ایدھی اور جنید جمشید ایک المیہ

کچھ ہی دن ہوئے کہ فخر انسانیت عبدالستار ایدھی اس جہان فانی سے کوچ کیے تھے۔۔ ایدھی، لاکھوں انسانوں کو چھت مہیا کرنے والا۔۔ ایدھی، ہزاروں بچیوں کو جہیز فراہم کر کے ان کے گھر بسانے وال۔۔ ایدھی، روزانہ لاکھوں بھوکوں کے پیٹ بھرنے والا۔۔ ایدھی، جس نے اپنی سانسیں ان معصوموں کے لئے وقف کر دی تھیں جن کی سانسیں روکنا فقط اس واسطے ضروری ٹھہرا تھا کہ ہمارا پول نہ کھل جائے۔۔ جو کانڈ ہم نے کیا تھا وہ کسی کی نظر میں نہ آ جائے۔۔ مبادا کوئی جان نہ پائے کہ ہم نے اپنا منہ کالا کیا ہے۔۔ جی وہی ایدھی جب ہمیں چھوڑ گیا تو اس پر مٹی ڈالے جانے کا بھی انتظار گوارا نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس سے پہلے کہ ایدھی کے دفنانے کا وقت مقرر ہوتا ہم سرخ کتاب کھول کر بیٹھ گئے تھے۔۔ شیخ نے فتوی دیا تھا کہ ملحد ہے۔۔ خدا کا منکر ہے۔۔ زمین کا خدا بننا چاہتا تھا۔۔ آسمانی مذہب کی بجائے انسانیت کو اپنا مذہب جتلاتا تھا۔۔ جہنمی ہے۔۔ دوزخ میں جلے گا۔۔ گناہ سے جنم لینے والے جیووں کو کچرے کے ڈبوں میں پھینکے جانے سے بچانے کے لئے جھولے لگا کر گناہ کی دعوت دیتا تھا۔۔ یاد ہے نا۔!! یہی ہوا تھا کہ نہیں۔؟؟
پھر ایک حادثہ ہوا۔۔ موسیقی کی دنیا کا ابھرتا ہوا ستارہ جنید جمشید بھی ہمیں چھوڑ گیا۔۔ جنید جمشید، جس نے دل دل پاکستان گا کر پاکستان کو بچے بچے کی جان بنا دیا۔۔ جنہد جمشید، جو رنگ و لے کی دنیا سے پلٹا تو قدسی نفسوں کا نمونہ بن گیا۔۔ جنید جمشید، جس نے ہمیں سکھایا کہ عزم، ہمت اور حوصلے کے ساتھ نا ممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔۔ جنید جمشید، جس کی زندگی مجھ ایسے گنہگاروں کے لئے مشعل راہ ٹھہری۔۔ جنید جمشید، جس نے بھٹکے ہوؤں کو نیکی کا راستہ دکھلایا۔۔ ہاں وہی جنید جمشید جب ہم سے رخصت ہوا تو لال کتاب پھر سے نکال لی گئی۔۔ ابھی اس کے لاشے ٹکڑوں کی صورت بکھرے پڑے تھے۔۔ وہ اکیلا نہیں بیوی اور بچی سمیت راہی عدم ہوا تھا۔۔ لیکن شیخ نے کیا کیا۔؟؟ جہنمی ہے۔۔ گستاخ تھا۔۔ آگ میں جلے گا۔۔ خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔۔ یہی ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ۔۔ عشق رسولﷺ کے بد اخلاق ٹھیکیداروں نے صدمے سے دو چار قوم کو ذرا مہلت دی۔۔ نہیں۔۔ کسی کے آنسو خشک ہونے کا موقع فراہم کیا۔۔ نہیں۔۔ کیوں۔۔؟؟؟ افسوس تو یہ بھی ہے کہ جنید جمشید کی بار شیخ کے ساتھ ساتھ بادہ خوار بھی یہی ڈگڈگی بجاتے رہے۔۔ کیوں۔؟؟ کیوں۔؟؟ کیوں۔؟؟
لگتا ہے اب ہمارا یہی مشغلہ رہ گیا ہے کہ گدھوں کی طرح کسی کی سانسیں ٹوٹنے کا انتظار کریں اور پھر اپنے جیسوں کو آواز دے کر کہیں۔۔ آؤ نوچیں۔۔ یاد رکھیے گا افریقہ کے جنگل میں جس فوٹو گرافر نے اس گدھ کی منظر کشی کی تھی جو ایک بچے کے مرنے کا انتظار کر رہا تھا اس نے بعد میں خود کشی کر لی تھی۔۔ وہ تہذیبیں بھی خودکشی پر مجبور ہو جائیں گی جو گدھ کی طرح مرنے والوں کو نوچنے اور بھنبھوڑنے کا انتظار کر تی ہیں۔۔ آپ بھلے اس تہذیب کو کسی بہت ہی مقدس آسمانی عقیدے سے وابستہ جتلائیں باقی نہ رہے گی۔۔ جس خدا کے نام پر آپ مرنے والوں کی کنڈلیاں کھولتے ہیں وہ خدا آپ سے اور آپ کی تہذیب سے بری ہے۔۔ جس نبی کے عشق کی دہائی آپ دیتے ہیں وہ آپ کے ان ڈھکوسلوں سے کوسوں دور ہے۔۔ ہوش میں آئیے اس سے پہلے کہ زمین آپ کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے۔۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ایدھی اور جنید جمشید ایک المیہ

Leave a Reply