ایک عورت ہزار داستان۔ ۔ ۔  نورین تبسم

دنیا کے بالا خانے میں قسمت کی دکان سجائے خواہشوں کے ہار سنگھار کیے عورت کا فقط ایک ہی روپ ہے جو ہر رشتے، ہر احساس، ہر تعلق میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح اُسے اپنی اوقات یاد دلاتا رہتا ہے. وہ لفظ جو منہ پر کہہ دیا جائے تو گالی ہے، برتا جائے تو چند گھڑیوں کی پھلجھڑی گناہ بے لذت. کسی بڑے لکھاری کے قلم سے لکھا جائے تو اُس کے جانے کے بعد کلاسیک ورنہ اُس کے سامنے فحش، قابل تعزیر۔ عام عورت کی زبان سے ادا ہو تو بےباکی، عام عورت کے قلم سے محسوس کیا جائے تو اندر کی گھٹن۔ سنجیدہ نویس کے لیے معاشرتی برائی، صحافی کی تحقیق سے سمجھا جائے تو چسکہ۔ “اُس” عورت کے وجود سے جھلکے تو بے شرمی۔ دنیا دار کے احساس کو چھو جائے تو مال مفت دل بے رحم، دین دار کے لیے مردار کی بُو سے بھی بدتر۔ جوان دولت مند کے لیے ہوس، عیاشی. عمر رسیدہ دولت مند کے لیے خطرے کا سائرن۔ غریب کے لیے طلب تو جہاں دیدہ کے لیے ماضی کی یادیں. مقتدر حلقوں کے لیے بہتی گنگا تو ایوان اقتدار کے کارپردازوں کے لیے ثقافت کی جاذب نظر پیکنگ۔ استحصال شدہ معاشرے میں مرد سے پڑھی لکھی عورت کا انتقام۔ جبر کی چکی میں پستی عورت کی مجبوری یا تقدیر کا ایک کریہہ وار۔ بدنصیب عورت کا نصیب خواہ وہ جنم جلی ہو یا کسی اورکے گلشن کی کلی۔ خاتون خانہ کے خواب و خیال سے بھی کوسوں دور تو شمع محفل کے شب و روز کی کہی ان کہی داستاں۔ سچی محبت کی تلاش میں ماری عورت کے لیے سراب ِصحرا. جھوٹی محبتوں کا غازہ لگائےتو نابینا کر دینے والی چکا چوند. غلطی سے ماں جیسے مقدس رشتے سے آشنا ہو جائے تو آنے والی نسل کے لیے کلنک کا ٹیکہ۔ جان بوجھ کر متمنی ہو تو اپنی جیسی جنس کی طالب اور اگر جنم دے لے تو میلہ چراغاں ورنہ نرالا دستور کہ رہتی دنیا تک بے ننگ و نام سوائے آخرت میں ماں کے نام سے پکارے جانے کی امید۔ اپنے آپ کی صحیح بولی لگانے کا ہنر جان لے تو کامیاب ترین “کاروباری” عورت۔ توبہ کے پانی سے غسل کرے تو آسمان چھو لے، بھٹکے ہوؤں کے لیے سنگ میل بن جائے تو بڑے بڑوں کو پار لگا دے۔ خود آگہی کے احساس کی انتہا کو چھو لے تو ٹھنڈے کمرے میں آتش فشاں بھڑکا دے اور گرم کمرے میں جامد گلیشئیر بن کر زمانوں کے لیے ممی کی صورت حنوط ہو جائے…

کیا ہے یہ عورت؟ کیوں ہے یہ عورت؟ کون ہے یہ عورت؟

یہ عورت کا کون سا روپ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے نہ مانتے ہوئے ہر احساس میں کہیں نہ کہیں یوں چپکے سے در آتی ہے جیسے ہنستی بستی جنت میں شیطان سانپ کا روپ دھار کر داخل ہوا تھا اور پھر نہ بستی رہی نہ جنت. گریہ ہی بچا تھا اور یا پھر سانپ جو آج تک کبھی خواب کبھی خیال میں آکر اسی طرح چپکے سے اس دنیا سے بھی دربدر کرانے کی خو میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات. عورت صرف عورت ہے. اگر اس کو اپنی پہچان کا علم عطا ہو جائے تو نسلیں سنور جاتی ہیں ورنہ بےخبری اور قناعت کی اعلٰی ڈگریاں آراستہ پیراستہ محل ہی بنا سکتی ہیں اور عورت کا جسم اس شان و شوکت میں مٹی کی قبر بن کر دوسروں کے لیے محبت و عقیدت کی چادریں چڑھانے کا سزاوار تو ہو سکتا ہے لیکن اپنے لیے وہ پیوند خاک ہی رہتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply