نیا محاذ (2)۔۔۔۔رضا شاہ جیلانی

اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب امریکہ نے ایران کے ساتھ خفیہ جوہری معاہدے کئے۔ اور تو اور امریکہ نے بھارت کو بھی راضی کیا کے وہ ایران کے علاقے چاہبہار میں گوادر کی طرز پر ایک پورٹ قائم کرنے میں ایران کی بھرپور معاونت کرے۔ اس ضمن میں امریکہ کی سرپرستی ہی میں بھارت کا ایران کیساتھ گوادر مخالف بندرگاہ کے لیے پچاس کروڑ ڈالرز کے معاہدوں کا ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کے ایران اپنے ہی پڑوسی برادر اسلامی ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کس حد تک نیچے جا سکتا ہے اور پاکستان مخالف قوتوں سے وقت پڑنے پر ہاتھ بھی ملا سکتا ہے۔ جسکا انعام و اکرام آجکل ایران کو
خوب مل رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے بھارت نے پاکستان کے صوبے بلوچستان سے متصل قریبی ایرانی علاقے میں پورٹ بنانے کا کام بھی شروع کر دیا۔

حیرت انگیز طور پر ساتھ ہی پاکستان کے ان ہی علاقوں خصوصاً بلوچستان کے ایرانی بارڈر کی اُس بیلٹ میں کافی پیمانے پر شورش بھی شروع ہو گئی۔  جیسے جیسے وہاں ایرانی علاقے میں پورٹ بنتا رہا یہاں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ٹھیک ٹھاک قتل و غارت گری شروع ہو گئی۔  آئے روز بم دھماکوں سمیت گیس کی پائپ لائنز کو دھماکوں سے اڑانا، ایران جانے والے زائرین کی بسوں کو نشانہ بنانے کا عمل عام ہوتا جا رہا تھا۔ اس  کے بر خلاف، جیسے ہی پاکستانی فورسز دہشتگردوں کے خلاف کوئی ایکشن لیتیں تو بھارت کی ایما کی پر کچھ پاکستانی این جی اوز ٹھیک ٹھاک ریلیاں نکالتیں کہ جناب پاکستانی فورسز مظلوم بلوچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں، ہے کوئی جو انہیں بچائے اور پاکستان کو بلوچوں کی نسل کشی سے روکے۔

مگر اس ساری سازش کے پیچھے بھارت اور ایران کا ایسا گٹھ جوڑ ہوا کے یہ نکاح دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
بھارت نے اچانک اپنے ملک کے دروازے ایرانیوں کے لیے کھول دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں اطراف سے مکمل تجارت شروع ہو گئی۔ دونوں جانب سے کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا شروع ہونا، یہ سب کچھ راتوں رات تو ہوا نہیں تھا کہ کسی کو کچھ سمجھ نہ آتا، اس کے پیچھے کئی سالہ محنت شاقہ تھی جو درپردہ امریکہ بہادر کے کہنے پر بھارت ایران کیساتھ کر رہا تھا۔ اور ایران بدلے میں کلبھوشن جیسے کئی سانپوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا تھا۔

یہ سب بھانپتے ہوئے پاکستان نے بھی چائنہ کیساتھ اپنے تعلقات کا از سرِ نو جائزہ لیا اور سی پیک جیسے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا۔ گو کہ اس عمل میں پاکستانی سیاسی قوتوں نے خوب رخنہ ڈالا مگر پاکستان کی عسکری قیادت نے جب سی پیک منصوبے کا اسٹیئرنگ اپنے ہاتھوں میں لیا تو سیاسی حلقوں میں یک دم خاموشی سی چھا گئی۔ مگر ابھی بھی کچھ کچھ حلقوں کی جانب سے دبی دبی چیخیں سنائی دے جاتی ہیں مگر وہ اتنی کارگر نہیں کہ ان پر توجہ دی جائے۔

جہاں سی پیک منصوبہ اپنی تکمیل کی جانب رواں دواں ہے وہیں ہندوستانی ایجنسی ” را ” کے حاضر سروس نیول کمانڈر ” کل بھوشن یادَو عرف ” حُسین مبارک پٹیل ” کی بلوچستان سے گرفتاری نے معاملے کی گتھی کو خود ہی سلجھا دیا ہے۔ کلبھوشن یادو کے پاس سے خفیہ دستاویزات، اہم مقامات کے نقشے اور بلوچستان کی فرقہ وارانہ تنظیموں اور علیحدگی پسند لیڈروں سے رابطوں کی مکمل ایک فہرست ملی ہے۔ بھارت کی اپنی خفیہ ایجنسی را سے پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کے لئے پھیلائے گئے نیٹ ورک اور اس کے پاکستان میں خصوصاً بلوچستان اور کراچی میں بنائے گئے سلیپنگ سیلز کے بارے میں کافی کچھ معلومات ملیں ہیں۔

پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی اور قتل وغارت گری میں کون سا برادر اسلامی ملک پاکستان کے خلاف پسِ پردہ ایک مخفی اور منفی کردار ادا کرتا رہا یہ سب کلبھوشن نے ایسے بتا دیا جیسے موت کے خوف سے مرنے والا سچ سچ اگل دیتا ہے۔ اَب اگر ہم سارے منظر نامے کو ایک بار پھر سے ریوائنڈ کر کے دیکھیں تو سب کچھ ہمیں سمجھ آنے لگ جائے گا۔ کلبھوشن کا بلوچستان میں رہنا، پاکستان سے بلوچستان کے راستے ایران آنے جانے والے زائرین پر متواتر حملے ہونا، اور الٹا ایران کا اس پر ہم سے ناراضگی کا اظہار کرنا، کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں حالات کا کشیدہ ہونا، کبلھوشن کے بیان کے مطابق اسکا علیحدگی پسند تنظیموں سمیت انتہا پسند تنظیموں سے روابط رکھنا، اور کام نمٹا کر فوراً ایران چلے جانا، یہ سب کچھ ایک اسلامی ملک کا دوسرے برادر ملک کے لیے تحفہ تو ہو نہیں سکتا؟ تو پھر ایرانی حکومت کا اس طرح سے بھارت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہمیں بہت کچھ سمجھا رہا ہے۔

اِس سنگین نوعیت کے معاملے پر پاکستانی سیاسی حکومت کا چپ رہنا بھی معاملے کو الجھا رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب پانامہ پیپرز کے شور تو کبھی الطاف حسین کے بیانات میں اس اہم اور سنگین نوعیت کے مسئلے کو منوں مٹی تلے دبانے کی ہر بار ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ چینلز تو اس معاملے کی سنگینی کو ہی غیر اہم سمجھ رہے ہیں اور پانامہ کے شور کو اس حد تک اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کلبھوشن یادَو کی گرفتاری سمیت بھارت اور خصوصاً ایرانی زمین سے ہونے والی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو ہی بھول بھال جائیں۔

مگر وہ شاید بھول گئے ہیں کہ پاکستانی عوام پاکستان کے دشمنوں کو اتنی جلدی بھولنے والی نہیں، وہ چاہے کلبھوشن یادو کی شکل میں بھارت کا مکروہ چہرہ ہو یا برطانیہ سے بیٹھ کر پاکستان میں شورش کروانے والے عناصر۔ پاکستانی عوام اتنے سادہ لوح نہیں کے وہ ان چالوں کو سمجھ نہ سکیں اور وہ یہ نہ جان سکیں کے در اصل سب کے پیٹ میں درد سی پیک کو ہی لیکر ہے۔ پھر چاہے وہ پاکستانی کی کچھ سیاسی قوتیں ہوں یا بھارت نواز برادر اسلامی ملک۔ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے اس را کے افسر کے مطابق وہ انڈین نیوی کا حاضر سروس ملازم ہے۔ اور وہ کافی عرصے سے ایرانی شہر چاہ بہار میں رہائش پذیر ہے۔ وہاں وہ سونے کے بیوپاری کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے اور اکثر وبیشتر ایرانی افسران کی ہی مدد سے ایرانی بارڈر کراس کر کے بلوچستان آیا کرتا تھا۔

اس ساری صورتحال کے بعد دیکھنا یہ ہے کے بھارت اور افغانستان سمیت اب پاکستان مخالف ایک نیا کردار ایران بہت تیزی سے ابھر کر سامنے آرہا ہے اس کے لیے کیا ہماری خارجہ پالیسی اس قدر توانا ہے کہ وہ عالمی قوتوں اور اپنے بین الاقوامی دوستوں کو اس نئے کردار کے بارے میں واضع ثبوتوں کیساتھ انکے سامنے اپنا کیس لڑ سکے؟

کیا اس معاملے کو لیکر ہماری سیاسی حکومت نے کوئی خارجہ پالیسی ترتیب دی ہے؟ اگر ہاں تو کیا وہ پالیسی اس قابل ہے کے وہ کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اس صورتحال کے بارے میں دیگر ممالک کو اعتماد میں لے سکے؟

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری جانب یہ بات بھی بڑی افسوسناک ہے کے اسلام، برادری، دوستی مسلک وغیرہ اپنی جگہ مگر بارہا شکایات کے باوجود بھی ایرانی حکومت نے چاہ بہار میں موجود ہندوستانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کے اسکے ارادے پاکستان کے لیئے کوئی نیک نہیں ہیں۔ اس ساری صورتحال کے بعد پاکستان کو فوری طور پر ایک مستقل وزیرِ خارجہ کی ضرورت ہے جو بین الاقوامی سطح پر اس نئے محاز کے خلاف تیز ترین لابنگ کر سکے۔ مگر شاید ہمارے پانامہ کے مارے سیاسی شعبدہ باز ان تمام تر غیر تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینا پسند نہیں فرمائیں گے۔
(ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply