کوک سٹوڈیو اور تنقید۔۔۔ رمضان شاہ

کوک سٹوڈیو ایک ایسا پلٹ فارم ہے جس نے نہ صرف بین الا قوامی سطح پر پاکستان کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے بلکہ روایتی اور ثقافتی موسیقی میں بھی ایک نئی روح پھونکی ہے۔ جب پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا تو اولین چیزیں جو متاثر ہوئیں ان میں سے ایک آرٹ اور کلچرل پروگرامز تھے . گنے چنے پاپ بینڈز رہ گئے تھے اور ثقافتی موسیقی اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ ایسے میں روحیل حیات کا دیسی ثقافتی موسیقی کے ساتھ چند نیے رنگوں کو ساتھ ملا کر اسکو جدید رنگ دینا ، تاکہ نوجوان بھی ثقافتی موسیقی کے دل فریب اور قیمتی رنگوں سے واقف ہو سکے ایک ایسا کام جسکو فراموش نہ کیا جا سکے گا۔

کوک سٹوڈیو کا پہلا سیزن تجرباتی بنیادوں پر تھا اسلئے اسکی تشہیر اتنی نہ ہو سکی اور نہ ہی شاید اتنی کروائی گئی لیکن پھر بھی پہلے سیزن میں ہی روحیل حیات نے چند ایسے گانے بناے جو کہ جدید پاکستانی  موسیقی میں امر ہو گئے، جیسے علی عظمت اور راحت فتح کا گرج برس ، سٹرنگز کا دور اور راحت فتح کا دلدارہ۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے لوگ چونکہ نئی چیز کی طرف مشکل سے ہی راغب ہوتے ہیں اور اکثر انکا پہلا رد عمل منفی ہی ہوتا ہے، اسلئے روحیل کو میوزک کریٹکس نے اپنے مضامین میں ثقافتی موسیقی کی روح تباہ کرنے والا بتایا۔ لیکن روحیل اپنا کام کرتے رہے اور آگے بڑھتے گئے .

دوسرا سیزن کوک سٹوڈیو کو بین الا اقوامی شہرت دلانے میں کامیاب ہوگیا کیونکہ فیوژن میوزک کو روحیل حیات نے ایک نئی اور خوبصورت جہت دے دی۔ اس سیزن میں بہت سے لازوال گیت بنے جن میں شفقت امانت علی خان کا آنکھوں کے ساگر ، عاطف کا جل پری، جاوید بشیر کا آج لٹھا نیوں ، زیب اور ہانیہ کا چل دئیے ، نوری کا ساری رات ، علی ظفر کا یار ڈاڈی اور ایسے بہت سے لازوال گیت۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سیزن کے لئے بھی روحیل حیات کو میوزک کریٹکس نے برے ریویو سے ہی نوازا اور کہا گیا کہ آج کل کے پاپ سنگرز نے ثقافتی موسیقی کی روح کو سمجھے جانے بغیر ان گانوں کو گایا جسکی وجہ سے ان گانوں کی اصلیت متاثر ہوئی ، ساتھ میں رہی سہی کسر روحیل کے فیوژن نے پوری کر دی .مزے کی با ت یہ ہے کہ روحیل ان سب باتوں سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف رہے اور آنے والے سیزنز میں بھی ثقافتی موسیقی کو ویسٹرن موسیقی سے فیوز کرتے رہے۔

تیسرے سیزن کی highlight عارف لوہار اور میشا شافی کا گانا الف الله تھا جس نے کامیابی کے سارے ریکارڈز توڑ دیے اور یہ گانا اس وقت کوک سٹوڈیو کا سب سے زیادہ سننے والا اور دیکھنے والا گانا بنا . اس گانے کی خاص بات عارف لوہار کا ثقافتی انداز اور میشا کی غیر روایتی گایکی تھی .

چوتھے اور پانچویں سیزنز میں روحیل نے ثقافتی موسیقی کے چند بڑے ناموں کو دعوت دی جسکی وجہ سے موسیقی کا سٹینڈرڈ اور بھی اوپر ہوگیا . استاد فرید ایاز اور ابو محمّد، استاد نصیردین سامی اور عطا الله عیسیٰ خیلوی نے اپنے مخصوس انداز میں ویسٹرن میوزک کے ساتھ گا کر اپنے پیغام کو ایک نیی وسعت دی . میں نہیں سمجھتا کہ قوالی کو اتنے خوبصورت انداز میں اب تک کسی نے ویسٹرن میوزک کے ساتھ فیوز کیا ہوگا جیسے روحیل حیات اور استاد فرید ایاز اور ابو محمّد نے کیا. استاد صاحبان کی رسائی ایک خاص طبقے تک ہی تھی اور روحیل حیات نے کوک سٹوڈیو کے ذریعے انکی رسائی کو مخصوص طبقے سے کھینچ کر عامی بنا دیا۔ یہی سلسلہ پانچویں سیزن میں بھی جاری رہا جہاں استاد صاحبان نے دو اور شاہکار قوالیاں گائیں،( رنگ اور خبر م رسیدم ). ان دونوں سیزنز کی ایک اور خاص بات سجاد علی کا واپس آنا تھا جنہوں نے اپنے پرانے گیتوں کو نیے انداز میں پیش کیا اور ساتھ ساتھ بین الاقوامی شہرت یافتہ پنجابی رپپر بوہیمیا بھی کوک سٹوڈیو کا حصہ بنے . اس سب کے دوران بھی روحیل کو اچھی خاصی تنقید کا نشانہ بننا پڑا لیکن ہمیشہ کی طرح روحیل رکے نہیں کیونکہ انھیں پتا تھا کہ سامعین اور شایقین ثقافتی موسیقی کی طرف واپس آ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اسکی روح کو جاننے پہچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں .

روحیل حیات کا آخری سیزن پچھلے سارے سیزنز سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا کیونکہ اس سیزن میں انہوں نے سنگرز اور موسیقاروں کو ایک ساتھ نہیں بلکہ مختلف جگہوں پہ مختلف اوقات میں ریکارڈ کرایا جس سے کوک سٹوڈیو کی لائیو حساسیت متاثر ہوئی۔ لیکن اسکے باوجود بھی روحیل حیات نے بہت خوبصورت گانے پروڈیوس کیے جیسے علی عظمت اور رضوان کا سوال ، عمیر جیسوال کا خیال اور عاطف اسلم کا خیال .

روحیل حیات کوک سٹوڈیو کے چھ سیزنز کرنے کے بعد اسکو خیر باد کہہ گئے اور اسکی ذمہ داری سٹرنگز کو دے دی گئی.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام سٹرنگز کے لئے نہ ممکن حد تک مشکل اور کٹھن تھا کیونکہ جس میدان اور کھیل کا آغاز روحیل نے کیا تھا، جسکے سارے اصولوں سے روحیل ہی واقف تھے، اسے ایک دم سے اپنے انداز میں پیش کرنا اصّل میں ایک مشکل کام تھا۔ لیکن سٹرنگز پہلے ہی سیزن میں مضبوط نظر آئے۔ انکی موسیقی روحیل سے مختلف تھی لیکن انہوں نے کوک سٹوڈیو کی روح کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ اپنے پہلے ہی سیزن میں زوہیب حسن کو واپس لا کر “ذرا چہرہ تو دکھاؤ” ایک نیے رنگ میں پیش کرنا ہو یا سجاد علی کا “تم ناراض ہو” یا اسرار کا “سب آکھو علی علی” ہو یا عابدہ پروین اور راحت فتح کا “چھاپ تلک”، سٹرنگز نے وہ سب کچھ کیا جو کہ کوک سٹوڈیو کی خاصیت تھی، جو اسکی روح تھی۔ لیکن ناقدین اسی روحیل حیات کو واپس لانے کی باتیں کر رہے تھے جسکو وہ اس سے پہلے کڑی تنقید کا نشانہ بنا چکے تھے اور وہ سٹرنگز کو کوک سٹوڈیو کی روایتی موسیقی کو تباہ کرنے کا ذمے دار ٹھرا رہے تھے .

“سٹرنگز” اس سب کے باوجود آٹھویں سیزن میں اور مضبوطی کے ساتھ سامنے آیا اور انہوں نے عاطف اور مائی ڈھائی کا “کدی اوو”،  نبیل کا “بوجہ” ، ملازم اور فضا کا “وے بنیا” اور علی سیٹھی، نبیل کا “عمرا لنگھیاں” جیسے گانے ترتیب دئیے جنکی اصل ہی ثقافتی تھی۔ اس سیزن کے ٢ سب سے مشہور گیت “من امندی یم” اور “تاجدار حرم” رہے لیکن انہی گانوں کو ناقدین نے بری طرح سے مسترد کیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ سٹرنگز نے ان انمول گیتوں کی سورس کو سمجھے بغیر چند آلات کے ساتھ ان کو فیوز کر کے انہیں تباہ کر دیا ہے۔

نویں سیزن کے لئے سٹرنگز ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترا۔ انہوں نے سیزن کو مختلف موسیقاروں میں بانٹ دیا اور خود ساری موسیقی کو سپروائز کرنے لگے تاکہ زیادہ لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے میوزک ان پٹ اچھا ملے اور اچھی کوالٹی سامنے آئے۔ کوک سٹوڈیو کا نیا سیزن سامنے آ گیا ہے اور ناقدین نے پھر سے فتووں کا بازار گرم کر لیا ہے۔ اب تک جن گانوں کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے وہ “آفرین آفرین” از راحت فتح ، مومنہ کا “اور بلیے” ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح یہی گانے سب سے زیادہ ہٹ بھی ہیں اس سیزن کے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پوری کتھا سے یہ بات تو وا ضح ہوتی ہیں کہ کوک سٹوڈیو اور بے وجہ تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن تنقید کا رخ اور معیار صحیح سمت میں نہیں کیونکہ جن گانوں پر حد سے زیادہ تنقید ہوئی، وہی گانے عوام میں اپنی جگہ بناتے رہے اور  کلاسکس بنتے گئے۔ تنقید اگر معیاری ہو، با مقصد ہو، شعوری ہو، دلائل سے بھرپور ہو  اور با رخ ہو تو سود مند ہوتی ہے۔ یہ اصول موسیقی، مذہبی و غیر مذہبی نظریات اور سیاست پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply