فوج کے نام پر ووٹ طلب کرنے کے خطرے ۔۔۔۔ابھے کمار

ہندوستانی فوج کے موضوع پر کئی دہائیوں سے تحقیق کر رہے مؤرخ اسٹیفن  ولکنسوں  کے مطابق، ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے سیاست میں فوج کی مداخلت کو روکنے یا کم کرنے کے لئے بہت سارے اقدامات اٹھائے. مثال کے طور پر، آزادی کے بعد انہوں نے وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کے ذریعے فوج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی. علاوہ ازیں، نہرو نے سابق فوج کے کمانڈروں اور سینئر افسران کو سفیر بناکر ملک اور ملک کی سیاست سے دور رکھا۔ آئی بی کے مخبروں کو فوج کے سینئر افسران پرگہری نظر رکھنے کی ذمہ داری دی،فوج کے اوپر جمہوری اور سیاسی قیادت کے تسلط کی علامت کے طور پر انہوں نے آزادی کے فوراً بعد کمانڈر ان چیف کی نئی دہلی میں واقع عالیشان تین مورتی کوٹھی کو اپنے قبضے میں لیا اور خود اس میں داخل ہو گئے.

مگر آج کل اس کا اُلٹا ہو رہا ہے۔ بر سر اقتدار جماعت یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی اور کامیابی کے لیے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے. یہ جانتے ہوئے بھی کہ فوج کی سیاست میں مداخلت کو پوری طرح سے روکا نہیں جا سکتا ہے، بصیرت رکھنے والے سیاست دانوں کی یہ ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ فوج کو زیادہ سے زیادہ وقت تک “بیرک” تک محدود رکھا جائے.

مگر ان سب حقائق کے باوجود کہ نظر انداز کر کے، بر سر اقتدار جماعت بھاجپا فوج کو سیاست میں گھسیٹ رہی ہے۔ حکمران جماعت کے اعلی رہنماء فوج کے نام پر ووٹ طلب کر رہے ہیں. یہ سب جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے کیونکہ وکاس سے متعلق بر سر اقتدار جماعت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے.لہٰذا وہ کوشش کر رہی ہے کہ انتخابی تشہیر کے دوران زیادہ سے زیادہ مذہبی اور جذباتی مسائل اٹھائے جائیں۔

فوج کے نام پر ووٹ طلب کرنے والوں میں وزیر اعظم نریندر مودی بھاجپا کے کسی بھی لیڈر سے پیچھے نہیں ہیں. گزشتہ جمعہ کو راجستھان کے سیکر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کانگریس حکومت کی طرف سے “سرجیکل اسٹرائیک” کرنے کی صلاحیت کا مذاق اڑایا اور اس طرح فوج کی کارروائی کا بھی سارا کریڈٹ خود لے لیا، انتخابات کے پہلے چار مراحل میں چاروں خانے چت ہونے کے بعد اب کانگریس پارٹی ایک نئی چال چل رہی ہے. کل سینئر کانگریس کے ایک سینئر رہنما نے بیان دیا ہے کہ ہمارے زمانے میں بھی کئی مرتبہ سرجیکل اسٹرائیک کی گئی۔ اب کانگریس اس بات کو ثابت کرنے میں لگی ہے کہ ہم نے بھی سرجیکل اسٹرائیک کی تھی. ”

جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک میں جنگی طیارے سرحد پار جا کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہیں . یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حملے کچھ حد تک اسرائیل کی “جنگی حکمت عملی” پر مبنی ہے. بہت سے بی جے پی کے رہنماؤں اسرائیل کے اس جارحانہ موقف کے قائل رہے ہیں اور انہوں نے بعض اوقات یہ کہنے سے گریز نہیں کیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے “اسرائیلی ماڈل” کو بھارت میں بھی اپنایا جانا چاہیے۔

اسرائیلی ماڈل کا قائل سنگھ پریوار بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پاریوار اور اس کی معاون تنظیمیں ہمیشہ طاقت کی پرستش میں یقین رکھتی ہیں. ‘ایک دیش، ایک سنسکر تی اور ایک راشٹر’ کا دعویٰ کرنے والا سنگھ پریوار کہ بھارت کو دنیا میں طاقتور ملک بنانا جاتا ہے. لہذا،سال 1964 میں جب چین نے ایٹمی بم دھکہ کیا تھا، تب سے سنگھ پرویز بھی بھارت کے ذریعے ایٹمی طاقت بننے کا مطالبہ کر رہا تھا.

فوج کی تعریف کرنے اور اسے “تنقید سے پرے” رکھنے کا موقف سنگھ پریوار کے اسی طاقت کی عبادت کے نظریہ کا نتیجہ ہے. ہندوستانی قومی تحریک میں لبرل اور گاندھیائی رجحا نات کی تنقید اور کئی مواقع پر ہٹلر کی متشدد سیاست کی حمایت میں بیان دینا سنگھ پریوار کے اسی جارحانہ سیاست کا حصہ رہا ہے.

لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج ریاست کا ایک ادارہ ہے۔ لہٰذا اسے تنقید سے پرے نہیں رکھا جا سکتا ہے. جس طرح دیگر ادارے میں مسائل پائے جاتے ہیں، ویسے فوج کے اندر کون زیادہ پایا جاتا ہے کیوں کہ ان اداروں کو چلانے والے انسان ہی ہوتے ہیں، جن کے اندر خوبی اور خامی دونوں پائی جاتی ہیں۔ تحقیق کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ فوج کے اندر بھی بہت سی خامیا ں ہیں، جیسے۔۔بد عنوانی، امتیازی سلوک، صاحب اور نچلے رینک کے جوانوں کے درمیان فاصلے، پروموشن کے معاملے میں بے ضابطگی، سابق فوجیوں کی پریشانیاں، وغیرہ. آج تک، فوج کے بڑے منصب پر پسماندہ اور محروم طبقات کی واجب نمائندگی نہیں ہے.

لیکن مودی اور ان کی پارٹی کو ان واجب سوالات سے بہت مطلب نہیں ہے۔اُن کو بس یہی ثابت کرنا ہے کہ حزب اختلاف فوج کی عزت نہیں کر رہا ہے۔ بھاجپا کی کانگریس کے خلاف دو طرح کے الزامات ہیں. اول یہ کہ کانگریس “ہند کے مفاد” کی حفاظت نہیں کرپاتی ہے۔ دوسرا یہ کانگریس غدار وطن کی زبان بول کر فوج کے حوصلے کو پست کر دیتی ہے۔ ذرا غور فرمائیں، کس آسانی سے بھاجپا ہندو کمیونٹی اور فوج کو ایک کر دیتی ہے۔

اس طرح کانگریس پر طنز کرتے ہوئے، مودی کہتے ہیں: ” یہ کیسی سرجیکل اسٹرائیک تھی بھائی، جس کے بارے میں دہشت گردوں کو کچھ پتہ نہیں، سرجیکل اسٹرائیک کرنے والوں کو کچھ پتہ نہیں، پاکستان کو کچھ نہیں پتہ اور نہ ملک کے عوام کو کچھ پتہ ہے. ”

یہ کتنی تشویشناک بات ہے کہ وزیراعظم اسٹریٹجک اور فوجی معاملات سے متعلق کارروائی کی تشہیر کے بارے میں بات کررہے ہیں. کیا ہر فوجی کارروائی کو پرائم ٹائم ٹی وی شو میں دیکھایا جانا چاہیے؟

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر فوج نے “بہادری” کا مظاہرہ کیا ہے، تو کیا اس کا سہرا کسی خاص سیاسی جماعت یا اس کے رہنما کے سر باندھا جانا چاہیے؟ جس اپوزیشن نے ملک کی قیادت سب سے طویل مدت کے لیے کی اسے ملک کی سلامتی سے بے پرواہی کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟

بر سر اقتدر جماعت پاکستان، دہشت گردی کا خوف دکھا رہی ہے۔ عوام کو پہلے ڈرایا جا رہا ہے اور پھر مضبوط پارٹی کے طور پر بھاجپا کو پیش کیا جا رہا ہے۔دوسری طرف حریف جماعت کو کمزور متبادل کہا جا رہا ہے۔ مودی کی خوب شخصیت پرستی ہو رہی ہے اور اُن کا امیج ایک طاقتور رہنما کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے. مودی کے فوج پریم کے بارے میں بہت ساری باتوں کو پھیلایا جا رہا ہے گویا ان سے بڑا فوج کا خیر خواہ اور کوئی لیڈر نہیں رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر مودی کے فوج پریم کی حقیقت بھی جان لیجیے۔ مودی کے پانچ سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی فوج کے نچلے رینک کے جوانوں کی حالت خراب بنی ہوئی ہے۔ کئی مواقع پر انہیں متوازن غذا میسّر نہیں ہے۔ بی ایس ایف کے جوان تیز بہادر یادو نے یہی مسئلہ اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ اُن کو دل میں پانی ملا کر دیا جاتا ہے۔ نا انصافی دیکھیے کہ اُن کی شکایت پر کارروائی کرنے کے بجائے انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا اور اب ورناسی سے مودی کے خلاف ان کی نزدگی خارج کر دیا گیا ہے۔ تضاد دیکھیے کہ فوج کا سب سے بڑے خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے مودی اور بھاجپا نے اس پورے معاملے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔مودی کے دور میں نج کاری مزید تیز ہوئی ہے اور جوانوں کی بنیادی سہولتوں میں تخفیف کی جا رہی ہے۔ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مودی حکومت نے ہائیر ملٹری پی سروس کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ اگر اس مطالبے کو مودی حکومت میں کرتی تو 1.12 لاکھ جوانوں کو فائدہ پہنچتا. یہ بھی تو سچ ہے کہ چار سالہ مودی حکومت میں جموں اور کشمیر کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر 2014 سے 2018 کے درمیان جموں و کشمیر میں 219 جوان ہلاک ہوئے، جو مودی کے آنے سے پہلے کے پانچ سالوں میں 144 تھا۔آخر میں ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مودی کے دور حکومت میں بھی جوانوں کے اوپر حملوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply