• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • نہ حب شیرانی ہے نہ بغض فضل الرحمن ہے ۔۔۔۔یہ شعور کی جنگ ہے۔۔۔۔ مولانا رعایت اللہ صدیقی

نہ حب شیرانی ہے نہ بغض فضل الرحمن ہے ۔۔۔۔یہ شعور کی جنگ ہے۔۔۔۔ مولانا رعایت اللہ صدیقی

(مولانا رعایت اللہ صدیقی مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر جے یو آئی کے کوئی دوست مکالمہ کرنا چاہیں، تو “مکالمہ” حاضر ہے)

راقم کی تحریرکے جواب میں ہمارے ایک جماعتی ساتھی محمدیوسف خان کے فرمودات نظر نواز ہوئے۔ شاید اس حوالے سے میری یہ رائے انصاف پرمبنی ہوکہ موصوف نے میری معروضات میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے میری تحریر سے جو”پیمانہ”نکال کر اس پر اپنی تحریرکی عمارت کھڑی کی ہے اس نام نہادپیمانے کابھی میری تحریرمیں کوئی وجودنہیں ہے

وہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمر اور تجربے کا پیمانہ مقرر کردیا جو عمرمیں زیادہ و امارت کا زیادہ حقدار –

حضور والا یہ پیمانہ آپ کا خود ساختہ ہے ہم نے یہ کب کہا ہے کہ مولانا شیرانی عمر میں بڑے ہیں اس لئے امارت کے زیادہ حقدار ہیں ۔ ہمارے تو حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ جماعت میں امارت یا دیگر عہدوں کا پیمانہ عمر یا سن رسیدگی ہونا چاہیئے ، فیض کے الفاظ میں

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا.

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

یہ تو کجا ہم تو کسی بھی دوسری ایسی خلاف عقل اور خلاف نقل (یعنی حسب نسب اورسرمائے کی بنیادپر)عہدوں کی تقسیم کے سخت مخالف ہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہوں گا کہ ہماری تو جنگ ہی ایک جمہوری جماعت میں اس طرح کی غیر جمہوری سوچ رویئے اور اقدامات کے خلاف ہے۔

لیکن اس غیرحقیقت پسندانہ اورغیرمنطقی روش کواپنانے میں یوسف خان صاحب کابھی کوئی ذاتی قصور نہیں ہے بلکہ جب بھی کسی جماعت کی قیادت کی چوٹی پر وہ طبقہ فائز ہو جن کے نزدیک صلاحیت اوراہلیت کا واحد معیار یہ ہو کہ فلان عہدہ اسلئے فلاں کاحق بنتا ہے کیونکہ وہ فلاں کابیٹااور فلاں کابھائی اوررشتہ دار ہے، تو پھر اس کے نتیجے میں تین طرح کے نتائج لازمی پیداہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ پھراس جماعت سے وابستہ افرادکی ذہنی نشوونمارک جاتی ہے، اس حالت کوتبدیل کرنے میں ناکامی سے ان کی بے بسی مایوسی میں تبدیل ہوجاتی ہے اوریوں ان کے اندر”خوئے غلامی”پختہ سے پختہ ترہوجاتی ہے۔ وہ پھراس حالت کی دفاع کیلئے دلیل کی منطقیت کی تقاضے بھی فراموش کرجاتے ہیں دوسرا یہ کہ اونچی سطح پرصاحبزادگی کے کلچرکودیکھتے ہوئے نچلی سطح پربھی یہ معیار مقبولیت اختیار کرلیتا ہے اور خرابی اوپر سے نیچے تک سرایت کرجاتی ہے ۔ جس طرح مچھلی سر کی طرف سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے یہی حالت جماعتوں کی بھی ہوتی ہے ۔مگرہمیں یادرکھناچاہیئے کہ ان دورجحانات کے ساتھ ساتھ ایک تیسری ذہنیت بھی جبراوراقرباءنوازی کی اس ماحول میں پنپتی ہے اوروہ ہے اس ناجائزاوراستحصالی ماحول کوتبدیل کرنے کیلئے جماعت کےفہیم کارکنوں کی جدوجہدکی ذہنیت.

ان کی آواز شروع میں کمزور ہوتی ہے نحیف ہوتی ہے اور دھتکاری ہوئی شکل میں ہوتی ہے مگر جس طرح پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے اسی طرح یہ ذہنیت بھی اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کرتی ہے ۔

جب کسی جماعت کوروایتی خانقاہوں کی طرح صاحبزادگی اوررشتہ داری کی طریقےسے چلانے کی کوشش کی جائے گی توایسی جماعت کوزوال اورکمزوری سے صرف یہی باشعوراورصاحب بصیرت کارکن ہی بچاسکتے ہیں کیونکہ عام کارکن جوکہ ظاہرہے تعدادمیں زیادہ ہوتے ہیں وہ بھی ان باشعور کارکنوں کی آواز پر کان دھرنا شروع ہوجاتے ہیں ، پھر وہ بھی آہستہ آہستہ یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ کہیں ان کا وقت اورصلاحیت کسی نظرئیے،مشن اورجماعت کی بجائے چندمخصوص خاندانوں کی عزت واقتدارکیلئے تونہیں صرف ہورہیں؟

کیاجماعت کی خدمت کامطلب یہ تونہیں کہ میں کچھ خاص خاندانوں کے مفادات کا پاسبان بن گیا ہوں ؟

اگرجماعت میں ترقی کاراستہ خدمت اورکارکردگی ہے توپھرمیرے اوپرترقی کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کیوں ہیں؟

ایسا کیوں ہے کہ میری قسمت میں کارکن کی حیثیت سے بھرتی ہونااورکارکن کی ہی حیثیت سے ریٹائرڈہونالکھاگیاہے جبکہ کچھ خاص خاندانوں کے نورچشم پیدایشی لیڈر اورہرمنفعت بخش منصب اورعہدے کے اہل ہوتے ہیں؟

اگراقتدارومنصب خداکی آزمائش اور امتحان ہے جس سے مجھے دوررہنے کی تلقین کی جاتی ہے توخودقابض خاندان کے چشم وچراغ اس آزمایش اور امتحان سے دوچارہونے کیلئے اتنے بے قرارکیوں رہتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply