رائے اور اختلاف کا فرق/ڈاکٹر نوید خالد تارڑؔ

کچھ معاملات اجتماعی ہوتے ہیں، جو ہم سب کی زندگی سے جڑے ہوتے ہیں، جیسے سیاست ، مذہب   یا ایسا کوئی اور معاملہ۔ یہ ہر عام و خاص انسان کی زندگی پہ اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے ہر عام و خاص فرد ان پہ بات کرنے کا حق رکھتا ہے۔

آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جو سیاست پہ ایم فل کی ڈگری لے کر بیٹھے ہوئے ہیں؟ کوئی نہیں؟
لیکن آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جو سیاست پہ اپنی رائے دیتے ہیں؟ تقریباً سب ہی۔

تو کیا ان کا رائے دینا غلط ہے؟ بالکل بھی نہیں۔۔۔

رائے غلط ہو سکتی ہے لیکن رائے دینے کا حق ہر کوئی رکھتا ہے۔ اس سے یہ حق چھیننا اس کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ یہ معاملہ اس کی زندگی پہ بہت گہرا اثر رکھتا ہے۔

کچھ معاملات ہوتے ہیں کسی مخصوص فیلڈ کے۔ جیسے انجینئرنگ ہو جائے، میڈیکل ہو جائے یا کوئی اور فیلڈ۔ اس میں عام انسان کا اس فیلڈ کے علم سے عموماً کوئی واسطہ نہیں پڑتا ، بس اس کی اینڈ پراڈکٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ عام بندہ اس پہ بھی رائے دینے کا حق رکھتا ہے، وہ سوال کر سکتا ہے کہ جو موبائل بنایا اس کی ٹچ سکرین کا ریفریش ریٹ زیادہ کیوں نہیں رکھا۔ ڈاکٹر نے آپریشن کیا تو آپریشن کے بعد مریض کو انفیکشن کیوں ہو گیا۔

لیکن اگر وہ کہے کہ آپریشن کرتے ہوئے یہ والا بلیڈ کیوں استعمال کیا یا اتنے انچ گہرا زخم کیوں نہیں لگایا تو اس کی رائے کی اہمیت نہیں ہو گی کیونکہ وہ اس علم سے ناآشنا ہے اور وہ ان باتوں کا طریقہ نہیں سمجھتا۔ پھر بھی اگر وہ ایسی بات کرے اور وہ اس کا اعتراض جائز ہو تو اس کی بات سننی چاہیے اور دلیل سے اس کا جواب دینا چاہیے۔
البتہ اگر کوئی کہے کہ نمک کھانے سے بلڈ پریشر زیادہ نہیں ہوتا، چینی کھانے سے شوگر کا مسئلہ نہیں بنتا تو اس کی رائے غلط ہو گی، اس کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی کیونکہ یہ طے شدہ اور ثابت شدہ حقیقتیں ہیں اور ان سے انکار ممکن نہیں۔ ایسی بات کہنے والے کی بات کو بہت سکون سے دلیل کے ذریعے رد کیا جا سکتا ہے۔

آپ دوسرے کی رائے کو دلیل سے رَد کر سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے فرد کو کسی معاملے میں رائے رکھنے یا اپنی رائے دینے کے حق سے صرف اس لئے محروم نہیں کر سکتے کہ اس کی سوچ آپ سے الگ ہے، نظریات میں اختلاف ہے یا اس نے متعلقہ فیلڈ میں ڈگری نہیں لی ہوئی۔ خصوصاً ان معاملات میں جو اس کی زندگی پہ اثر انداز ہوتے ہیں، رائے دینا اس کا بنیادی حق ہے۔

سوال کرنے والے کو دلیل سے مطمئن کیا کریں، اس کی غلطی پہ اس کی تصیح کیا کریں۔ اسے کم علم، جاہل قرار دے کر اس کی نیتوں کا حال نہ جانچنے لگ جایا کریں۔

خصوصاً سوشل میڈیا پہ کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ رائے دینے والوں کو چاہیے کہ وہ رائے دیں جو منطقی، مذہبی، اخلاقیاتی یا کسی اور اعتبار سے دینا ضروری ہو۔ رائے دیتے ہوئے دوسروں کے عقیدے، ان کے جذبات و احساسات کا احترام کریں۔ بات کہنے کا، رائے دینے کا سلیقہ سیکھیں۔

رائے پڑھنے والوں کو چاہیے کہ اختلافی بات قبول کریں، دوسروں کی الگ سوچ کا احترام کریں۔ کسی نے کوئی غلط بات کی ہو تو اس کی غلطی کی نشاندہی کیا کریں، اس پہ یہ فتویٰ نہ لگانے لگ جایا کریں کہ میں وہ متعلقہ فیلڈ کا ماہر نہیں تو وہ اس معاملے میں اپنی رائے نہیں دے سکتا یا اس کی بات آپ کو پسند نہیں تو وہ بات کہنے کا حق نہیں رکھتا۔

آپ سوشل میڈیا پہ عموماً دوسروں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے ہوتے۔ آپ نے نہ تو ان کے ساتھ زندگی گزاری ہے نہ انھیں زندگی گزارتے دیکھا ہے۔ ان کی زندگی کے کتنے ہی دن یا لمحے آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ آپ نہیں جانتے وہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ کون سی کتابیں پڑھتے ہیں۔ فارغ وقت میں کیا دیکھتے، کیا سنتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جن کے متعلق آپ کچھ نہیں جانتے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ کچھ لکھنے سے پہلے آپ سے اجازت لیں اوربس آپ کی مرضی کے مطابق لکھیں اور اگر ایسا چاہتے ہیں تو آپ خود ہی اپنی اداؤں پہ غور کیجیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply