو پے درپے ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کا کوئی سراغ نہیں مل پاتا تو وہ اسے داعش کی کاروائی قرار دے دیتے ہیں۔اور اس میں ” ریم پیج ” کا مرکزی کردار کہتا ہے کہ ميڈیا اور ایف بی آئی اپنے ہوم ٹیلنٹ کو ” انڈر ایسٹی میٹ ” کررہی ہے۔ویسے یہ ذہنیت پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور خود ریاستی اداروں میں بھی غالب ہے کہ وہ دہشت گردی کے بارے میں سازشی مفروضوں کو سامنے لاکر اس کے پیچھے بیرونی اور خارجی ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادارہ مکالمہ اس مضمون میں دئیے گئے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ اگر کوئی شخص یا سرکاری ترجمان اپنا موقف دینا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ ایڈیٹر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply