عورت، گالی، دولت، جھوٹ اور سیاست۔۔۔عبید اللہ چوہدری

ایک تاجر کو صرف اور صرف منافع سے غرض ہوتی ہے۔ عزت کیا ہے اس کی پرواہ صرف اور صرف خاندانی، پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کو ہوتی ہے۔ اب آپ رانا ثناء اللہ کا کیس ہی لے لیں۔۔۔ جو کچھ اس نے مریم نواز کے بارے میں فرمایا تھا اس کا حوالہ دیتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے۔ اس وقت مریم اور کیپٹن صفدر نے انکے خلاف FIR بھی درج کرائی ۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اس بے ہودگی پر انہیں پارٹی سے نکال دیا۔ اس وقت PPP نے فیصل آباد سے اکثریت اور شیخوپورہ سے کلین سویپ کیا تھا۔ ن لیگ کو ان 2 اضلاع میں سیاسی حمایت درکار تھی۔ اب دیکھیے ۔۔۔ ایک تاجر کا فیصلہ ۔ عزت تو آنی جانی شئے ہے ۔۔۔ منافع ہاتھ سے نہ  جائے۔۔۔۔ نواز شریف نے خوشی خوشی رانا ثنا اللہ کو اپنی پارٹی میں لے لیا۔۔۔ اب بھی جب نواز شریف عزت اور نظریے کی بات کرتے ہیں تو زبردست  ہنسی نکل جاتی ہے۔ ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ چند انسان وقت کے ساتھ ساتھ بدل بھی جاتے ہیں۔ لیکن جو بندہ اربوں روپے کا ذریعہ نہ  بتائے اور کہے کسی کو اس سے کیا مسئلہ ہے کہ میری دولت وسائل سے زیادہ ہے؟

میں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ لاہور میں گزارا ہے۔ نواز شریف کو “نیلی بار” بس سٹاپ “کرشن نگر” میں پانی کی سبیل سے لے کر وزارت عظمی کا سفر کرتے۔۔۔ قریب سے دیکھا ہے۔ سن 2000 کے اوائل میں ایک کاروبار کا تجربہ ہوا تو تاجر اتحاد کی ممبر شپ بھی لے لی ۔ ایک بار تاجر الیکشن میں ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ اس وقت لاہور کے سب تاجر اس بات پر متفق تھے کہ ” میاں دی دولت دا مقابلہ کوئی نہیں کر سکدا” اب یہ تھا وہ مقام جس پر فائز ہو کر وہ آسانی سے 1997، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کر گئے۔

اب میاں صاحب کو اپنی  اصلی طاقت یعنی اپنی بے پناہ دولت کو بچانا ہے تو ان کو اس جنگ میں ساتھی درکار ہیں۔ مریم بی بی اور نواز شریف کبھی بھی رانا ثناء اللہ کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیں گے۔ جس کو 20 سال قبل بھی اپنے گھر کی عزت کے بدلے سیاسی منافع عزیز ہو وہ اب عام عورتوں کی عزت کا کیا خیال کریں گے۔ ماضی میں نصرت بھٹو اور بےنظیر کے خلاف بے ہودگی سے جو سیاسی فائدہ حاصل کیا تھا اب بھی وہ اس کے متلاشی ہیں۔ اور ان کی سیاسی وارث ہیں مریم نواز ۔۔۔ وہ کبھی بھی رانا ثناء اللہ اور عابد شیر کی مذمت نہیں کریں گی۔ کیوں کہ یہ پارٹی پالیسی ہے اور اس کو اعلی قیادت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مخالف کی اتنی کریکٹر اسیسینیشن کر دو کہ عام آدمی بر ملا اس کی حمایت میں سامنے نہ  آئے۔ اتنا جھوٹ بولو اتنا گندہ کر دو کہ لوگوں کے دلوں میں پہلے شک اور پھر نفرت بھر جائے۔ دودھ کے نہائے پنجابی مسلم لیگیوں نے یہ حربہ آصف زرداری اور PPP کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ اب پنجاب میں آصف زرداری ، بلاول اور PPP کا نام لیں تو لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ صحافی حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔

PPP کے حمایتی کو پہلے لا دین اور اب کرپٹ کی سند جاری کر دی گئی ہے۔ جب ان سے پوچھا جائے کوئی ثبوت ہے۔۔۔ تو ہنس دیتے ہیں بس۔ شریف برادران نے اپنی  دولت کے انبار چھپانے کے لیے آصف زرداری کی کردار کشی پر کروڑوں نہیں اربوں خرچ کیے  ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ زرداری صاحب صالح ہیں۔ اب جب نواز شریف کہتا ہے نا کہ زرداری صاحب آپ کوئی شے نہیں۔ میرا اور آپ کا کیا مقابلہ۔۔۔۔ بات سمجھنے کی ہے اصل میں یہ مقابلہ دولت کا ہے۔

ایک عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ رانا ثناء اللہ ، عابد شیر علی اور طلال چودھری ۔۔۔ تینوں کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ فیصل آباد کی جگت بازی اور مزاح پورے پنجاب میں مشہور ہے۔ مگر ضیا الحق کے اسلام کی آمد سے جب پاکستانی سینما زوال پذیر ہوا تو سٹیج ڈراموں کا عروج شروع ہوا۔ اس دور میں سٹیج ڈرامے گندی جگتوں۔۔۔ ذومعنی جملوں اور بے ہودہ ڈانس سے  لاہور ، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں نوجوانوں کی اخلاقی قدریں تباہ ہو گئیں۔ اب وہی نوجوان جب سیاسی جماعتوں میں آئے تو وہاں بھی یہی ماحول آ گیا۔ یہی نوجوان جب سنی مذہبی جماعتوں میں گئے تو وہاں بھی گالی کا کلچر رواج پا گیا۔ اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ تقریر میں بد کلامی کے ماہر۔۔۔۔ شیخ رشید، عابد شیر علی، رانا ثنا اللہ، مولانا خادم حسین رضوی ۔۔۔ کی ڈیمانڈ سب سے زیادہ ہے۔

دوسرا نوجوانوں میں جنسی فرسٹریشن اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بچہ، بچی، اب تو حد یہ ہے کہ استانی کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ ایسے میں وہ اکثر گالی گلوچ اور ذومعنی سیکس ٹاک سے اپنی تسلی کرتے ہیں۔ اور جو خواتین خاص کر شوبز، سیاست یا پھر بیوٹیش کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ خاص نشانہ ہیں۔ سیاست میں خواتین ونگ کو اپنی مردانہ ٹھرک کی تشفیع سے زیادہ اہمیت نہ  دی گئی۔ عزت کرنا تو دور کی بات ٹھہری۔ صحافت میں بھی برا حال ہے۔ یکم مئی کو میں اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کے گیس اسٹیشن سے پیٹرول ڈلوا رہا تھا۔ پیٹرول کی قیمت بڑھنے کے بعد ایک ٹی وی چینل کی لیڈی رپورٹر اپنے شوٹ کیلئے تیاری پکڑ رہی تھی۔ میں نے اچانک گیس فلنگ اسٹیشن، سروس اسٹیشن اور پنکچر لگانے والوں کے اشارے اور جملے سنے۔ جو عابد شیر علی کے مقابلے کے تھے۔ اتنی فرسٹریشن توبہ ہے۔ اسی لیے  تو آج کل 72 کا لالچ عروج پر ہے اور کئی نوجوان ہر وقت پھٹنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اگر حالات بدلنے ہیں تو چند درد مند اور انسان دوست افراد کو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بڑی جدوجہد کرنا ہو گی۔ بات اصولی ہے اب سیاسی قیادت پر پریشر ڈال کر ہی کوئی مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply