ایدھی سے ایک یادگار ملاقات کی کہانی۔۔۔۔صفی سرحدی

ایدھی میرے محبوب تھے وہ ہمیشہ سے میرے  آئیڈیل رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے محبوب کا پہلا دیدار میں نے  2009 میں اس وقت کیا تھا جب میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ کالج سے چھٹی ہونے کے بعد میں سائیکل پر واپس گھر آ رہا تھا۔ حیات آباد فیز فائیو میں ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر بلقیس ایدھی ہوم تھا۔ میں نے گھر کی طرف موڑ لیتے ہوئے بلقیس ایدھی ہوم سے ایک ایمبولنس نکلتی دیکھی جس میں میرے محبوب مجھے پہلی بار نظر آئے۔ میری نظر پہلی بار اپنے محبوب پر پڑی تھی مارے خوشی کے  میں نے سائیکل کو کٹ ماری اور اپنے محبوب کا تعاقب شروع کیا۔

ایمبولینس تیز جارہی تھی اور میں زور سے اپنے محبوب کو پکارتا رہا ایدھی صاحب رک جائیں۔ ۔لیکن ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایدھی صاحب کا تعاقب میری آواز بھی میری سائیکل کی طرح نہ کرسکی۔ میں نے پاؤں پر خوب زور ڈالا ،سائیکل برق رفتاری سے چلنے لگی ،حالانکہ سائیکل کے بریک بھی خراب تھے مگر میں نے تعاقب جاری رکھا۔ میری سانس پھول رہی تھی پی ڈی اے بلڈنگ کے پاس ایک قبر نما بریکر پر سائیکل چڑھ دوڑی اور ایک تیز جھٹکے سے میری کتابیں کیرئر سے گر گئیں۔ میں نے ایک نظر پیچھے دیکھا جہاں کتابیں گری تھیں مگر ایک نظر اپنے محبوب کو دیکھا اور سوچا شاید پھر کبھی ملاقات نہ ہوسکے۔ میں کتابوں کیلئے نہیں رک سکا لیکن تب تک ایمبولنس مین روڈ تک پہنچ چکی تھی اور گاڑیوں کی بھیڑ میں میری نظر سے  اوجھل  ہوچکی تھی۔ کوئی تین چار کلو میٹر دور تک گاڑیوں میں ایمبولنس کو ڈھونڈتا رہا لیکن وہ مجھے نہیں ملی۔ سخت مایوسی کا سامنا ہوا۔ واپسی پر کتابیں بھی نہیں ملیں۔

مصنف:صفی سرحدی

قصہ مختصر۔۔ اگلے سال  2010  میں کالج سے ملی گرمیوں کی چھٹیاں گاؤں میں گزارنے کے بعد پشاور واپس آرہا تھا، مین روڈ پر گاڑی سے اترنے کے بعد پیدل گھر جارہا تھا۔ گھر کے رستے میں بلقیس ایدھی ہوم پڑتا ہے جہاں پہنچ کر میں ہکا بکا رہ گیا بلقیس ایدھی ہوم کے باہر میرے محبوب بیٹھے ہوئے تھے۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی، اپنے محبوب سے گلے ملتے ہوئے میں نے کہا پچھلی بار  آپ کا بہت تعاقب کیا لیکن ناکام رہا لیکن اللہ نے سنی تھی اس نے  آپ ملوانا تھا۔ ایدھی صاحب مسکرائے اور شفقت سے میرے ہاتھ پکڑ لیے اور بڑی دیر تک میرے ہاتھوں کو تھام کر مجھے سکون پہنچاتے رہے۔ میں نے ان کے ساتھ ایک عدد تصویر موبائل پر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایدھی صاحب نے پاس کھڑی ایک لڑکی سے کہا آپ ان کے موبائل سے ہم دونوں کی تصویر بنائیں۔ اس نے حکم کی تعمیل کی ایدھی صاحب تصویر دیکھ کر مسکرائے۔ تصویر بنانے والی لڑکی کا شکریہ ادا کرنے   کے بعد میں نے ایدھی صاحب سے پوچھا کیا یہ کبری ایدھی ہیں  آپ کی اپنی بیٹی؟ وہ مسکرائے اور بولے اب تو یہ ساری میری اپنی بیٹیاں ہیں۔ میں نے ایدھی صاحب سے کہا گھر تک جاتا ہوں پھر  آپ سے ملنے آتا ہوں آپ کب تک یہاں رکے ہیں؟
ایدھی صاحب مسکرائے۔ بیٹا ابھی تو چندہ اکھٹا کرنا ہے تین چار دن یہیں ہوں۔ سن کر دل کو تسلی ہوئی اور گھر  آکر امی سے ایدھی صاحب سے ملاقات کی خوشی شیئر کی۔ عصر کا وقت ہوا تو اپنے محبوب سے ملنے پہنچا۔ ایدھی صاحب اکیلے بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھ کر مسکرائے اور پاس والی کرسی میرے بیٹھنے کیلئے قریب کی۔ اپنے محبوب سے بات چیت شروع ہوئی میرے سوالات تھے جو ختم نہیں ہورہے تھے اور ان کے جوابات تھے جسے سن کر دل ہی نہیں بھر رہا تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ میں اس وقت دنیا کے سب سے عظیم انسان کا بہت قیمتی وقت لے رہا ہوں۔

چونکہ میں پہلے ہی  ایدھی صاحب کی بائیوگرافی پڑھ چکا تھا اس لیے  میں نے ان کی زندگی کے متعلق ان سے کافی باتوں کے بارے میں دریافت کیا اور وہ بڑے پیار سے اپنے ماضی کی سختیوں اور جدوجہد کے بارے میں بتاتے رہے۔ میں نے اُن سے کہا آپ کو جب بھی ٹی وی پر یا اخباروں میں دیکھتا ہوں تو  آپ نے ایک یہی کالا جوڑا زیب تن کیا ہوا ہوتا ہے جو کہ میں اب بھی آپ کے بدن پر دیکھ رہا ہوں اس سیاہ جوڑے میں چار پیوند لگے ہوئے ہیں جب کہ  آپ کی  دو جیب بھی نیلے رنگ کی  ہیں، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی  آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے لگائی ہیں ؟۔۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے سادگی سے رہنا مجھے پسند ہے میں ابھی تو نہیں بلکہ بچپن سے ہی سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرتا چلا آ رہا ہوں۔ بلقیس سے شادی بھی میں نے اس لئے کی کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے ساتھ باسی روٹی بھی کھائے گی۔

بلقیس سے بے انتہا محبت کے بارے میں نے سوال کیا تو ایدھی بولے اتنے برس گزر گئے لیکن اسے کبھی تھکا ہوا نہیں دیکھا اور وہ میری سب سے بڑی قوت ہے جو اب تک میرا ساتھ دے رہی ہے۔ کوئی اور ہوتی تو کب کا اکیلا چھوڑ چکی ہوتی۔ میں نے اپنے محبوب سے ان کی پہلی محبت کے بارے میں بھی پوچھا۔ ایدھی صاحب  آپ کیا کہتے ہیں اگر وہ مل جاتی تو کیا اپ اتنے کامیاب ہوتے؟ وہ بولے بالکل نہیں کیوں کہ اس نے اس وقت ساتھ نہیں دیا اب کیا ساتھ دیتی۔۔۔ مگر بلقیس نے اس وقت بھی میرا ساتھ دیا تھا اور  آج بھی دے رہی ہے۔

لبنان جنگ پر ایدھی صاحب کی ایک الگ کتاب بھی میں پڑھ چکا تھا اس لیے  میں نے اپنے محبوب سے فکریہ انداز میں پوچھا۔ آپ اپنی صحت اور جان کی پرواہ بالکل بھی نہیں کرتے آپ کہیں بھی چلے جاتے ہیں۔ کبھی فلسطین تو کبھی لبنان  اور وہاں اسرائیل کے حملے ہوتے رہتے ہیں آپ کو جنگ زدہ علاقوں میں اس عمر میں نہیں جانا چاہیے، آپ وہاں اپنے کارکن بھی تو بھیج سکتے ہیں۔ لبنان جنگ کے حوالے سے آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک بار تو آپ کو اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لے کر قید میں ڈال دیا تھا۔ خدا نہ کرے اگر  آپ کو کچھ ہوجاتا ہے تو اپ کے بعد غریبوں کا مسیحا کون ہوگا؟ وہ مسکرا کر بولے میرے بعد میرا بیٹا فیصل ایدھی جو ہے مجھے تسلی ہے وہ سب کچھ سنبھال لے گا۔ اور رہا آپ کا سوال کہ مجھے   کچھ ہوجائے گا تو اب تک تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ میں فوجی آاپریشن کے وقت سوات جارہا تھا تب مجھے آرمی والوں  نے آخری چیک پوسٹ پر روک لیا اور مجھ سے کہا آپ ہمارے ملک کے بہت بڑے وی  آئی پی ہیں ہم آپ کو مزید اس سے  آگے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے کیوں کہ  آگے طالبان ہیں وہ آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا آپ کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ میں نے فوجیوں سے کہا مجھے کچھ نہیں ہوگا میں ملنگ فقیر آدمی ہوں میں نے  آگے جاکر لوگوں کی مدد کرنی ہے تب مجھے آرمی والوں نے نا چاہتے  ہوئے بھی آگے جانے دیا۔ میں نے طالبان کو دیکھا انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا میرے ساتھ تب پانچ لاکھ روپے بھی تھے۔ اور ایک بار بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے میں میرا جانا ہوا میرے پاس تھیلی میں دس لاکھ روپے تھے۔ رستے میں ڈاکوؤں نے اسلحے کی نوک پر میری ایمبولنس کو روک لیا لیکن جونہی انہوں نے مجھے پہچان لیا تو وہ سارے کے سارے معافیاں مانگنے لگے۔ اور الٹا انہوں نے مجھے بہت سارا پیسہ دیا اور میری ایمبولنس کو باحفاظت اپنی نگرانی میں اس غیر محفوظ مقام سے نکالا کیوں کہ انہیں میری فکر ہورہی تھی کہ راستے میں کوئی اور مجھے تکلیف نہ دے۔ چوروں اور ڈاکوؤں سے میرا بہت بار سامنا  ہوا ہے اور جب کبھی بھی سامنا  ہوا ہے انہیں لینے کے دینے پڑتے تھے۔ اور ویسے بھی میں جس سے ملتا ہوں کوئی کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے خالی ہاتھ مجھے کوئی جانے نہیں دیتا چاہے وہ چور ڈاکو ہی کیوں نہ ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایدھی صاحب سے گپ شپ چلتی رہی میرے لیے بڑی بوتل سیون اپ آئی۔ ایدھی صاحب کو شوگر تھی انہوں نے خاموشی سے آدھا گلاس بھرا لیکن اُوپر سے ایک لڑکی نے غصے سے آواز دی جس کا میں نے بہت بُرا منایا۔۔ ایدھی صاحب مسکرائے۔ خیر ہے میری بیٹی ہے مجھ سے پیار کرتی ہے۔ اپنے محبوب کو میں نے اپنے گھر شام کھانے کی دعوت دی لیکن وہ بولے میں ضرور چلا جاتا لیکن یہاں مجھے چندہ اکھٹا کرنا ہے لوگ آتے رہتے ہیں چندہ میں خود وصول کرتا ہوں یہ سُن کر میں نے مزید اصرار نہیں کیا۔ ایدھی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں انہیں اس دنیا سے گئے تین سال بیت چکے ہیں۔ لیکن میں اب بھی خود کو اُن کے ساتھ محو گفتگو دیکھتا ہوں۔ یادیں کبھی نہیں مرتیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply