• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • نظریہ ارتقأ ، نیچرل سیلکشن اور انسانیت کا مستقبل۔۔۔۔۔ ادریس آزاد

نظریہ ارتقأ ، نیچرل سیلکشن اور انسانیت کا مستقبل۔۔۔۔۔ ادریس آزاد

میں اکثر کہا کرتاہوں کہ ارتقأ کا اگلہ مرحلہ انسان کا اخلاقی طور پر بہتر ہوجاناہوگا۔ نیچرل سیلیکشن کا عظیم قانون دیکھا جائے تو ثابت ہوتاہے کہ انسان جس چھلنی سے چھانے جارہے ہیں، اب صرف وہی ڈی این اے نئے نئے جین پول بناسکنے کے اہل ہونگے جو کم وائیلنٹ خصلتوں کے حامل ہونگے۔ میری دانست میں ’’نیچرل سیلکشن‘‘ سائنس کی تاریخ میں سب سے دلچسپ قانون ہے۔ ایسا کوئی بھی شخص جو نظریۂ ارتقأ کو اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں نیچرل سیلیکشن کے قانون کو کسی اچھے ٹیچر سے سمجھ لے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ نظریۂ ارتقا کی صداقت سے پھر کبھی انکار کرسکے۔

اس پر مستزاد نیچرل سیلیکشن کو سمجھنا نہایت آسان ہے۔ یہ ایک چھلنی کی طرح سے کام کرتاہے۔ چھلنی یا چھاننی جب چیزوں کو چھانتی ہے تو دو طرح کی اجزأ سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ جو چھلنی سے پار ہوجاتے ہیں اور دوسرے وہ جو چھلنی سے پار نہیں جاسکتے اس لیے چھلنی پر ہی رہتے ہیں۔ ارتقأ میں بھی بالکل اِسی طرح ہر نوع کے دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ گروہ جو سروائیو کرجاتاہے اور دوسرا وہ جو سروائیو نہیں کرپاتا۔ جو گروہ سروائیو کرجاتاہے وہ ’’نیا جین پول‘‘ یعنی مورثوں کا کُنڈ کہلاتا ہے اور اس میں ضرور کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔

دراصل ہوتا یوں ہے کہ قدرت نے کسی نوع کے مختلف افراد میں جو اختلاف اور تنوع پیدا کیا ہے، وہی بنیادی طور پرنیچرل سیلکشن میں کامیابی یا ناکامی کا باعث بنتارہتاہے۔ ایک باپ کے چار بیٹے ہوں تو ضروری نہیں کہ سارے ہی ایک جیسے قد قامت اور شکل و صورت کے ہوںگے۔ کوئی قدرے لمبا ہوگا، کوئی قدرے چھوٹا، کوئی قدرے کالا ہوگا، کوئی قدرے گورا۔ یہ تھورا تھوڑا فرق ہی ارتقأ میں سب سے اہم ہے۔ آپ نیچرل سیلیکشن کے تجربات خود بھی کرسکتے ہیں اور ارتقأ کا یہ عجیب و غریب مظہر اپنی آنکھوں سے اپنے گھر میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اِسے ’’نیچرل سیلیکشن‘‘ سے زیادہ ہیومین سیلیکشن کہا جانا چاہیے اور کہا بھی جاتاہے، میرا مطلب ہے بیالوجی کی زبان میں اسے سیلیکٹو بِریڈنگ (Selective Breeding) کہا جاتاہے۔ سیلیکٹو بریڈنگ یوں ہوتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے خاص قسم کی خصلتوں والے پوردے ، پرندے یا جانورایک جگہ رکھ کر ایک خاص قسم کا جین پول تعمیر کرسکتے ہیں، جس کے تمام ممبران میں بالآخر وہ خصوصیات پائی جائینگی جو آپ چاہتے ہیں۔

نیچرل سیلیکشن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی مثال فرض کرلیں۔ فرض کریں آپ نے اپنے فارم پر بلیک اینڈ وائیٹ خرگوشوں کی ایک نسل آباد کررکھی ہے۔ اب آپ دیکھیں گے کہ ان کے جسم پر سفید اور کالے دھبے مختلف تناسب سے ہونگے۔ کسی پر سفید رنگ کے دھبوں کا غلبہ ہوگا تو کسی پر سیاہ کے دھبوں کا، کسی پر دونوں رنگ برابر ہونگے وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ ’’مجھے ایک ایسی نسل تیاری کرنی ہے جس کا رنگ خالصتاً سفید ہو‘‘ تو آپ کیا کرینگے؟ سادہ سی بات ہے ، آپ اُن خرگوشوں کو الگ کرلینگے جن کے جسم پر سفید رنگ زیادہ ہوگا۔ آپ ان خرگوشوں کو الگ رکھیں گے اور اُن سے بچے پیدا کروائینگے۔ اگلی نسل میں آپ دوبارہ وہی عمل دہرائینگے اور اس سے اگلی نسل میں دوبارہ پھر وہی عمل، علیٰ ھذا القیاس۔ غرض ہر بار جب آپ نئی نسل حاصل کرینگے توایسے خرگوش الگ کرتے چلے جائینگے جن پر سفید رنگت پہلے سے غالب ہو۔ ایک وقت آئے گا کہ بعض خرگوش کلیۃً سفید پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے۔ آپ ان کو آپس ملائینگے اور ان سے اگلی نسلوں میں فقط اکّا دکّا ایسے خرگوش پیدا ہوا کرینگے جن پر کالا دھبہ ہو، ورنہ عموماً بالکل سفید خرگوش ہی پیدا ہوا کرینگے۔ کافی طویل عرصہ یہی عمل دہراتے رہیں اور اپنی مرضی سے سیاہ دھبے والے خرگوش جھنڈ سے باہر نکالتے رہیں تو ایک وقت آئے گا جب پورے جھنڈ یعنی پورے جین پول میں کوئی کالا جِین باقی نہیں رہیگا۔

یہ عمل نیچر میں لاکھوں سال ہوتا رہاہے۔ کچھووں کی کچھ نسلیں سبزی خور ہیں اور کچھ گوشت خور۔ اسی طرح بیبون بندر گوشت خور ہے اور پرانی دنیا کا بندر سبزی خور ہے۔ بہت پیچھے جاکر دیکھا جائے تو اتنے بڑے پیمانے پر جدا ہوجانے والی نسلیں بھی کبھی ایک ہی نسل ہوا کرتی تھیں۔ اور تو اور وہیل مچھلی اور بھینس کا جدِ امجد ایک ہے۔ فطرت میں یہ عمل اس وقت پیش آتاہے جب بیرونی ماحول میں کوئی چھوٹی موٹی تبدیلی آتی ہے۔ اور نئی تبدیلی کے لیے جو نسلیں زیادہ مناسب ہوتی ہیں ان کے جین پول خودبخود الگ ہوجاتے ہیں۔ فرض کریں، کسی برفانی علاقے میں بکریوں کی ایک نسل تھی جس کے جسم پر لمبے لمبے بال تھے۔ ہوا یوں کہ وہاں کی برفیں پھگلنا اور ختم ہونا شروع ہوگئیں۔ اب کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ وہاں سردی کم ہونا شروع ہوگئی۔ جبکہ دوسری طرف چشمِ تصور میں یہ بھی دیکھیں کہ بکریوں کی اس نسل کے افراد میں قدرتی طور پر ایک ورائٹی تھی۔ یعنی بعض بکریوں کے بال زیادہ لمبے تھے تو بعض کے اتنے زیادہ لمبے نہ تھے۔ چنانچہ زیادہ لمبےبالوں والی بکریوں کے لیے گرمی کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا اور کم لمبے بالوں والی بکریوں کے لیے ابھی اتنا مشکل نہیں تھا۔ سو زیادہ لمبے بالوں والی بکریاں جلد مرنا شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں قدرے کم لمبے بالوں والی بکریاں تعداد میں بڑھتی چلی گئیں۔ فرض کریں کہ برفیں مسلسل پگھلتی رہیں اور وہاں گرمی بڑھتی چلی گئی۔ تو دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ نئے جین پول میں بھی وہی ہوا، یعنی اب جن بکریوں کے اور بھی کم لمبے بال تھے ان کی تعداد بڑھ گئی اور قدرے زیادہ لمبے بالوں والی بکریوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اگلی چند نسلوں میں یہی ہوتا رہا اور پھر ایک وقت آیا کہ بکریوں کے جین پول میں زیادہ لمبے بالوں والی بکریوں کے جینز بہت ہی کم ہوگئے۔ یعنی بغیر بالوں والی بکریوں کی نئی نوع تیار ہوگئی۔

اسے نیچرل سیلکشن اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں فطرت کسی چھلنی کی طرح چھان لیتی ہے اور صرف ان جینز کو نئے نئے جین پول بنانے دیتی ہے جو نئے ماحول کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب انڈسٹریاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو یورپ کے درختوں کی رنگت دھوئیں اور آلودگی کی وجہ سے قدرے تاریک ہوگئی۔ ان درختوں پر رہنے والی تتلیاں پرانی رنگت کے درختوں جیسی ہلکی بھوری ہوا کرتی تھیں۔ جونہی درختوں کی رنگت تاریک ہوئی تتلیاں ’’کنٹراسٹ کلر‘‘ کی وجہ سے زیادہ ہائی لائیٹ ہوگئیں۔ پہلی تتلیاں چونکہ درختوں کے رنگوں کی ہوا کرتی تھیں اس لیے وہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رہتی تھیں کیونکہ ان کی رنگت انہیں کمیوفلاج ہونے میں مدد دیتی تھی لیکن جب درخت ڈارک ہوگئے تو تتلیاں اپنے دشمنوں کے سامنے ایکسپوز ہوگئیں۔ تب یہ ہوا کہ جو تتلیاں پہلے سے ہی قدرے سیاہی مائل تھیں ، وہ تو دشمن سے محفوظ رہیں جب کہ باقی ماندہ ماری گئیں۔ فطرت نے ایک نیا جین پول سیلیکٹ کرلیا اور ایک نئی نوع یعنی تاریک تتلیاں وجود میں آگئی۔

 کوئل عجیب و غریب پرندہ ہے۔ اپنا گھونسلہ نہیں بناتی بلکہ اپنا انڈہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں جاکر دیتی ہے۔ کوّوں، چڑیاؤں، فاختاؤں، کبوتروں، اور ایسے ہی چھوٹے بڑےپرندوں کے گھونسلوں میں، تاکہ اُس کے انڈے محفوظ رہیں۔

پھر کیا ہوتاہے کہ کوئل کے انڈے لازمی طور پر اُس گھونسلے میں موجود دوسرے انڈوں سے پہلے تیار ہوجاتے ہیں اور کوئل کا ننھا بچہ انڈے سے نکلتے ہی پہلا کام یہ کرتاہے کہ اپنے آس پاس رکھے دوسرے انڈوں کو دھکے مار مار کر گھونسلے سےباہر پھینک دیتا ہے۔ وہ اپنی پِیٹھ سے انڈوں کو دھکیلتاہے اور ایک ایک کرکے بقیہ سارے انڈے گھونسلے سے نیچے پھینک دیتاہے۔

 کوئل کے انڈوں میں ایک عجیب و غریب خاصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ جس گھونسلے میں دیے جائیں، اُس گھونسلے میں موجود انڈوں جیسی شکل و شباہت اور رنگت اختیار کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک کوئل نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دیاہے تو اس کا انڈہ چڑیا کے انڈوں جیسی شکل و صورت اور رنگت اختیار کرلیگا تاکہ چڑیا کو پتہ نہ چلے کہ اس کے انڈوں میں کسی نے اجنبی انڈہ شامل کردیا ہے۔ یہ نہایت عجیب و غریب مظہر ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے ریسرچر نے بے پناہ محنت کی اور بالآخر کوئل کی اِس جادُو گری کا اندازہ اِس طرح لگایا گیا کہ دراصل بظاہر ایک طرح کی نظر آنے والی کوئلیں فی الواقعہ ایک دوسرے سے تھوڑی سی مختلف ہیں۔ مختلف اس طرح کہ مثلاً جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ ہیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ،علیٰ ھٰذالقیاس۔ یعنی ایک ہی نوع کی کوئلوں کے غیر محسوس قسم کے کئی گروہ ہیں جو بظاہر نہیں پہچانے جاسکتے ہیں۔

سو ہوتا یہ ہےکہ جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں اُن کو ’’جینٹک کوڈنگ‘‘ کے ذریعے یہ شعور ملا ہے کہ وہ چڑیوں کے انڈوں جیسے انڈے دیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے انڈوں جیسے انڈے دیتی ہیں اُن کے جینٹک کوڈ میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ وہ جب بھی اور جہاں بھی انڈہ دیں تو فاختاؤں کے انڈوں جیسا انڈہ دیں۔ یہ شعور انہیں جینز کے ذریعے کیسے ملتاہے؟ ریسرچرز نے سب سے پہلے یہ نوٹ کیا کہ ہر مادہ کوئل جب جنم لیتی ہے تو وہ جس گھونسلے میں جنم لیتی ہے، جب بڑی ہوکر خود ماں بننے لگتی ہے تو اُسی قسم کے گھونسلے میں ہی انڈہ دینے کی اہل ہوتی ہے اس لیے اسی قسم کے گھونسلے میں جاکر ہی انڈہ دیتی ہے۔ اس بات کا پتہ بھی انہیں اپنے جینزمیں لکھی ہدایت کی وجہ سے چلتاہے کہ انہوں نے کوّوں، چڑیوں یا فاختاؤں کے گھونسلے کیسے ڈھونڈنے ہیں۔ یعنی صدیوں سے ایک کام کرتے کرتے اب ان مادہ کوئلوں کے جینز میں داخل ہوگیاہے کہ چڑیوں ار فاختاؤں کے گھونسلوں کو الگ الگ پہنچانیں اور ان میں جاکر انڈہ دیں۔

اس راز کا پتہ چلا تو ریسرچرز انگشت بدندان رہ گئے۔ انہوں نےسوچا کہ آخر ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ نوع تو خالصتاً ایک ہی ہو لیکن پھر بھی ان میں تقسیم کی جاسکے کہ فلاں تو چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی کوئلیں ہیں اورفُلاں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی۔ تب مزید تحقیات پر یہ راز یوں کھلا کہ جیسے انسانوں میں نَر (مرد) کے کروموسوموں کے ایک جوڑے کو ’’ایکس وائی‘‘ کروموسوم کہتے ہیں اور مادہ کے کروموسومز کے سارے جوڑوں کو ’’ایکس ایکس‘‘ کروموسوم کہتے ہیں کوئل میں اس کے برعکس ہوتا ہے اور مادہ کوئل میں ایک جوڑا ایکس وائی کروموسوم جبکہ نَر کوئلوں میں سارے جوڑے ایکس ایکس کروموسوم کے پائےجاتے ہیں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ وائی کروموسوم کا حامل ہونے کی بدولت ماداؤں کی نسلوں کو اپنے اجداد کے جینز سے متوارث ہدایات منتقل ہوتی ہیں جبکہ ایکس ایکس کروموسوم میں وہ ہدایات نہیں جاتیں اور یوں ایک ہی نوع اس لیے قائم رہتی ہے کہ نَر کوئل تو ہرحال میں ایکس ایکس کروموسوم والا ہونے کی وجہ سے کبھی بھی اپنے اجداد کے جینز سے وہ ہدایات نہیں لیتا جو اس کو اپنی نوع میں ایک الگ ذات کی کوئل کا نر بنادے جبکہ مادہ کوئل اکیلے وائی کروموسوم کی وجہ سے الگ الگ گروہوں کی شکلوں میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چونکہ کائنات کی کوئی شئے پرفکیٹ نہیں اس لیے مادہ کوئلوں سے کبھی کبھار غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ یعنی ایک کوئل جس نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دینا تھا وہ غلطی سے فاختہ کے گھونسلے میں انڈہ دے دیتی ہے۔ اس سے فطرت نے ایک اور مقصد پورا کرناہوتاہے۔ ان غلطیوں کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ مادہ کوئلوں کے نئے نئے گروہ تیار ہوتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کا پتہ اس طرح چلا کہ ماداؤں کے ایک گروہ کے انڈے بہروپ دھارنے کی قدرے کم قابلیت رکھتے ہیں تو کسی اور گروہ کے انڈے قدرے زیادہ قابلیت رکھتے ہیں۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جینز پر تفکر ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ نئے نئےوائی کروموسوم سے ہدایات لینے کے کام پر شروع ہوئے ہیں اور کچھ بہت پرانے لگے ہوئے ہیں ۔ جو نئے نئے شروع ہوئے ہیں یہ نئے اور تازہ گروہ ہیں جو اُن غلطیوں کی وجہ سے ممکن ہوپاتےہیں جو بعض ماداؤں سے سرزد ہوتی ہیں۔

انسانوں میں بھی ایسا ہوتاہے۔ انسانی جین پول معاشی، سیاسی اور سماجی حالات کے تحت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان جو گزشتہ ستر سال سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان کی تین چار نسلیں پاکستان میں پیدا ہوگئی ہیں اب اپنے، وہاں موجود رشتہ داروں سے جسمانی طور پر تھوڑے سے مختلف ہیں۔ یہ تبدیلی اگرچہ بہت ہی کم ہے، اتنی کم ہے کہ عام آدمی کے لیے اسے نوٹ کرنا مشکل ہے لیکن تحقیقی نگاہ سے یہ تبدیلی چھپ نہیں پاتی۔ اسی طرح افغان مہاجرین کی جو نسلیں یہاں پروان چڑھی ہیں اُن میں اور افغانستان میں موجود افغانیوں میں بھی فرق آچکاہے۔ یہ نہایت معمولی فرق ہیں جن کا ذکر کچھ خاص اہم نہیں لیکن بڑے پیمانے پر انسانی آبادیوں میں نیچرل سیلیکشن کے واضح اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیا ہم چینیوں میں ایسا جین پول خود پیدا کرسکتے ہیں جن کے ناک چپٹے نہ ہوں؟ ہم اگر چین جاکر وہاں موجود ایسے چینیوں کو الگ کرلیں جن کی ناک چپٹی نہیں ہے تو ہم ایسا جین پول آسانی سے تیار کرسکتے ہیں۔

اس سارے مضمون میں، ہم نے جس بات پر توجہ نہیں دی وہ تھی، ’’بیرونی ماحول‘‘ میں موجود تبدیلی۔ انسانی معاشروں کا بیرونی ماحول گزشتہ صدی میں بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ پہلے لوگ اونچی چھتوں اور موٹی دیواروں والے مٹی کے وسیع اور بڑے کمروں میں رہتے تھے۔ اب لوگ نیچی چھتوں، پتلی دیواروں اور کنکریٹ، سیمٹ، لوہے اور بجری سے بنے مکانوں میں رہتے ہیں۔ پہلے لوگ بجلی اور ٹیلیفون کے بغیر رہتے تھے۔ اسی طرح کی ان گنت ایسی تبدیلیاں ہیں جو گزشتہ صدی میں پوری انسانی معاشرت میں واقع ہوئی ہیں۔ چنانچہ وہ جینز جو نئے ماحول کے لیے مناسب تھے تعداد میں بڑھ گئے ہیں اور باقی فنا ہوگئے ہیں۔

لیکن گزشتہ صدی میں واقع ہونے والی ماحولیاتیِ تبدیلیوں میں سب سے بڑی تبدیلی ’’عقیدے کا خاتمہ‘‘ ہے۔ لوگ چاہے جتنے بھی مذہبی ہیں لیکن دورِ حاضر کے لوگ اپنے مذہبی عقائد پر یقین کھو چکےہیں۔ ایک طرف چند سائنس دان اعلان کردیں کہ آنے والےچند دنوں میں ایسا زلزلہ آئے گا کہ فُلاں شہر مکمل طور پر زمین میں دھنس جائے گا اور دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان مولوی مل کر یہ اعلامیہ جاری کریں کہ ’’رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت پر عذابِ خسف یعنی زمین میں دھنسانے کا عذاب نہیں آئے گا‘‘ تو لوگ مولویوں کی بات نہیں مانیں گے اور سائنسدانوں کی بات کا مکمل یقین کرلینگے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ دورِ حاضر کے سائنسی اور منطقی فہم کے سامنے عقیدے کا دعویٰ ہار چکاہے بایں ہمہ عملاً عقیدے کا خاتمہ ہوچکاہے، اگرچہ رسماً باقی ہے اورسائنسی عقل کا اِسی طرح عروج رہا تو ایک آدھ صدی بعد بالکل ہی فنا ہوجائے گا۔ اب چونکہ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو لوگوں کے دِل و دماغ میں اجتماعی طور پر وارد ہوئی ہے اور مسلسل ہورہی ہے تو کیا ہورہا ہے کہ اب نیچرل سیلیکشن کی چھلنی میں صرف ایسی پود چھَن رہی ہے جو سائنس کے انکشافات پر مذہبی عقائد سے زیادہ یقین رکھتی ہے۔ مزید برآں چونکہ سائنس میں ایسا کوئی خیال نہیں پایا جاتا جو دو انسانی گروہوں کے درمیان رنگ، نسل،خون، وطن،قوم، قبیلہ یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کا موجب بن سکتاہو اِس لیے نہایت تیزی کے ساتھ نئے نئے انسانی جین پول تیار ہورہے ہیں جو اجتماعی طور پر انسانیت کو سب سے بڑا عقیدہ تصور کرتے ہیں۔

اس پر مستزاد مذہبی پیشواؤں کا جین پول بھی الگ ہورہاہے۔ مولویوں اور پادریوں کے ساتھ بھی نیچرل سیلکشن کا عمل پیش آرہاہے۔ ایک صدی پہلے تک ایک باپ اپنے چار بیٹوں میں سے سب سے لائق اور ذہین بچے کو دینی مدرسے بھیجتا تھا۔ بہادرشاہ ظفر کے زمانے تک ملک کی سب سے بڑی ڈگری ’’مولوی‘‘ ہوتی تھی۔ اور آج زیادہ تر والدین اپنے سب سے ڈفر، کند ذہن اور نالائق بچے کو دینی مدرسے میں داخل کرواتے ہیں۔ جہاں اس تبدیلی کی وجہ معاشی حالات اور مادہ پرست فکر ہے وہاں سائنسی انقلاب اور جدید فکری رجحانات کے علاوہ میڈیا اور ترقی یافتہ دنیا کے مناظر بھی ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں مولویوں کی جو کھیپ تیار ہوئی ہے اس میں کند ذہن، کم ذہین یا تھوڑے آئی کیو لیول کے مولویوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مثلاً پہلے اگر دس مسجدوں کے خطیبوں میں سے سات ایسے خطیب ہوتے تھے جو دانائی اور علم وحکمت سے آراستہ خطبہ دیتے تھے تو آج دس میں سے تین خطیب بھی ایسے نہیں ہیں جو دانائی یا علم کی باتیں خطبے میں بتاسکیں۔ یوں مولویوں کے ساتھ بھی نیچرل سیلکشن کا عمل پیش آیا ہے اور ذہین مولویوں کی تعداد اس جھنڈ میں بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ چونکہ پوری دنیا کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ پیش آیا ہے اس لیے مذہبی پیشوا اب دانائی کی علامت نہیں رہے۔ ان کے مقابلے میں لوگوں نے اپنے لائق اور ذہین بچوں کو سائنسی تعلیم کی طرف بھیجا ہے چنانچہ سائنسدانوں کا جو گروہ تیار ہوا ہے وہ فی زمانہ سب سے زیادہ ذہین اور عاقل لوگوں کا گروہ سمجھا جاتاہے۔

مضمون کے شروع میں ، میں نے کہا کہ اب ارتقا کا اگلہ مرحلہ انسانوں کو اخلاقی طو رپر بہتر ہوجانا ہوگا۔ یہ اس لیے کہا کیونکہ ارتقا کا اصول ہے کہ بیرونی ماحول کا مقابلہ کرسکنے کے اہل جینز باقی رہینگے اور ان کے علاوہ سب فنا ہوجائینگے۔ بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو انسانوں کو اب جسمانی طور پر مسائل کا اتنا سامنا نہیں جتنا ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔ مثلا اب گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل بندوبست ہے لیکن اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بندوبست نہیں ہے۔ اینگزائٹی، ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن، فرسٹریشن، مالیخولیا، اور طرح طرح کے فوبیاز وغیرہ، یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو دورِ حاضر کے انسان کو جسمانی مسائل سے زیادہ درپیش ہیں۔ اگلا انسانی جین پول صرف ان لوگوں کو تیار ہوگا جو ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے جینیاتی طور پر مضبوط ہونگے۔ کوئی شخص اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کا جینیاتی طور پر اہل کیونکر ہوسکتاہے؟ ماسوائے اس کے کہ وہ لوگ بچ جائیں جو اپنے آپ کو ذہنی دباؤ والے کاموں سے دُور رکھتے ہیں۔ چوری کرنا ڈپریشن والا کام ہے سو بہتر ہے کہ میں چوری نہ کروں۔ لیکن اگر میرے اندر چوری کرنے کی شدید ترین خواہش موجود ہے تو میں باز نہ رہ سکونگا اور اگر میں پہلے سے ہی چوری جیسی چیز کو اپنی طبیعت کے مطابق نہیں سمجھتا اور ایسے عمل سے بیزار سا رہتاہوں تو یقیناً میں اپنے آپ کو اِس ڈپریشن کے دور میں تو اور بھی باز رکھونگا اور چوری والے عمل کے نزدیک تک نہیں جاؤنگا۔ چنانچہ آنے والی نسلوں کے جینز جہاں پہلے سے زیادہ نازک اور حساس خصلتوں کے حامل ہونگے وہاں ڈپریشن والے کاموں سے طبعاً دُور بھی ہونگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فرض کریں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایک ہی صورت ہے کہ انسان زمین پر زندہ نہیں بچے گا۔ زمین کو تباہ کرلیگا یا خود کو۔ انسان کے باقی بچنے کا حل ہی صرف یہی ہے اور یہی ایک ہے کہ وہ جلد سے جلد اخلاقی طور پر بہتر لوگوں کا جین پول تیار کرلے۔ ایسے لوگ جن کی طبیعت میں کسی کو تکلیف دینا نہیں پایا جاتا اور فقط اس لیے نہیں پایا جاتا کہ ایسے کاموں سے انہیں جبلی طور پر ٹینشن ہوجاتی ہے۔ ایسا جین پول تیار ہوگیا تو یقینی ہے کہ انسان بہت لمبا جیے گا۔ بصورتِ دیگرفقط ایک دو صدیاں کاٹنا بھی دشوار ہے کیونکہ سیّارہ زمین اب بُری طرح سے ڈانواڈول ہے اور اسے بیخ و بن سے ہِلا دینے کا کارنامہ بھی انسانوں نے ہی مل کر سرانجام دیاہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply