ایک نئی علی گڑھ تحریک کی ضرورت۔۔۔ راشد شاز

سرسید نبی یا پیغمبر نہیں تھے لیکن وہ ساری عمر کارِنبوت سے اشتغال کرتے رہے۔ خاص طور پر زندگی کے آخری برسوں میں انھوں نے اپنی تمام تر صلاحتیں وحی ربانی سے انسانی التباسات کے حجابات چاک کرنے میں صرف کردیں۔ اپنے ہم عصر مرزا غلام احمد قادیانی کے برعکس — جنھیں گا ہے وحی والہام کا دھوکہ ہوتا رہا اور جن کے بارے میں سرسید کا خیال تھا کہ وہ ’’ایک بزرگ، زاہد، نیک بخت آدمی ہیں ۔بہت سے نیک آدمی ہیں جن کو اس قسم کے خیالات پیدا ہوچکے ہیں‘‘— سرسید نے کبھی بھی اپنے آپ کو تنقید وتجزیہ سے ماوراء مُلہم یامحدَّث کی حیثیت سے پیش نہیں کیا۔ حالانکہ اسلامی تاریخ میں بہت سی نیک خصال برگزیدہ ہستیوں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے یا اپنے گرد لوگوں کو جمع کرنے کے لیے بات بات پر “الھمنی ربی” کی صدا لگائی ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی اس سلسلے کی بہترین مثال ہیں۔ سرسید حکمائے اسلام کی اس ریت سے واقف تھے۔ انھیں مرزا غلام احمد کے دعاوی پر کچھ تعجب نہ ہوا۔ البتہ خود اپنے لیے انھوں نے کسی ایسے الہامی رابطے یا مکاشفے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ وہ جس نئے علم کلام کی بنا ڈالنا چاہتے تھے اس کا محور و مرکز وحی ربانی کے مُنزّل اور متعین صفحات تھے جن تک رسائی کے لیے انسانی عقل اور فہم رسا کی ضرورت تھی ؛ تدبر ،تعقل اور تفکر کی ایک ایسی دنیا جو وحی اور عقل کے آمیزے سے تشکیل پاتی ہو، جہاں وحی اور عقل ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہوں،نفی نہیں۔

ایک ایسے عہد میں جب مجاہدے، مکاشفے اور مشاہدۂ حق کے غلغلے عام ہوں اور اہل تقویٰ کے لیے یہ آسمانی طرز تکلم کچھ معیوب بھی نہ سمجھا جا تا ہو، سرسید کا یہ بڑا عظیم کارنامہ ہے کہ ٹھیٹ اسلام کی تلاش میں انھوں نے اپنے آپ کو ایک ٹھیٹ طالب علم کی حیثیت سے پیش کیا ۔ ان کی یہی منکسرالمزاجی ان کے لیے مصیبت بن گئی۔ جو لوگ حکمائے اسلام کو اب تک مکاشفے کا پروردہ سمجھتے آئے تھے اور جو لوگ ابن عربی سے لے کر مجددالف ثانی اور شاہ ولی اللہ کی شطحیات و انحرافات پر محض اس لیے لب کشائی کی جرأت نہیں پاتے تھے کہ مبادا ان کے تار آسمانوں سے ملے ہوں، ان کے لیے سرسید جیسے ٹھیٹ طالب علم کو جو بقول خود کبھی تو انابت الیٰ اللہ سے سرفراز ہوتا اور کبھی اپنی نمازوں میں بھی سستی کرجاتا ، تنقید وتنقیص بلکہ کفر والحاد سے متہم کرنا آسان ہوگیا۔

سرسید ایک عقلی رویہ کی بناڈالناچاہتے تھے اگر وہ اپنی مذہبی تعبیرات یا فہم دین کو الھمنی ربی کے جلو میں پیش کرتے تو ایک خالص عقلی اور طالب علمانہ رویے کی ابتداء ممکن نہ ہوتی۔ اس اعتبار سے انیسویں صدی کے زوال زدہ مسلم معاشرے میں جب سطوت اسلامی کا چراغ گل ہوچکا تھا، قرآن مجید کو عام انسانوں کے لیے بطور منشور پیش کرنے اور وحی ربانی کی تجلیوں سے اپنی گم کردہ راہوں کو منور کرنے کی یہ دعوت فی نفسہ ایک تجدیدی کارنامے سے کم نہ تھی۔ گو کہ سرسید کی اس تجدیدی حیثیت کاادراک اور اعتراف کم ہی کیا گیا ہے۔

اپنی تمام تر عظمت ورفعت اور جلالت علمی کے باوجود سرسید بنیادی طور پر ایک انسان تھے۔ لہٰذا ان کی تحریک میں بشری لغز شوں اور “اسٹرٹیجک تسامحات” کادرآنا فطری تھا۔ سرسید علوم جدیدہ کی تلاش میں مغرب کی جن دانشگاہوں تک گئے یہ فی الواقع وہی دانشگاہیں تھیں جو عہد وسطیٰ کے مسلمانوں کی اقتداء میں قائم ہوئی تھیں۔ سرسید ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے تھے جب مسلمانوں کی سائنسی اور تہذیبی تاریخ انیسویں صدی کے غلغلۂ دانش فرنگ میں کچھ اس طرح نظرو ں سے اوجھل ہوگئی تھی کہ بڑے بڑے اہل نظر اور مفکرین کو بھی اپنی تاریخی جاہ وحشمت سے ناواقفیت کے سبب انگریزوں کے بھنگی اور خاکروب اعلیٰ پائے کے مہذب انسان معلوم ہوتے تھے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب عام مسلمان اس احساس سے خالی تھے کہ فکر وفن اور سائنس واکتشاف کی یہ نئی دنیا جس کی قیادت پر بوجوہ آج مغرب قابض نظر آتا ہے، دراصل نزول قرآن کے نتیجہ میں مسلمان علماء وحکماء کے ہاتھوں تشکیل پائی ہے۔ ایک ایسے انسان کے لیے جس کی ملّی تاریخ چوری ہوچکی ہو، جس کا سیاسی نظام خود اس کی نگاہوں کے سامنے تاراج ہوا ہو، جس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  اور دین پر انگریز پادریوں کے حملے جاری ہوں اور جس کے نتیجہ میں وہ اپنی نئی نسل کو دین سے برگشتہ ، دشمنوں سے مرعوب، کفروالحاد کی طرف گامزن دیکھتا ہو، ایک نئی ابتداء کا ڈول ڈالنا کچھ آسان نہ تھا۔

علی گڑھ تحریک کا پہلا دور ہماری زوال زدہ ملی تاریخ میں ایک غلغلہ انگیز کیفیت سے عبارت رہا۔ پہلی بار ملی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جو کشف والہام کا دعویدار نہیں بلکہ عقل و وحی کا پرستار تھا۔ جس کا یہ دعویٰ تھا کہ جوچیز عقل کے خلاف ہوگی وحی بھی اس کی حمایت نہیں کرسکتی۔ فارق العقل تاویلات اور لاطائل قصے کہانیوں نے وحی ربانی کے چشمۂ صافی پر جوپہرہ بٹھا رکھا تھا اور جسے فکر اسلاف یا تفسیر بالماثور کے حوالے سے حرف آخر کا درجہ حاصل ہوگیا تھا، سرسید نے ان تعبیرات کو قرآن مجید کے ایک عام طالب علم کی حیثیت سے چیلنج کیا۔ اپنے دوست مہدی علی خاں کے اس اعتراض پرکہ وہ اپنی تفسیر میں تفسیر بالرائے کے مرتکب ہوئے ہیں، انھوں نے سخت احتجاج کیا، ان کا کہنا تھا کہ میری تاویل اگر تفسیر بالرائے ہے تو اس بات کا کیا ثبوت کہ تم جو مطلب سمجھے بیٹھے ہو وہ مُنزّل من السماء ہے۔ سرسید اس نکتہ سے بخوبی آگاہ تھے ‘جیسا کہ عبدہ نے لکھا ہے کہ وحی ربانی تمام دنیائے انسانیت کے لیے ایک ایسا لازوال تحفہ ہے جس سے آنے والی ہر نسل اپنے حصے کی روشنی حاصل کرتی رہے گی۔ سرسید کی تفسیری کا وشوں نے قرآن مجید کو انسانی مطالعہ کی میز پر کچھ اس شان سے رکھا کہ آنے والے دنوں میں برصغیر کا کوئی بھی قابل ذکر مفسر اور شارحِ دینِ متین اس منہجِ تفسیر سے بے نیاز نہ رہ سکا۔ گو کہ اس بات کا اعتراف کھلے دل سے کم لوگوں نے ہی کیا ہے۔ مولانا آزاد نے اپنی کہانی میں فکر سرسید سے اثرپذیری کا بڑے والہانہ انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد جن کی قرآن فہمی کی ایک دنیا معترف ہے سرسید کے خوشہ چینوں میں ہیں اور ابو الاعلیٰ مودودی اپنے مکاتیب میں ڈپٹی نذیر احمد اور سرسید کی تفسیروں کے متلاشی دکھائی دیتے ہیں۔ رفیع اللہ شہاب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جن دنوں اصول تفسیر پر مولانا امین احسن کی کتاب “تفسیر قرآن” نئی نئی چھپ کرآئی تھی، مولانا امین احسن میانوالی آئے ہوئے تھے۔ اس کتاب کی بڑی تعریف کی جارہی تھی ۔انھوں نے مولانا امین احسن سے عرض کیا ’سرسید نے یہی اصول اپنے رسالہ اصول تفسیر میں بیان کیے ہیں۔ اس پر مولانا کارنگ فق ہوگیا اور فرمایا کہ کیا کسی کے پاس یہ رسالہ موجود ہے۔‘ کہتے ہیں کہ’ راقم نے اثبات میں جواب دیا تو مزید کچھ کہنے کی بجائے خاموش ہوگئے‘۔ بقول رفیع اللہ شہاب: “جبر وقدر پر مولانا مودودی کا رسالہ بھی فکر سرسید سے راست اثر انگیز ی کانتیجہ ہے۔” حیرت اس بات پر ہے کہ جس تفسیر نے بر صغیر میں تفسیر نگاری پر اس قدر گہرے اثرات مرتب کیے وہ تفسیر عام انسانوں کی دستر س سے دور رہی۔ اس کی عمومی نشر واشاعت کاجب بھی خیال آیا راسخ العقیدہ علماء اس کا راستہ روک کر بیٹھ گئے۔

وحی ربانی کی بازیافت کے بغیر، محض تعلیم و تعلم کی ادھوری تحریک وہ نتائج پیدا نہیں کرسکتی تھی جس کا خواب سرسید نے جاگتی آنکھوں سے ان ایام میں دیکھا تھا جب ان کے پاس تفسیر کی تکمیل کے لیے وقت تھوڑا تھا، قوت جواب دے رہی تھی اور وہ بمشکل سورۂ کہف کی آخری آیتوں تک پہنچے تھے کہ پیامِ اجل آپہنچا۔

سرسید بڑے حوصلہ کے آدمی تھے۔ انھیں اپنی صلابتِ فکری پراصرار تھا ۔ آخری برسوں میں ان پر صرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ قرآن مجید کو نئی نسل کے لیے کچھ اس طرح پیش کریں کہ وہ کتاب تلاوت یا کتاب برکت کے بجائے جیتے جاگتے عملی منشور کے طور پر پڑھا اور برتا جاسکے۔ لیکن افسوس کہ کالج کے قیام کی عملی دشواریوں، مخالفین کے غیض وغضب اور قدامت پسند علماء کے زبردست منفی پر وپیگنڈے اور ان کی فتویٰ بازیوں کے سبب سرسید نے اپنی تفسیر کے پروجکٹ کوجاری تو رکھا البتہ کالج میں دینیات کا شعبہ روایتی مولویوں کے حوالے کردیا۔ بقول علامہ اقبال:

’’غالباوہ (سرسید) پہلے جدید مسلمان ہیں جنھوں نے آنے والے ایام کی مثبت جھلک پہلے ہی دیکھ لی تھی….. ان کی اصل عظمت اس امر میں پنہا ں ہے کہ وہ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے جس نے اسلام کی تجدید فکری کی ضرورت محسوس کی اور اس کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے۔ ہمیں ان کے مذہبی افکار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مضطرب نفسوں میں وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے عہد جدید کے تقاضوں کا پاس کیا۔ (لیکن افسوس کہ ) ہندوستانی مسلمانوں کی دقیانوسی ذہنیت جس کا زمینی حقائق سے رابطہ منقطع ہوچکا تھا ، سرسید کی مذہبی فکر کی عظمت ومعنویت کا ادراک کرنے میں ناکام رہی‘‘۔(اسلام اینڈ احمدی ازم)

آنے والے دنوں میں فکر اسلامی کی تشکیل جدید کای یہ پروجکٹ اقبال کے ہاں قدرے بلند آہنگی سے جاری رہا۔ اپنے خطبات اور مکاتیب میں اقبال نے ایسے وقیع سوالوں کی ایک فہرست تیار کردی جن پر مجتہدانہ غورفکر کے ذریعہ نئے خلاقانہ مسلم ذہن کی تشکیل ہوسکتی تھی۔ اقبال شاعرِ اسلام تھے، انھیں محرم راز دورن خانہ ہونے پر اصرا ر تھا، وہ اپنے وقت کے سکہ بند عالم حسین احمد مدنی سے ٹکّر لے چکے تھے ۔ گویا جمہور مسلمانوں میں اقبال کی اسلامیت شکوک وشبہات سے بالاتر تھی، لیکن اس کے باوجود راسخ العقیدہ علماء کو گوارا نہ تھا کہ ان کے مجتہدانہ خطبات کی اشاعتِ عا م ہو جیسا کہ علی میاں ندوی کا خیال تھا۔ سرسید کے مذہبی افکار کو وقتی طور پر مؤ خر کیے دینے کے سبب ابتداء سے ہی علی گڑھ تحریک پر ناآسودگی کا سایہ گہرارہا۔ گو کہ اقبال کی طرح تخصیص کے ساتھ کم لوگ اس حقیقت کی نشاندہی کرسکے کہ ایک نبوی منہج پر اُٹھنے والی تحریک سے ایک نئی زمین اور نیا آسمان کیوں نہ بن سکا۔ مولانا مودودی نے سرسید کو ایک ایسے انجینئر سے تعبیر کیا ہے جن کی ایجاد کردہ موٹر آگے چلنے کے بجائے پیچھے کی طرف بھاگتی ہو۔ جبکہ اقبال کے نزدیک قصور سرسید کا نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی دقیانوسی ذہنیت کا تھا جو سرسید کی تجدیدی مساعی کی صحیح اہمیت کا اندازہ لگانے میں سخت ناکام رہے ۔

سرسید کی تعبیری کا وشوں کو مؤخر کیے دینے کانتیجہ یہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں ایک نئی اور ہمہ گیر تحریک برپا کرنے کا خیال ہمیں مستقل ستا تارہا۔ ۱۹۸۱ ؁ء میں پارلیامنٹ سے نئے ایکٹ کی منظوری کے بعد تہذیب الاخلاق کی اشاعت کے پیچھے دراصل یہی محرک کا رفرما تھا۔ یہ اور بات ہے کہ یہ انقلابی رسالہ ،جس کے لوح پر آج بھی محمڈن سوشل ریفارمر کندہ ہے، نے رفتہ رفتہ ایک ایسے ادبی رسالہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے جو قاری کو تلخ زمینی حقائق سے دور طلسم ہو شربانہ سہی، حیرت سرائے کی سیر ضرور کراتا رہتا ہے۔ سید حامد علی گڑھ تحریک کے دوسرے دور کی قیادت کے لیے لائق ترین شخص تھے جن کے عہد میں قدرت نے یونیورسٹی ایکٹ کی جزوی بحالی کا سامان بھی فراہم کردیا تھا، انھوں نے اپنے تئیں حتیٰ المقدر کوشش کی کہ علی گڑھ والوں کا یہ مست خرام قافلہ پھر سے منزل کی طرف چل نکلے۔ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ان کے سامنے جب بھی تفسیر کی اشاعتِ نو پرگفتگوہوئی انھوں نے خاموشی اختیار کرلی حالانکہ خود انھیں ذاتی طور پر اس بات کا شدید احساس تھا، جیسا کہ بعد کے دنوں میں انھوں نے اعترافاً لکھاہے کہ:

’’سرسید کی تفسیر کو طاق نسیاں پر رکھ کر ہم نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا، نہ اپنے ساتھ اور نہ آنے والی نسلوں کے ساتھ۔‘‘(فکر ونظر ، ش ا، ۱۹۹۰ ؁ء)

سید حامد کو اپنے عہد میں جن مسائل کا سامنا تھااس کے پیش نظر شاید ایک نیا فکری محاذ کھولنا ان کے لیے ممکن نہ تھا اور کچھ اپنی مصالحانہ طبیعت کے سبب بھی وہ علماء کی مخالفانہ فتویٰ بازیوں کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔

سر سید کا آخری خط

برصغیر ہندوپاک میں علی گڑھ پیمبرانہ مشن کا ہر اول دستہ ہے۔ اس کی تابنا کی نئے علم کلام کی تدوین اور وحی ربانی سے راست اکتساب فیض پر منحصر ہے۔ سرسید کی مذہبی فکر کو کا لعدم قرار دے کر ہم علی گڑھ تحریک کے مکمل ثمرات سے بہرہ آور نہیں ہوسکتے۔ آنے والے دنوں میں جب یونیورسٹی برادری سرسید کا دوسو سالہ جشن منارہی ہوگی ہم اتنا توکرہی سکتے ہیں کہ اس درسگاہ کے بانی اور اپنے محسن کی تمام تحریروں پر مشتمل خوبصورت مجلدات کی شکل میں ایک مخزن شائع کردیں۔ ان کے فکری سرمائے، بالخصوص تفسیر کی مجددانہ مساعی کو، مطالعے اور محاکمے کا موضوع بنائیں۔ جب تک سرسید جیسے طالب علمانہ ذہن اور مومنانہ قلب کے ساتھ قرآن مجید کے صفحات الٹنے کی ریت دوبارہ قائم نہیں ہوتی، ایک بے سمت خوابیدگی علی گڑھ اور اہل علی گڑھ کا مقدر رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(محترم راشد شاز معروف دانشور، مصنف، ڈائریکٹر مرکز برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ سر سید کی تفسیر کی اشاعت کیلیے انکی کوششوں کے سلسلہ میں یہ تحریر لکھی گئی۔ “مکالمہ” اس خصوصی تحریر کیلیے شاز اور محترمہ کوثر فاطمہ کا ممنون ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply