سیاہ ترین سچائی

یہ لرزہ خیز سچائی ہر محبِ وطن پاکستانی کیلئے ہے، چاہے وہ سیاسی ، سماجی یا مذہبی یا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی اصل قبر والا کمرہ بدفعلی کیلئے نوجوانوں کو کرائے پر دیا جاتا ہے ۔
یہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا مزار ہے، یہاں وہ ہستی آسودہِ خاک ہے جس نے اپنی آخری سانس تک پاکستان کی بقا و سلامتی اور استحکام کیلئے کام کیا ۔صرف یہ ہی نہیں اس ہستی کے بغیر پاکستان کے بننے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ وہی پاکستان جس کے ہونے سے میں ہوں ، جس کے ہونے سے آپ ہیں جس کے ہونے سے وہ حکمران ہیں جن کی رعونت اور فرعونیت ختم ہونے میں نہیں آتی جن کا جاہ و جلال ، تمکنت ، پروٹوکول ، جھنڈے والی گاڑیاں ، محلات اور اقتدار سب اسی شخص کی محنت کا صدقہ ہے ۔ اسی ہستی کے بنائے ہوئے پاکستان میں اسی کی تصویر کے نیچے بیٹھ کر اسی کی تصویر والے نوٹ لیتے ہوئے افسران کا رعب ، دبدبہ ، شان و شوکت اور مراعات بھی اسی ہستی کی مرہونِ منت ہیں ۔ اور وطنِ عزیز کی آزاد فضاوں میں سانس لیتے ہوئے ہم سب پاکستانی بھی اسی انسان کے مقروض ہیں جو زندہ رہا تو پاکستان کیلئے اور جس نےاپنی جان دی تو بھی پاکستان کیلئے ۔
لیکن بدلے میں ہم نے انہیں کیا دیا ؟
زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا قائد کو ایئرپورٹ سے گھر لانے کیلئے ایک خراب ایمولینس دی ، اس ایمولینس نے انہیں دھوکہ دیا اور پھر سڑک کنارے خراب کھڑی ایمولینس میں قائداعظم کے گرد مکھیاں بھنبھناتی رہیں ، ہم نے انہیں مضبوط پاکستان کے بجائے دولخت پاکستان کا تحفہ دیا ، اتحاد تنظیم اور یقینِ محکم کی جگہ فرقہ واریت ، تعصب اور صوبائیت کا نذرانہ پیش کیا ، کام کام اور صرف کام کی جگہ، حرام حرام اور صرف حرام کو اپنا وطیرہ بنا لیا ، جس نے ہمیں پاکستان جیسی پناہ گاہ دی ہم زیارت میں اسی کی قیام گاہ کو نہ بچا سکے ، جس نے ہمیں عزت سے جینے کیلئے یہ ملک دیا اسی کے مزار پر چار چار درندے ایک معصوم لڑکی کی عزت لوٹتے رہے ۔
لیکن اس سب کےباوجود کسی نے بھیانک ترین خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اس عظیم قائد کی قبر کو بیچا جانے لگے گا ۔بابائے قوم کی قبر والے کمرے میں بدفعلی کروانے کی قیمت وصول کی جائے گی اور قائداعظم محمد علی جناح کا مزار نوجوان جوڑوں کو عیاشی کیلئے کرائے پر دیایا جائے گا ۔لیکن یہ سب ہوا اور نجانے کتنے عرصے تک ہوتا رہا ۔ اس ملک اور اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہم نے بانیِ پاکستان کے مزار جیسی قابلِ تعظیم جگہ کو بھی معاف نہیں کیا میڈیا کے درجنوں پروگرامز کے باوجود آج بھی مزارِ قائد کی ملحقہ سڑکیں جسم فروشی کا سب سے بڑا مرکز ہیں جبکہ مزار کے اندر کا احاطہ بوس و کنار کرنے والے جوڑوں کیلئے آئیڈیل جگہ ہے ۔
اور رہی بابائے قوم کی قبر تو اب اسے بدفعلی اور جنسی تعلقات کیلئے کرائے پر دیا جانےلگا ہے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ان افسران کیلئے جو لاکھوں کی تنخواہ اور مراعات کے عوض مزار کی حفاظت پر مامور ہونے کے باوجود اس کی حرمت کو بیچ کر کھا رہے ہیں ۔مزار کی سیکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز تو ہڑپ کرتے ہی ہیں اُلٹا مزار کی بےحرمتی کے بدلے ملنے والی حرام کی کمائی میں بھی باقاعدہ حصہ دار ہیں ۔ یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قائداعظم کے پاکستان میں قائداعظم کی قبر کی اس طرح بےحرمتی کی جائے گی اور ساری دنیا چھوڑ کر ان کی قبر والے کمرے کو ایسے گھناونے مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا جس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے ۔
موجودہ قبر قائداعظم کی علامتی قبر ہے جہاں تمام خاص و عام شخصیات حاضر ہوتی اور فاتحہ خوانی کرتی ہیں جبکہ اس کے عین نیچے ایک تہہ خانہ ہے جہاں قائداعظم کی اصل قبر ہے اس کا راستہ وہیں سے نیچے جاتا ہے اور اس دروازے پر چوبیس گھنٹے تالا رہتا ہے کیونکہ یہ دروازہ صرف ہائی پروفائل وفود کی آمد پر خصوصی اجازت نامے کے بعد ہی کھولا جا سکتا ہے لیکن اب صرف چند ہزار کے عوض بدفعلی کیلئے بھی یہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔

Facebook Comments

محمد حمزہ حامی
شاعر ، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply