ایمان، اتحاد، تنظیم ۔ ۔ ۔ تحریر مولوی انوار حیدر

ایک وقت تھا جب مسلمان ایک جان دو قالب ہوتے تھے. سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے. محبتوں کا دور تھا. مروتوں کا رواج تھا. دکھ سکھ سانجھے تھے. ذمہ داریاں مشترکہ تھیں. افرادی قوت کی فراوانی تھی. ایک آدمی مختلف فنون میں ماہر ہوتا تھا. کسی کام کے کرنے میں عار محسوس نہیں کی جاتی تھی. کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے پر ہتک محسوس نہیں ہوتی تھی نہ ہی کوئی کمی کوتاہی جٙتاتا تھا. سب بھائی بند تھے. ایک معاشرہ تھا. جو ہر لحاظ سے مکمل تھا. پھر ایک وقت آیا کہ نااہل حکمرانوں کے باعث دیگر مذاہب کی حکومتیں مسلم ممالک میں مداخلت کرنے لگیں. انھوں نے بزورِ طاقت اپنا نوآبادیاتی نظام مسلم آبادیوں پہ مسلط کر دیا. اپنا انتظامی ڈھانچہ موجود نہ ہونے کے باعث مسلم معاشرتی نظام براہِ راست نشانہ بنا. لوگوں کی عادات بدلی گئیں. زندگی گذارنے کے نت نئے طریقے پیش کیے گئے. دلچسپی کے مختلف النوع اسباب و عوامل دیکھ کر لوگوں نے اپنی روایات چھوڑ دیں. ماڈرن ازم کے نام پہ ایسے ایسے عمل و شغل رواج دیے گئے کہ مسلمان اپنی مذہبی روایات فراموش کرنے لگے. دین سے دوری پیدا ہونے لگی اور دین سے وابستہ ہرچیز غیرضروری ہوتی گئی. ترجیحات اور ضروریات کے ساتھ ساتھ اطوار و اٙفکار دونوں بدلتی گئیں.

لیکن کچھ لوگ اِس حال میں بھی پرانی روش پہ جم گئے. انھوں نے تبدیلی کا نعرہ رد کردیا. اِس کشمکش نے مسلمانوں میں تفریق کر دی. دوریاں بڑھتی گئیں اور مسلمان واضح طور دو حصوں میں بٹ گئے. ایک طبقہ جدت کو ترجیح دینے لگا. ایک طبقہ قدیم طرز اور دینی نہج پہ برقرار رہنے پر مُصِر رہا. اِس کِھینچا تانی کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے. عقائد، عبادات، اخلاقیات، تعلیمی نظام دو واضح انواع میں تقسیم ہوگیا اور تقسیم کمزوری کی پہلی موثر وجہ ہے. مسلمان آدھا تیتر آدھا بٹیر کی حالت میں آگئے.

اِس دگرگوں حالت کے اسباب ایک سے زائد ہیں. مرتکبین کئی ہیں، نہ ایک طبقہ ذمہ دار ہے نہ ہی کوئی ایک طبقہ اِس بگاڑ کو ٹھیک کرسکتا ہے. اِس واضح حقیقت کے باوجود اِس نقص اور خرابے کا ذمہ دار بعض جدت پسند لوگ قدامت پسند اور مذہبی طبقہ کو ٹھہراتے ہیں، خصوصاً موجودہ دینی نظامِ تعلیم پہ تو بہت ہی زیادہ تنقید کی جاتی ہے. سارے مسئلے کا ذمہ دار مسجد، مدرسہ، اور مولوی کو ٹھہرایا جاتا ہے. کہا جاتا ہے کہ دینی روایات کے نام پہ ہمیں جدید اصلاحات اپنانے سے روکا گیا ہے. نظامِ مملکت اور سماجی زندگی میں مسجد و مدرسہ کی مداخلت نے گرجا اور کلیسا کی طرح نقصان پہنچایا ہے. وغیرہ وغیرہ.

گرجا اور کلیسا کی کمزوریاں بیان کرنا، اُن پہ وضاحت دینا، ہماری ذمہ داری نہیں. وہ اُن کا اپنا مسئلہ ہے. بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری مسجد و مدرسہ اور دینی نظامِ تعلیم کے کردار کی بات کرنا ہے. مذہب کو مملکت سے الگ کرکے نصاریٰ ٰ نے معاشرہ تو بنا لیا مگر بے دین، جب کہ اسلامی نظامِ مملکت کی بنیاد دین ہے، اور اِس پورے نظام میں سے ایک جزو پہ تنقید کرنا انصاف نہیں ہے. جی ہاں نظامِ تعلیم جزو ہے جب کہ نظامِ مملکت کل ہے. جزو ہمیشہ کل کے تابع ہوتا ہے اور اِسی میں جزو کی بقا ہے. کل ہے تو جز بھی ہے، اگر کل ٹوٹ گیا تو اجزا بے حیثیت ہوجائیں گے.

اسلام کا نظامِ مملکت اپنے تمام اجزا کو بہترین اصول مہیا کرتا ہے، اجتماعی انفرادی تمام پہلووں پہ راہنمائی فراہم کرتا ہے. دینِ اسلام کے ماتحت تمام طبقات کی نمو و بقا اور بہتری مرکز سے وابستہ ہے. پنجگانہ جماعت کی اہمیت اور فسادِ اعمال میں دل کے بگڑنے کا موثر ہونا اِس بات کی ایک واضح دلیل ہے. دینِ اسلام اجتماعی نظام کی ترغیب دیتا ہے. حکومت، عبادت، تعلیم و تعلم اور سماجی معاملات، ہرجگہ دینِ اسلام اصول فراہم کرتا ہے. جب تک مسلم معاشرہ اپنی اصل پہ قائم رہا وہ مستحکم رہا، جب اصل نہ رہی تو انتشار اور بگاڑ آیا. مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہر طبقے نے اپنی بقا کی جستجو کی اور محبوری میں دستیاب وسائل سے کام لیا.

اِس تقسیم اور انتشار سے بگاڑ وارد ہوا سارے ہی طبقات متاثر ہوئے. نتیجتاً مسلمان ہر پہلو سے کمزور ہوتے گئے. اپنی حساس نوعیت کے باعِث سب سے زیادہ دینی نظامِ عبادت اور دینی نظامِ تعلیم متاثر ہوا. علاقائی طرزِ عمل اور شخصی افکار نے کافی پیچیدگیاں قائم کر دیں. مسلمانوں کے درمیان موجود گُھس بیٹھیئے افراد نے جلتی پہ ہمیشہ تیل ڈالا. معاملات الجھتے چلے گئے.

البتہ اِس طرح کے ہر زمانہ میں ہمیشہ چند سعید الفطرت اصحابِ خیر نے اصولوں کا دفاع اور تحفظ کیا. انہی مخلصین کی محنتوں کا صلہ ہے کہ آج بیکار سے بیکار مسلمان بھی اپنی اصل پہ نازاں ہے اور اپنے اصولوں سے پرامید ہے. گردنیں اڑانے والے چند ناصبی اور خارجیوں کے علاوہ جمہور امت فروعی مسائل سے آگے اجتماعی معاملات پہ ہمیشہ متفق اور متحد رہی ہے. زیریں معاملات میں بگاڑ کے ہم سب ذمہ دار ہیں. آج کے نقص اور بگاڑ کو کسی ایک طبقہ پہ ڈالنا صریح زیادتی ہے، ہم میں سے ہر ایک کو اپنی خامیاں دور کرکے ایک دوسرے کا معاون بننا ہوگا. ہر آدمی اپنا کام کرے گا تو کام میں سھار آئے گا. ہمیں ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کا لحاظ کرنا ہوگا..درسِ نظامی کے دوران ایک جملہ سنا تھا لِکُلِّ فٙنِّ رِجال، کہ ہر فن کے کچھ ماہر ہوتے ہیں. مثلاً عالِم اور مولوی دینی تعلیمات اور نظامِ عبادت کا مسئول اور نگران ہے. یہ اِیک طبقہ کی مسلّٙمہ حیثیت ہے. اِس سے آپ انکار تو کرسکتے ہیں مگر اِس کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے. اگر کوئی فرد مولوی کی مذہبی رائے سے ناراض ہوتا ہے تو یہ اُس کی زیادتی ہے. دینی طبقہ اپنے دیگر تمام انتظامی طبقات کی حیثیت کو قبول کرتا ہے لیکن دیگر طبقات دینی مکتب فکر سے ہمیشہ ہی خفا رہتے ہیں، اِصلاح اور اتفاق کی راہ اپنانے کے بجائے ہمیشہ تُو تُو مٙیں مٙیں پہ بات رہتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

نیز اصل کو دقیانوسیت کہنا بھی باہمی دوری کی اہم ترین وجہ ہے. جدید دور کے متعلق اجتہاد ہو یا مقابلہ ہو، اگر جملہ مسلم طبقات اپنی اصل دین کو ملحوظ رکھتے ہوئے باہمی برداشت اور تعاون کا عمل اختیار کرلیں تو انتشار اتفاق میں بدل سکتا ہے اور فساد اتحاد میں بدل سکتا ہے. یہی اسلام کا پیغام ہے. یہی قائد اعظم کی فکر ہے: ایمان، اتحاد، تنظیم.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply