• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فیدل کاسترو: کیوبن انقلاب کے خلاف ٹراٹسکائی مہم/فیدل کاستر و کی 1966 ء میں کی گئی تقریر(مترجم: شاداب مرتضی)

فیدل کاسترو: کیوبن انقلاب کے خلاف ٹراٹسکائی مہم/فیدل کاستر و کی 1966 ء میں کی گئی تقریر(مترجم: شاداب مرتضی)

سب سے پہلے میں ان عناصر کا ذکر کروں گا جنہیں پچھلی دہائیوں میں انقلابی تحریک کے خلاف مستقل طورپراستعمال کیا گیا ہے۔ اوراگرآپ مجھے تھوڑا وقت دیں تو میں ان تمام دستاویزوں میں سے سب سے زیادہ دلچسپ کاغذوں کو نکالنا چاہوں گا۔ ہاں، یہ مجھے مل گیا: یہ UPI کا ایک پیغام ہے جو 6 دسمبر1965 کو بھیجا گیا: “ارنیستو چے گویرا کو کیوبن رہنما فیدل کاسترو کو سوویت یونین سے ملنے والے احکامات کی تعمیل میں قتل کردیا گیا ہے، میکسیکو کے ٹراٹسکائیوں کے سرغنہ، فلیپی الباگوناتے (Flipe Albagunate)، نے رسالے،ایل یونیورسل (El Universal) میں دعوی کیا۔” وہ مزید اضافہ کرتا ہے کہ چے گویرا کواس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ چینی لائن اختیار کرنے کے لیے کیوبا پردباؤ ڈال رہا تھا۔

قدرتی طورپر، یہ بیان اسی وقت دیا گیا جب ٹراٹسکائی عناصرنے بیک وقت ہرجگہ (کیوبن انقلاب) کے خلاف مہم شروع کردی تھی۔ اس طرح، 22 اکتوبر1965ء کو، ہفتہ واررسالے، مارچا (Marcha)، میں ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں معروف ٹراٹسکائی نظریہ دان، ایڈولفو گللی(Adolfo Gilly)، نے دعوی کیا کہ چے گویرا نے کیوبا اس لیے چھوڑا کہ سوویت -چین تنازعے میں فیدل کاسترو سے اس کے اختلافات پیدا ہوگئے تھے اورچے گویرا (کیوبن) قیادت پراپنی رائے مسلط نہیں کرسکا۔ اس نے (ایڈولفو گللی) نے کہا کہ چے گویرا نے، سوویت لائن کے خلاف، الجھے ہوئے انداز سے یہ تجویز پیش کی تھی کہ (کیوبن) انقلاب کو باقی لاطینی امریکہ تک وسیع کیا جائے ۔

وہ کہتا ہے کہ کیوبا کی قیادت تقسیم ہوگئی ہے، ایک طرف قدامت پسند دھڑا ہے، جس میں معاہدے کے پرانے رہنما شامل ہیں، یعنی چے گویرا کے پیروکار، اوردوسری طرف فیدل اور اس کی ٹیم ہے جو مخالفت اورصلح جوئی کے درمیان ڈول رہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چے گویرا نے کیوبا اس لیے چھوڑا کیونکہ اسے اپنی رائے کا اظہارِ کرنے کے لیے زرائع کی کمی کا سامنا تھا، اوریہ کہ عوام کے سامنے چے گویرا کے معاملے کی وضاحت کرنے میں فیدل کاسترو خوف کا شکار تھا۔

یہی ٹراٹسکائی نظریہ دان، 31 اکتوبر1965 ء کو، نووو منڈو (Nuovo Mondo)، نامی ایک اطالوری رسالے کے رپورٹر کی حیثیت سے اپنے ایک آرٹیکل میں کیوبا کی قیادت کو “فلو-سوویت” پکارتا ہے اورفیدل پرالزام لگاتا ہے کہ اس نے چے گویرا کے ساتھ جو ہوا اس کی سیاسی وضاحت نہیں کی۔ وہ کہتا ہے کہ میجر (چے) گویرا کو اس کے پیروکاروں اور (فیدل) کاسترو کی ٹیم نے شکست دے دی۔ وہ چے گویرا پر تنقید کرتا ہے کہ اس نے اپنے نکتہ نظر کو عوام میں منوانے کی جدوجہد نہیں کی اوریہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کیوبا کی ریاست نے، خود اپنی پالیسی کی معذوری کے سبب، ڈومینیکن انقلاب (Dominican Revolution) کی کھلے عام حمایت نہیں کی۔ اس بارے میں، میں مزید کچھ زیادہ بات کرنا چاہوں گا۔

اکتوبر 1965 ء کے اپنے شمارے میں، اسپین کا ٹراٹسکائی اخبار، بیٹالا (Batalla)، دعوی کرتا ہے: “اس پراسراریت کو ختم ہونا چاہیے جو چے گویرا کے معاملے کے اردگرد پھیلی ہوئی ہے ۔ چے گویرا کے دوست یہ فرض کرتے ہیں کہ (فیدل) کاسترو نے (چے گویرا کا ) جو خط پڑھا وہ جھوٹا ہے ، اوریہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا کیوبا کی قیادت کریملن (سوویت یونین) کی افسرشاہی (بیوروکریسی) کے سامنے سرجھکانے کے لیے اپنی پالیسی کو اس سمت میں ڈھال رہی ہے۔”وہ (چے گویرا) ملیشیاء تنظیموں اور یونینوں کی عملداری کے معاملے پر فیدل کاسترو سے تنازعے میں آگیا تھا۔” وہ اضافہ کرتا ہے کہ چے گویرا نے فیدل کاسترو کے من پسند افراد پرمشتمل مرکزی کمیٹی کی تشکیل کی مخالفت کی تھی، خصوصا ان فوجی افسران کی جو ماسکو کے دائیں بازو کی حمایت کرتے تھے۔

تاہم،غلیظ ترین مضامین میں سے ایک، سب سےغلیظ ، سب سے بے شرم آرٹیکل وہ ہے جسے چوتھی (ٹراٹسکائی) انٹرنیشنل کے لاطینی امریکی پولٹ بیورو کے سرغنہ نے اٹلی کے اخبار، لیوٹا آپیرراریا (Lutta Operaria)، میں لکھا ہے۔ اس آرٹیکل سے، جو طویل ہے، میں صرف تین پیراگراف پڑھنا چاہوں گا۔ یہ اس بات سے آغاز کرتا ہے: “افسر شاہی (بیوروکریسی) کے عالمی بحران کی تنزلی کا ایک پہلو چے گویرا کا (کیوبا کی قیادت سے) اخراج ہے۔ چے گویرا کو ابھی نکالا گیا ہے، آٹھ ماہ پہلے نہیں۔ چے گویرا کے ساتھ مذاکرات آٹھ ماہ تک ہوتے رہے۔ یہ وہ آٹھ ماہ نہیں تھے جنہیں کافی پیتے ہوئے گزارا گیا۔ انہوں نے شدید لڑائی کی، اورشاید اس میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں، شاید انہوں نے پستولوں سے دلائل دیے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے چے گویرا کو قتل کردیا یا نہیں ، لیکن اس با ت کو فرض کرنے کا حق موجود ہے کہ انہوں نے اسے قتل کردیا۔”

“چے گویرا سامنے کیوں نہیں آتا؟ انہوں نے نتائج کے خوف سے ، آبادی کے ردعمل کے خوف سے، اسے ہوانا میں پیش نہیں کیا؛ لیکن بہرحال، اسے چھپا کربھی وہ یہی تاثر پیدا کررہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں، “چے گویرا سامنے کیوں نہیں آتا، وہ ظاہر کیوں نہیں ہوتا؟” یہ سیاسی الزام نہیں ہے۔ اس کے لیے سیاسی تعریفیں موجود ہیں۔ انہوں نے چے گویرا کو پیش کیوں نہیں کیا؟ اس نے کوئی بات کیوں نہیں کی؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کیوبا کی مزدور ریاست کے بانیوں میں سے ایک، جس نے اب سے کچھ عرصہ پہلے مزدور ریاست کے نا م پر دنیا کا دورہ کیا، وہ غیرمتوقع طور پر کہتا ہے:”میں کیوبن انقلاب سے اکتا چکا ہوں۔ میں کہیں اور انقلاب کرنے جا رہا ہوں۔” کہیں اور کہاں، وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ کہاں گیا، اور وہ سامنے بھی نہیں آتا۔ اگر کوئی اختلافات نہیں ہیں تو وہ سامنے کیوں نہیں آتا؟ تمام کیوبن لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ ایک زبردست جدوجہد جاری ہے اوریہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ”

“چے گویرا تنہا نہیں تھا اور تنہا نہیں ہے۔ اگر وہ چے گویرا کے خلاف اس طرح کے اقدامات کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں اس کی زبردست پذیرائی ہے اوراس زبردست پذیرائی کے علاوہ عوام اس معاملے سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کیوبن حکومت نے ایک بہت سخت حکم نامہ جاری کیا تھا،جس کا کہنا تھا کہ تمام ہتھیار ریاست کو لوٹانا ضروری تھا۔اس وقت صورتحال زرا الجھن آمیز تھی۔ لیکن اب یہ واضح ہے کہ یہ قرارداد کیوں شائع کی گئی تھی۔ یہ چے گویرا کے طرفداروں کے خلاف تھی۔ انہیں (کیوبن قیادت کو) بغاوت کا خوف ہے۔”

یہ رہا ایک اور پیراگراف:

“انہوں نے چے گویرا کو خاموش کیوں کردیا؟ چوتھی انٹرنیشنل کو اس حوالے سے لازماً  ایک مہم شروع کرنا چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ چے گویرا کو سامنے لایا جائے، اسے اپنے دفاع کا ، بحث کرنے کا اور عوام سے یہ مطالبہ کرنے کا حق دیا جائے کہ وہ کیوبن ریاست کے اقدامات پر بھروسہ نہ کریں کیونکہ یہ اقدامات افسر شاہی کے اورغالباً  قاتلوں کے اقدامات ہیں۔انہوں نے اس جدوجہد کو روکنے کے لیے چے گویرا کو ختم کردیا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت سے بے پرواہ ہو کر چے گویرا کو خاموش کردیا ہے کہ ان کا مؤقف انقلابی نکتہ نظر سے موافقت نہیں رکھتا، کیونکہ یہ انقلابی رجحان میں ان کے مؤقف کی ہم آہنگی کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ ”

وہ مزید کہتا ہے:”یہ چے گویرا کی طاقت کو یا کیوبا میں گویرا گروہ کی طاقت کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ باقی ماندہ مزدور ریاستوں میں مختصر عرصے میں اس قسم کے مؤقفوں کے پھلنے پھولنے کے لئے حالات کی پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔ افسرشاہی کو اس قسم کے اقدامات اورہتھکنڈوں سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ افسر شاہی کےلیے چے گویرا کے خاتمے کا مطلب عالمی انقلاب کی ترقی کے تسلسل کی اس بنیاد کے خاتمے کی کوشش ہے جو انقلابی رجحانوں کے دوبارہ اکٹھا ہونے کو ممکن بناتا ہے۔ چے گویرا کے قتل کی یہی بنیاد ہے۔ اورنہ صرف یہ کیوبا کے لیے ایک خطرہ ہے، بلکہ یہ باقی ماندہ لاطینی امریکی انقلاب پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ گوئٹے مالا کیوبا کا طرفدار ہے؛ گوئٹے مالا سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کے ساتھ کیوبا کا طرفدار ہے۔ اپنی قوت اور اپنے اعلی ترین قائد، فیدل کاسترو، کی تقریروں کے باوجود، وہ 13 نومبر تحریک کو ایسی سوشلسٹ انقلابی تحریک میں ڈھلنے سے نہیں روک سکا جو براہِ راست سوشلزم کے لیے لڑ رہی ہے۔”

یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ یہ شریف آدمی، چوتھی انٹرنیشنل کا یہ رہنما، یہاں نہایت گھمنڈی انداز سے گوئٹے مالا اور13 نومبر تحریک کا ذکر کرتا ہے۔ کیونکہ، باکل اسی تحریک کے تعلق سے، امریکی سامراج نے انقلابی تحریک کو زائل کرنے کے لیے سب سے موزوں حکمتِ عملی اختیار کی، جو یہ تھی کہ چوتھی انٹرنیشنل کے ان ایجنٹوں میں دراندازی کی جائے جنہوں نے اپنی جہالت ، سیاسی جہالت، سے اس تحریک کے مرکزی قائد سے ایسی بدنامِ زمانہ، ایسی ردِ تاریخ، ایسی دھوکہ باز چیز اختیار کروائی جو ان عناصر سے پیدا ہوئی تھی جو بلا شک و شبہ سامراج کے نمک خوار ہیں، اسی طرح جس طرح چوتھی انٹرنیشنل کا پروگرام سامراجی نمک حلالی پر مشتمل ہے۔

یہ کیسے ہوا؟ یون سوسا، بے شک ایک محبِ وطن افسر تھا۔ یون سوسا نے فوجی افسران کے ایک گروہ کی اس تحریک کی قیادت کی جس کو کچلنے میں ان پیشہ ور قاتلوں نے حصہ لیا جنہوں نے بعد میں پلایا گرون (Playa Giron) پر حملے میں شرکت کی۔ چوتھی انٹرنیشنل نے ایک سرمایہ دار کے ذریعے، جس نے تحریک کے سیاسی پہلو کی قیادت سنبھالی، اسے اس طرح ترتیب دیا کہ یہ رہنما ، جو سیاست کے گہرے مسائل سے اورانقلابی فکر کی تاریخ سے ناواقف تھا وہ اس بات کی اجازت دیتا کہ ٹراٹسکی ازم کے ایجنٹ، جن کے بارے میں ہمیں بالکل شبہ نہیں کہ وہ سامراجی ایجنٹ ہیں، ایک اخبار شائع کریں جو چوتھی انٹرنیشنل کے پروگرام کی ہوبہو نقالی پرمشتمل ہو۔ ایسا کرکے، چوتھی انٹرنیشنل نے انقلابی تحریک کے خلاف ایک حقیقی جرم کیا ، جب اس نے اسے حماقتوں سے، بدنامی سے اور سیاست کے شعبے میں ٹراٹسکی از م جیسی گھناؤنی چیز کے زریعے باقی ماندہ لوگوں سے، عوام سے ، جدا کردیا۔ (تالیاں)۔

حالانکہ ایک زمانے میں ٹراٹسکی ازم سیاسی شعبے میں ایک غلط نکتہ نظر کی نمائندگی کرتا تھا لیکن بعد میں یہ سامراج اوررجعت پرستی کا ایک گھٹیا آلہ بن گیا۔ یہ شرفاء اسی طرح سوچتے ہیں۔ مثال کے طورپر، شمالی ویتنام کے حوالے سے، جہاں ایک وسیع انقلابی محاذ نے لوگوں اور آبادی کے مختلف حصوں کی کثیر اکثریت کو سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں اچھی طرح متحد کردیا ہے، ٹراٹسکائیوں کے نزدیک ایک حماقت ہے؛ یہ ردِ انقلابی ہے۔ تاہم یہ شرفاء جو خود سامراج کے خدمت گزار ہیں ان میں اتنی دیدہ دلیری ہے کہ یہ تاریخی حقائق اورانقلابی تحریک کے خلاف ایسے غیرمعمولی کام کریں اور پھر خود کو اس انداز سے پیش کریں۔

خوش قسمتی سے، گوئٹے مالا میں انقلابی تحریک کو بچایا جا رہا ہے۔ سوسا کے ساتھ انقلابی تحریک شروع کرنے والے افسران میں سے ایک، جس نے اس فاش غلطی کو، اس حماقت کو سمجھ لیا، اس نے خود کو 13 نومبر تحریک سے جدا کرلیا اور دوسرے ترقی پسند اور انقلابی گروہوں کے ساتھ گوئٹے مالا کی باغی مسلح افواج کو منظم کیا ہے۔ (تالیاں)۔ یہ افسر، جس کی نظر صاف تھی اورجو گوئٹے مالا کی انقلابی تحریک کا نمائندہ ہے آج اس کانفرنس میں موجود ہے۔ اس کا نام میجر ٹرکوس ہے۔(تالیاں)۔

میجر ٹرکوس کو نہ صرف اپنی مظلوم قوم کی آزادی کی مسلح جدوجہد کا شرف حاصل ہے بلکہ گوئٹے مالا کی انقلابی تحریک کو امریکی سامراج کے سب سے زیادہ دغاباز چالبازوں سے (ٹراٹسکائیوں سے) بچانے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس نے گوئٹے مالا کےانقلابی پرچم کو اور اپنی سامراج مخالف تحریک کو امریکی سامراج کے نمک خوار ان پیشہ ور قاتلوں کے گندے ہاتھوں سے چھین لیا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ یون سوسا، جس کے حب الوطنی کے ارادوں پر کسی نے تحریک کے آغاز میں سوال نہیں اٹھایا اور جس کی دیانت پرکوئی سوال نہیں اٹھاتا، حالانکہ ہمارے پاس اس کے انقلابی رہنما ہونے کے رویے پر شک کرنے کی مضبوط وجوہات ہیں، وہ خود کو ان عناصر سے جدا کرنے میں اور گوئٹے مالا کی انقلابی تحریک کی جانب لوٹنے میں دیر نہیں کرے گا، لیکن اس وقت ایک مختلف لیڈرکے ماتحت، ایک مختلف رہنما کے ماتحت، جس نے ان حالات میں بالغ نظری کا اورانقلابی لیڈر کی صفات کا مظاہرہ کیا۔

ٹراٹسکائیوں کا یہ مؤقف وہی ہے جسے امریکی سامراج کے تمام اخباروں اور پبلسٹی کمپنیوں نے کامریڈ ارنسٹو چے گویرا کے متعلق اختیار کیا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی پوری سامراجی پریس، اس کی اخباری ایجنسیاں، کیوبا کے ردِ انقلابیوں کی پریس، سرمایہ دارانہ پریس، پورے براعظم میں اور دنیا بھر میں، دوسرے لفظوں میں کامریڈ چے گویرا کے انقلابی کیوبا کے تعلق کے حوالے سے بہتان تراشی اورسازشوں کی یہ مہم، تمام سامراجی سرمایہ دار شعبوں کے بالکل ساتھ ، کیوبن انقلاب کے مخالف تمام سازشیوں اور بہتان تراشوں کے ساتھ، واقع ہوئی، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف رجعت پرستی اور سامراج ہی ہیں جو کیوبن انقلاب کو بدنام کرنے میں، کیوبن انقلاب میں انقلابی تحریک کے اعتماد کو تباہ کرنے میں، کیوبن انقلاب پر لاطینی امریکہ کے لوگوں کو بھروسے کو تباہ کرنے میں اوران کے یقین کو تباہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

لہذا، انہوں نے ایسا کرنے کے لیے انتہائی بے شرم اورغلیظ ترین ہتھیاروں کو استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کی۔

یہی آدمی (گللی) جو کبھی کبھار امریکی جریدے ، (Monthly Review)، میں شمالی امریکی دانشوروں میں نظر آتا ہے، اس قدر شیطان ہے کہ اس نے سانتو ڈامنگو (Santo Domingo) کے بحران کے حوالے سے مندرجہ ذیل پیراگراف لکھا جو تجزیے کے قابل ہے۔

اس نے کہا: “ڈومینیکن انقلاب کو اس بحران کا نقطہِ عروج ہونا پڑا، جہاں کیوبا کی مزدور ریاست اپنی ہی پالیسی سے معذور ہو کررہ گئی، انقلاب کی کھلے عام حمایت کیے بغیر، جبکہ کیوبا میں اس کی سرگرم حمایت کی پالیسی اپنانے کے لیے اندرونی طور پر زبردست دباؤ تھا۔ اگر بحران سانتو ڈامنگو سے بہت پہلے واقع ہوا تو تب سانتو ڈامنگو کے واقعے نے بے شک انقلاب کو مہمیز دی۔”

یہ آدمی اس قدر شیطان ہے کہ کیوبن انقلاب پر ڈومینیکن انقلاب کی سرگرم حمایت نہ کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ جبکہ سامراجیوں نے کیوبا پرالزام لگایا، جبکہ سامراجیوں نے اپنی مداخلت کا جواز یہ کہہ کرگھڑنے کی کوشش کی کہ کیوبا میں تربیت حاصل کرنے والا بایاں بازو اور کمیونسٹ عناصر اس بغاوت کی قیادت کررہے تھے، جبکہ سامراج کیوبا پر الزام لگا رہا تھا اور ڈومینیکن انقلاب کو اندرونی نہیں بلکہ بیرونی مسئلہ بنا کرپیش کررہا تھا، یہ شخص کیوبن انقلاب پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے ڈومینیکن انقلاب کی سرگرم حمایت نہیں کی؟ سرگرم حمایت کی تشریح کیا ہے؟ کیا ان لوگوں یہ تھا کہ کیوبا، جس کی قوتیں اور وسائل جانے پہچانے ہیں، وہ شمالی امریکہ کے سپاہیوں کو سانتو ڈامنگو میں اترنے سے روک سکتا تھا؟

کیوبا کے پاس اپنے دفاع کے لیے سامراجیوں سے کہیں ذیادہ کمتر ہتھیار ہیں۔ کیوبا کے پاس دفاعی ہتھیار ہیں۔ اوریہ شرفاء اس قدر کمینے اور بے شرم ہیں کہ یہ کیوبا پر دراندازی نہ روکنے کا الزام لگانے کی کوشش کرتےہیں، کیونکہ، سرگرم حمایت کا مطلب اس کے سوا کیا ہے، کیونکہ ان حالات میں کیوبا جو کچھ بھی کرسکتا تھا وہ کی گئی تھی۔ کیوبا سے دراندازی روکنے کا مطالبہ کرنا ایسا ہے جیسے جنوب مشرقی ایشیاء میں کمبوڈیا سے شمالی ویتنام میں بمباری روکنے کا مطالبہ کرنا اور امریکی افواج کے ہاتھوں جنوبی ویتنام پرقبضے کو روکنے کا مطالبہ کرنا۔ (تالیاں)۔ بدقسمتی سے، کیوبا کی قوتیں محدود ہیں، لیکن اپنی بہترین قوت کے ساتھ اوربہترین ممکنہ اندازسے، نہایت ثابت قدمی اورحالات کے مطابق، کیوبا انقلاب کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرتا ہے اورکرتا رہے گا۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک سامراجیوں سے ڈرتا ہے، وہ لوگ جو احساسِ برتری میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک سامراجیوں سے ڈرتا ہے، انہیں اکتوبر کے بحران میں چند گھنٹوں کے لیے یہاں رہنا چاہیے تھا، جب پہلی بار ہمارے جیسی چھوٹی قوم کو اپنی حدود میں جوہری میزائلوں کی زبردست بارش کی دھمکی دی گئی تھی، تاکہ وہ اس قوم اوراس کی انقلابی حکومت کے رویے کو دیکھ سکتے۔ (تالیاں)۔

غیر ذمہ دار افراد کی جانب سے بہت سے احمقانہ جھوٹ اور فاش غلطیاں ضبطِ تحریر میں لائی جاتی ہیں خصوصا تب جب بعض دستاویزات کو عوام کے سامنے نہیں لایا جا سکتا۔ تاہم، ایک دن انسانیت تمام حقائق جان لے گی۔ اس دن ان قابلِ رحم افراد کو معلوم ہوجائے گا کہ کامریڈ چے گویرا کو قتل نہیں کیا گیا، جب اس کے ہراقدام کی مکمل تفصیل معلوم ہوگی، اورجب ان مشکل دنوں میں کیوبا کا نکتہ نظرکیا تھا ، اوراس کے لوگ کس قدر پرسکون تھے، یہ بھی معلوم ہوجائے گا۔ جب یہ معلوم ہوجائے گا، تب کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی گستاخ ہو، خواہ وہ کتنا ہی اشتعال انگیز ہو، وہ اس قوم کی یکجہتی اور اس کی قدروقیمت پرسوال اٹھانے کی جرآت نہیں کرے گا، جو اس کے رویے سے واضح ہے حالانکہ یہ سامراج سے 90 میل کے فاصلے پرواقع ہے۔

آنے والے سالوں میں، جیسے جیسے انقلابی تحریک کی نشوونما ہوگی، انقلابی تحریک ،جو سب سے بڑھ کر کیوبن انقلاب کی مثال سے، اس کی کامیابیوں سے، دشمن کے خلاف اس کے مؤقف سے، نشوونما پائے گی، تب ہمارے لوگوں کے سروں پر عظیم خطرے منڈلائیں گے۔ یہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب یہ قو م خطرے کا مقابلہ کرتی ہے تو اس قوم کے پاس دسیوں لاکھوں مسلح لوگ نہیں ہوتے، اس قوم کے پاس تھرمو نیوکلیئر ہتھیار نہیں ہوتے، کیونکہ یہاں ہمارے پاس اخلاقی راکٹ موجود ہیں۔ (تالیاں)۔ دسیوں لاکھوں لوگ لامتناہی کی نمائندگی نہیں کرتے، انسان کی تعداد لامتناہی نہیں ہے ، بلکہ یہ اس قوم کا وقار اور شائستگی ہیں جو لامتناہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آنے والا وقت ہماری گواہی دے گا، آنے والا وقت بہتان تراشوں کو کچل دے گا، ان بہتان تراشوں کو نہیں جو سامراجی نمک خوار ہیں ، بلکہ انہیں جو الجھے ہوئے ہیں، سازشی ہیں، انہیں جو ہمارے انقلاب کے خلاف بہتان تراشی کا آلہ بنتے ہیں اورسازشوں میں شریک ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply