دی لاسٹ بُلٹ ۔۔۔۔۔۔ لالہ صحرائی

صاحبو اور مصاحبو، ھماری تاریخ بقول شخصے مطالعہ پاکستان یا معاشرتی علوم پر مبنی ھے اور یہ تاریخ اتنی کچی ھے کہ اس کی دھجیاں آپ جس سے مرضی اڑوا لیں۔ مسئلہ فیثاغورث جاننے والے تو بہت بڑے لوگ ھیں یہاں تو غباروں میں پُھونک بھرنے والے بھی باآسانی اس تاریخ کا حشر کر سکتے ھیں۔

میرے دوست آفتاب قریشی اور ھم، زمانہء طالبعلمی میں معاشرتی علوم کو رواں دیسی پینڈو زبان میں “مشرتیا لوم” بھی کہتے تھے۔ آپ کے سامنے مشرتیالوم بیان کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ھے لہذا وہ تمام حضرات جو دُب اکبر سے دُب اصغر تک ستاروں پر کمندیں ڈال لیتے ھیں، آج ھم ان کی خدمت میں ایسا سورج توڑ کے لائے ھیں کہ جو شری مہاشری پوِتر اتہاسک علوم پر مبنی ھے جس کی پوترتا پر آپ کو رتی برابر بھی شک نہیں ھونا چاھئے۔

محترم ڈاکٹر بی۔سی۔چکرورتی انڈیا کے عسکری تجزیہ نگار ھیں، آپ سرکار کو انڈوپاک وار کی تجزیاتی و تحقیقاتی تاریخ لکھنے کا کام سونپا گیا تھا جو انہوں نے بہت گہری و عمیق تحقیق کے ساتھ کیا ھے۔ ڈاکٹر چکرورتی صاحب کی کتاب کا نام ھے “دی ھسٹری آف انڈوپاک وار 1965ء، یہ کتاب انڈیا کی منسٹری آف ڈیفینس کے ھسٹری ونگ نے سن 1992 میں خود بھی شائع کی تھی، درج ذیل تین انگریزی کتابوں اور انسائیکلوپیڈیاز میں ویسٹرن ھسٹریز کے مختلف سورسز کے علاوہ ڈاکٹر چکرورتی صاحب کی کتاب سے بھی بھرپور ریفرینسز موجود ھیں۔

انگلش بک، فرام رن کچھ ٹو تاشقند، بائی فاروق باجوہ

انگلش بک، دی کولڈ وارز آف ساؤتھ ایشیا، بائی پال میکگر

انگلش بک، سیکرٹ وارز آف کشمیر، بائی پراوین سوامی

انگلش پیپر، انڈین ایکسپریس ۹ ستمبر ۲۰۱۵، بائی سشانت سنگھ

فاروق باجوہ صاحب کی کتاب پہلے انگلینڈ میں چھپی تھی پھر انڈیا میں۔ ان کا موقف یہ ھے کہ 65 کی جنگ کی ابتداء رن کچھ سے انڈیا نے کی تھی۔ فاروق صاحب نے رن آف کچھ کے پہلے ایڈونچر سے لیکر آپریشن جبرالٹر، گرینڈ سلیم اور دیگر چین آف ایوینٹس سمیت تاشقند تک انچ بائی انچ منظر نامہ پیش کیا ھے، ان سب کتابوں کی ایک سمری پیش کر رھا ھوں۔

رن کچھ سندھ کے صحرا اور بھارتی گجرات کا درمیانی علاقہ ھے جو دریائے سندھ کے ڈیلٹا پر واقع ھے، عام حالات میں یہ بنجر اور خشک رھتا ھے لیکن سمندری سیلاب کے دنوں میں یہ دلدل میں تبدیل ھو جاتا ھے، یہ علاقہ قدرتی معدنی ذخائر سے مالا مال ھے جس میں نیچرل گیس اور تیل وغیرہ بالخصوص قابل ذکر ھیں، یہ علاقہ بھی سیاچن کی طرح آؤٹ آف ریچ تھا اس لئے یہاں بھی سیاچن کی طرح کوئی سرحدی لائن ڈرا نہیں کی گئی تھی، بدین کے قریبی علاقے کانجر کوٹ پر تقسیم ھند کے وقت سے پاکستان کا تصرف تھا اور یہ ھماری آخری فوجی پوسٹ تھی۔ ایک مصنف، صحافی اور تجزیہ نگار غلام جیلانی صاحب کہتے ھیں اگر انڈوپاک وار کو ایک ناول سمجھ لیں تو اس کا پہلا چیپٹر بھارت نے “آپریشن کبڈی” کے نام سے لکھا تھا۔

ڈاکٹر چکرورتی صاحب فرماتے ھیں فروری 65 میں ھی بھارت نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ پاکستانی ٹروپس کو کانجر کوٹ سے نکال باھر کرنا ھے، یہ رن آف کچھ میں شاہجہاں یا اسی ڈائناسٹی کے وقت کا ایک بہت پرانا قلعہ ھے جس پر سن 47 سے ھی پاکستان کا قبضہ تھا، بھارت کا کہنا تھا کانجر کوٹ اس کی سرحد کے اندر واقع ھے اس لئے خالی کیا جائے۔ اس تقاضے کے آگے پاکستان نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ رن کچھ کی باقائدہ حدبندی کرنے اور بارڈر کھینچنے کیلئے اس کو درمیان سے تقسیم کر لیا جائے، آدھا بھارت کی طرف چلا جائے اور بقیہ آدھا پاکستان میں رہ جائے مگر انڈیا نہ مانا اور اس نے کانجر کوٹ سے پاکستانی فوج کو بیدخل کرنے کی ٹھان لی، یہ مشن گجرات کے کمانڈنٹ میجر جنرل پی۔سی گپتا کو دیا گیا، اس نے ایک بریگیڈ لیول کا اسالٹ لانچ کرایا جس کے کمانڈر بریگیڈئیر ایس ایس ایم پاھلہ جانی کو آپریشنل آرڈر دیا گیا کہ پاکستان میں داخل ھو جاؤ اور قلعہ خالی کراؤ،، بھارت کے اس مقدس آپریشن کا نام “آپریشن کبڈی” تھا

21 فروری 1965 کو 31st انفینٹری بریگیڈ نے اپنا “آپریشن کبڈی” لانچ کیا اور ھماری سرحدی پولیس کو بھگا کر قلعے پر قبضہ کرلیا، اس پر بھارت سے احتجاج کیا گیا لیکن جب اس نے کوئی بات نہ سنی تو کمانڈنٹ 8th ڈویژن جنرل ٹکا خان، بعد میں آرمی چیف بنے، انہیں جی ایچ کیو سے حکم ملا کہ اپنی پوسٹوں کو واگزار کرایا جائے جن میں کانجر کوٹ، مشہور زمانہ سردار پوسٹ اور بھیربِھٹ شامل تھیں انہیں آپریشن ڈیزرٹ ھاک اور ڈیزرٹ ھاک ٹو میں واگزار کرا لیا گیا، اس جنگ کے ھیروز جنرل ٹکا خان، بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ اور میجر راجہ نادر پرویز تھے جنہیں دوبار ستارہ جرآت دیا گیا، بریگیڈئیر کے ایم اظہر جو بعد میں جنرل بنے وہ بھی اس علاقے کے ھیرو تھے۔ رن کچھ کی معدنیات کے علاوہ سرکریک اور ڈیلٹا کے ساتھ مچھلی کے وسیع ذخائر ملتے ھیں جنہیں بھارتی گجرات کے مچھیرے دن رات ماھی گیری سے اٹھارھے تھے اور اٹھا رھے ھیں، سرکریک کا مسئلہ ابھی تک متنازعہ ھے، سرکریک کے معاملے میں آج بھی بھارت کسی بین الاقوامی ٹریبونل کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکاری ھے، یہ اربوں روپے کی مچھلی کے ذخائر ھمارے مچھیرے کیوں نہ ایکسپورٹ کریں؟ اس لئے کل کو پاک فوج نے ڈنڈا دے کر سرکریک کا علاقہ واپس لے لیا تو اسے جنگی جنون اور پاکستانی حملہ مت کہنا۔

رن کچھ کی جنگ فروری مارچ اپریل اور مئی میں وقفے وقفے سے جاری رھی، اس دوران انڈین آرمی چیف جنرل چوھدری نے امریکن سفارتخانے کے ملٹری اتاشی سے ملاقات کی اور کہا “میں ایک مشکل میں پھنس گیا ھوں، ھمارے پاس وہ مشین نہیں جو اس علاقے میں چل سکے جبکہ پاکستان کے پاس آپ کا دیا ھوا مشین یونٹ ھے، جس سے ان کو برتری حاصل ھے، آرٹلری وھاں کام نہیں آسکتی، بہتر مینوورایبلٹی کیلئے ھمیں بھی وھی مشین یونٹس چاھئیں اگر آپ دے سکیں تو اچھا ھے۔

پاکستان کو اس علاقے میں امریکن ٹینک یونٹ کی بدولت فوجی برتری حاصل تھی، اس شکست کے بعد انڈین فوج نے پنجاب کے ھر شہر کے ساتھ ساتھ جو لاھور اور سیالکوٹ کے قریب تھے وھاں ھیوی ڈیپلوئےمنٹ کی، یہ بھاری وار مشینری کے ساتھ فوجی ڈیپلوئےمنٹ کا سلسلہ کشمیر کے علاقے ٹیتھوال، اکھنور، اڑی اور کارگل کے آگے تک موجود تھا۔

برطانیہ کے وزیراعظم جیمز ھیرولڈ ولسن نے مصالحت کی کوششیں شروع کیں تو ایوب خان نے کہا کہ ھم تو راضی ھیں لیکن بنیئے پر آپ اعتبار نہیں کرسکتے یہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی قوم ھے، ولسن صاحب کے دباؤ پر 30 جون کو ایک معاھدے کے تحت پہلی جولائی سے رن کچھ کی جنگ رک گئی لیکن اس کا اثر پنجاب میں منتقل ھو گیا اس لئے کہ معاھدہ ھوتے ھی انڈین اپوزیشن نے حکمران پارٹی اور فوج کے لتے لینا شروع کر دیئے کہ پاکستان کو کسی قسم کی رعایت کیوں دی گئی، اپنی فوجیں واپس کیوں لیں، نہرو کے ادھورے خواب اور شاستری کی ایماء پر جنرل چوھدری بھی پاکستان کو سرینڈر کرانے کے خواب میں مست تھا۔

رن کچھ میں جنگ بندی پہلی جولائی کو ھوئی تھی، انڈیا کی طرف جولائی کا مہینے پنجاب اور کوہ ھندوکش کے ساتھ مضبوط پوزیشنیں لینے میں گزرا اور پاکستان میں آپریشن جبرالٹر کی فوجی تیاریوں اور اس کو میک اپ کرنے کی سیاسی تیاریوں میں گزرا۔ آپ کا خیال ھے کہ اگر ایک تنازعے پر جنگ ھونے کے بعد دشمن دوسرے سیکٹر پر ھیوی فوجی مشینری کیساتھ پیش قدمی کرے، مورچے کھودے اور پکے بنکرز و مضبوط دفاع تعمیر کرنا شروع کرے تو پاک فوج کو امن کی نتاشا کے حسین سراپا میں کھو جانا چاھئے تھا ؟ اسی لئے پنجاب کے ساتھ انڈین ڈیپلوئےمنٹ دیکھ کر ایوب خان نے کہا اب کشمیر کے مسئلے کو انڈکٹ کرنے کا صحیح وقت ھے، اس کیلئے بلیک۔اُوپ آپریشن کرکے کشمیر میں ھائپ کریئیٹ کرنا اور انڈیا کو رائے شماری پر مجبور کرنا مین اوبجیکٹیو تھا جس کیلئے آپریشن جبرالٹر ترتیب دیا گیا، بلیک اوپ فوجی آپریشن باقائدہ جنگ نہیں ھوتی بلکہ سویلین بھیس میں فوجی گوریلا کاروائی ھوتی ھے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کشمیر میں رائے شماری سے بچنے کیلئے انڈین پارلیمنٹ نے آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر میں گورنر راج لگانے کا اختیار ڈائریکٹ حکومتی سربراہ کو دے دیا تھا تاکہ کشمیر کو رائے شماری یا کشمیریوں کی حکومت بننے سے دور رکھا جائے، جبرالٹر کا مقصد کشمیر میں وہ بندے داخل کرنا تھا جو وھاں ایک سالانہ گیدرنگ کے موقع پر رائے شماری کیلئے عوامی دباؤ کو ھوا دے سکیں، اس آپریشن میں فوجیوں سمیت کئی ھزار تربیت یافتہ لوگ مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنے تھے، پہلے دو جتھے داخل کئے تھے کہ انڈیا کو بھنک پڑ گئی، ان دستوں میں سے کچھ لوگ پکڑے گئے جس سے آپریشن جبرالٹر لیک ھوگیا اور اسی لئے فیل بھی ھوگیا کیونکہ انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کے داخلی دروں پر پہرہ سخت کر دیا اور بھاری نفری کھڑی کر دی۔

اگست کے مہینے میں جبرالٹر کی لیکیج کے بعد انڈین فوج نے چودہ پندرہ اگست کو ایک حملہ کیا پھر ایک بھرپور حملہ اگست کے آخری ھفتے میں کیا، ان ساری کاروائیوں کا محور اکھنور، اڑی، ٹیتھوال اور کارگل تھا، ان کاروائیوں سے وہ حاجی پیر درہ پر قبضے کیلئے آٹھ کلومیٹر پاکستانی حدود میں گھس چکے تھے جس کے جواب میں آپریشن گرینڈ سَلیم لانچ کیا گیا، بریگیڈئیر چوھدری نے یکم ستمبر کو انڈین فوج کو واپس دھکیلنے کیلئے شدید آرٹلری فائر لانچ کیا اور ان کے ڈویژن ھیڈ کوارٹر کے قریب تک پہنچ گئے، یعنی بارڈر کے دوسری طرف تھوڑے فاصلے پر ان کا ھیڈ کوارٹر تھا، اس کاروائی سے گھبرا کر انڈین فوج نے ائیر اسٹرائیک کال کیا اور انڈین طیاروں نے ھمارے علاقے میں گھس کر ھماری وار مشینری پر حملہ کیا۔ بریگیڈئیر چوھدری کی یہ وہ جوابی کاروائی ھے جسے انڈیا اپنے اوپر پاکستان کا حملہ قرار دیتا ھے، انڈیا کی وار ھسٹری کے مطابق پاکستان نے انڈیا پر یکم ستمبر کو حملہ کیا تھا جس کے جواب میں انڈیا نے چھ ستمبر کو لاھور پر فل اسکیل ملٹری آپریشن لانچ کیا۔

مطالعہ پاکستان سے باھر کی تاریخ میں بھارتی عسکری مؤرخین نے آپریشن رن کچھ کا تجزیہ یوں کیا ھے ”انڈیا کے لئے یہ آپریشن ایک غلط جنگ ثابت ھوئی اور اسے ایک ایسے دشمن کا سامنا ھوا جو درست تھا“ پاکستان کے بعض تجزیہ نگاروں نے یہ تبصرہ کیا کہ بھارت، 1962ء کی چین۔بھارت جنگ کی ھزیمت کا بدلہ پاکستان سے رن آف کچھ میں لینا چاھتا تھا اور سبرامنیم نے Guilt Gen, 65 میں احمقانہ حرکتوں پر اپنوں کا خوب دل و جان سے “سدکار” کیا ھے۔ انہی کتابوں میں لکھا ھے کہ چھ ستمبر کے لاھور پر حملے کے بعد انڈیا سفارتی سطح پر دنیا میں تنہا ھوچکا تھا، یواین، افریقہ، نان۔الائینڈ اور ایشیائی ممالک میں بھی کوئی انڈیا کا ھمنوا نہیں تھا، سب انڈیا پر جنگ بندی کیلئے پریشر دے رھے تھے، پندرہ ستمبر کو شاستری نے جنرل چوھدری سے کہا اب میں مزید دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتا، مجھے حتمی طور پر بتاؤ کہ تم دو تین دن میں جنگ جیت سکتے ھو یا نہیں، جنرل چوھدری ایک ھفتے کی مہلت مانگ رھا تھا کہ پاکستان کے پاس اسلحے ختم ھونے والا ھے اور میں انہیں ایک ھفتے میں سرینڈر کرا لوں گا، تیسرے ھفتے بھی وہ یہی راگ الاپ رھا تھا کہ شاستری نے خود ھی سرینڈر کر دیا اور یواین سیکریٹری کو جنگ بندی پر اپنی رضامندی کا لیٹر بھیج دیا جسے تاریخ دان جنگ بندی کی درخواست بھی کہتے ھیں۔

انڈیا اپنے دعووں میں سچا تھا تو 10 جنوری 1966ء کو بھارت نے جس معاھدہ تاشقند پر دستخط کئے اس میں کہیں لکھوا لیتا کہ یہ جنگ پاکستان نے شروع کی تھی اور وہ جنگ ھار گیا ھے لہذا تاوان جنگ ادا کرے، جنگ اگر پاکستان نے شروع کی ھوتی تو انڈیا کے پاس اخلاقی برتری موجود ھوتی اور لاھور سیالکوٹ اور کارگل کے جن علاقوں پر وہ قابض تھا اسے یوں خالی نہ کرنے پڑتے۔ چکرورتی صاحب کہتے ھیں جنگ انڈیا نے شروع کی اور وہ بری طرح جنگ ھار گیا، انڈین فوج کا بارڈ پر جو اسلحہ موجود تھا اس میں سے صرف چودہ فیصد استعمال ھوا تھا جبکہ پاکستان کا اسی فیصد استعمال ھوچکا تھا، پاکستان کے سپاھی سے لیکر کرنل تک کے جوانوں نے بے دریغ اپنی جانیں قربان کرکے ملکی دفاع کا حق ادا کر دیا۔

آخر میں صرف دو سوال ھیں۔ پہلا یہ کہ تین ھفتوں کی جنگ لڑ کر بھی انڈیا کے پاس 86 فیصد اسلحہ بارڈر پر موجود تھا یہ اتنی بڑی تیاری دفاع کیلئے تھی یا حملے کیلئے؟ میرا کہنا ھے کہ یہ سارا اسلحہ جولائی کی ڈیپلوئےمنٹ سے تھا، آپ یہ کہہ لیجئے کہ نہیں انڈین خالی ھاتھ آئے تھے اور یہ سارا اسلحہ دوران جنگ کی سپلائی سے جمع ھوا تھا، یہ سستا سا سوال جان بوجھ کر کیا ھے تاکہ اگلا زھر آپ آسانی سے پی سکیں۔ جس آپریشن جبرالٹر کو آپ پاکستان کی غلطی گنواتے ھیں یہ اب آپ کیلئے گھبرالٹر بننے والا ھے، بلیک۔اوپ آپریشن میں اپنے بندے کسی ملک کے اندر گوریلا کاروائی کیلئے بھیجے جاتے ھیں، اگر وہ پکڑے جائیں تو بھیجنے والا انہیں اپنے بندے ماننے سے انکار کر دیتا ھے، اگر دشمن انہیں مار کر آپ کے گھر پر بھی پھینک جائے تو بھی انہیں واپس نہیں لیا جاتا تاکہ دنیا کی نظر میں صاف ستھرے رھا جائے، ایسے آپریشن کیلئے والینٹیئر کرنے والے جوانوں کی عظمت کو سلام ھے جنہیں پتا ھوتا ھے کہ لانچنگ کے بعد ھمیں اپنے ملک کیلئے لڑنا ھے لیکن ھمارے ملک والے بھی ھمیں اپنا نہیں مانیں گے نہ پہچانیں گے اور نہ ھی کوئی سفارتی سپورٹ ملے گی، نہ قیدیوں کے تبادلے میں کبھی واپسی کا امکان ھے، کسی نے مار کر دفنا دیا تو ٹھیک ھے ورنہ چیل کوے کھائیں گے۔

موغادیشو کے جنرل فرح عدید کو امریکہ نے بلیک۔اوپ آپریشن میں مارا تھا، آپریشن جیریکو بھی بلیک۔اوپ تھا، ایسا آپریشن بیشک کسی ملک کی سالمیت کے خلاف ھوتا ھے لیکن اسے فوجی ایگریشن نہیں سمجھا جاتا۔ آپریشن جبرالٹر ایک بلیک۔اُوپ تھا جسے قانونی طو پر فوجی ایگریشن تسلیم نہیں کیا جا سکتا، کلبھوشن یادیوو بھی بلیک۔اُوپ تھا، اسے بھی فوجی ایگریشن تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اگر پاکستان کے منہ پر کالک ملنے کیلئے آپ جبرالٹر سے شروع کرنا چاھتے ھیں تو شوق سے کیجئے، جبرالٹر کے جواب میں آپ انڈیا کو لاھور پہ حملے کا حق دینا قرین انصاف سمجھتے ھیں تو پھر برائے مہربانی کلبھوشن۔یادیوو۔کانڈ کے جواب میں پاک فوج کو بھی دھلی پر فل اسکیل ملٹری ایگریشن کا حق دے کر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔

میرے ابا جی سمیت کئی قریبی لوگ چھمب، جوڑیاں، کھیم کرن اور چونڈہ کے غازی تھے۔ ھم نے جنگ ستمبر کے غازیوں کی گود میں کھیلا ھے، آپ ھمارے سامنے معاشرتی علوم سے پاکستان کے منہ پر کالک ملنے چلیں گے تو ایک سپاھی سے لیکر بریگیڈئیر شامی شہید تک قسم ھے ان سپوتوں کی جو ملک پر اپنی جانیں وار گئے، ھم دشمن کے گھر کی گواھیاں اور ان کی انتڑیوں میں چھپے ھوئے راز تک کھوج کر آپ کے سامنے رکھ دیں گے، یہ مشرتیالوم نہیں بلکہ شرطیہ علوم ھیں۔

بلبل غزل سرائی آگے ھمارے مت کر

سب ھم سے سیکھتے ھیں انداز گفتگو کا

آخر میں صرف اتنی عرض “دانشور و محقق” کے نام، بیشک جنگی جنون تباھی لاتا ھے مگر لاتا ان کے گھر پہ ھے جو اپنے دفاع سے غافل ھوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔ ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دی لاسٹ بُلٹ ۔۔۔۔۔۔ لالہ صحرائی

  1. تحریر عمدہ ہے، مگر اقتباسات کی صورت میں پیش کی گئی ہے۔ ایسے موضوعات کو قسط وار چلنا چاہئے، مکمل حوالوں کے ساتھ ۔ بجائے اس کے کہ آرٹیکل کی طوالت سے بچنے کیلئے wind-up کر دیا جائے , کئی اہم اور دلچسپ نکات کو قربان کر دیا جائے۔

Leave a Reply