وہ اپنی تہذیب اور اپنی روایات پر نازاں تھی‘ اپنی روشن خیالی اور سلیقہ مندی پر فخر کیا کرتی تھی‘ اس کو اپنی نسلی برتری اور اپنے ادب پر اتنا ناز تھا کہ وہ اپنے مقابلہ میں دنیا کی تمام قوموں کو تہذیب سے ناواقف‘ خاندانی بڑائی سے محروم‘ ایسی جاہل اور نابلد سمجھتی تھی کہ ان کو بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے۔ یہ قوم اپنے آپ کو ”عرب“ کہتی تھی یعنی خالص النسب‘ صاف اور واضح کلام کرنے والے اور تمام دنیا کو ”عجم“ کہا کرتی تھی یعنی گونگے جو دل کی بات کو صفائی سے نہ بیان کر سکیں اور ”عجماوات“ یعنی مویشیوں کی طرح ہوں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پھر اس مغرور اور متکبرّ قوم نے خود اپنی خوشی سے گردن جھکائی اور ساتھ ہی دل بھی جھک گئے اور ایسے جھکے کہ وہ خود بھی اپنے دور ماضی سے نفرت کرنے لگے اور جس تہذیب‘ ادب اور علم پر وہ ناز کرتے تھے اس کو وحشت اور جہل کہنے لگے۔
دستیاب تاریخ کے مطابق زمانہ جاہلیت یا قبل از اسلام عربی معاشرہ میں سخاوت‘ بہادری‘ خود اعتمادی‘ غیرت و حمیت‘ خود داری‘ روایات کی حفاظت‘ عہد اور قول کی پابندی‘ عہد شکنی اور غلط بیانی سے نفرت جیسے اوصاف پائے جاتے تھے۔ سخاوت کے یہ معانی نہیں کہ پیٹ بھرنے پر کچھ نوالے کسی فقیر کو دے دیئے جائیں بلکہ سخاوت کا یہ مطلب مانا جاتا ہے کہ جذبہ یہ ہو کہ بندہ خود بھوکا رہے اور دوسرے کو شکم سیر کرے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایک معمولی عرب جسکی کل ملکیت ایک اونٹنی ہو‘ وہی اس کی مزدوری کا ذریعہ اور وہی اس کی زندگی کا سہارا ہو‘ اگر اس کے یہاں مہمان آ جائے تو اگرچہ گوشت کے چند ٹکڑوں اور کسی مشروب سے وہ اس کی خاطر کر سکتا تھا مگر اس کا حوصلہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس معمولی مدارت پر کفایت کرے‘ وہ اپنی اونٹنی ذبح کر ڈالتا‘ گوشت کے بہترین ٹکڑوں سے اس کی مدارت کرتا اور اگرچہ وہ اپناسب کچھ قربان کر چکا ہوتا مگر وہ خوش ہوتا کہ اس نے مہمان کی خدمت کرنے میں حوصلہ سے کام لیا۔
کہتے ہیں کہ قبیلہ طے کا سردار ”حاتم“ سخاوت میں مشہور تھا‘ وہ صرف دو چیزیں محفوظ رکھتا تھا اور باقی سب کچھ بخش دیا کرتا تھا گھوڑا اور اسلحہ مگر موسم سرما میں ایک روز ایسا ہوا کہ وہ تہی دست تھا اس کے یہاں فاقہ تھا‘ رات ہوئی تو بچوں کو بھوکے پیٹ کسی طرح لوری دے کر اور تھپک تھپک کر سلا دیا مگر جب بچے سو چکے تو خیمہ کا ایک کنارہ اٹھا اور ایک عورت اپنے بچے ساتھ لیے ہوئے خیمہ میں داخل ہوئی اور حاتم سے فریاد کی کہ وہ خود بھی بھوکی ہے‘ بچے بھی بھوک سے تڑپ رہے ہیں‘ رات آدھی ہو رہی ہے مگر بھوک کی وجہ سے اس کو نیند آتی ہے نہ بچوں کو۔ ابھی عورت کے یہ الفاظ پورے نہیں ہوئے تھے کہ حاتم اٹھا‘ چھری ہاتھ میں لی اور اپنے محبوب گھوڑے کو ذبح کر ڈالا‘ پھر آگ جلائی اور چھری اس عورت کو دے دی کہ گوشت کے ٹکڑے کاٹے اور خود کھائے اور بچوں کا پیٹ بھرے‘ پھر حاتم اپنے خیمے سے نکلا اور قریب و جوار کے تمام غریب لوگوں میں گھوم آیا کہ گھوڑا ذبح ہوا ہے چلو گوشت کھاؤ چنانچہ آس پاس کے تمام لوگ آ گئے۔ حاتم کی بیوی کا بیان ہے کہ تھوڑی دیر میں گوشت ختم ہو گیا‘ صرف ہڈیاں باقی رہ گئیں اور حاتم اور اس کی بیوی اور بچے جیسے پہلے بھوکے تھے اب بھی بھوکے رہے‘ کسی کو ایک بوٹی بھی نصیب نہیں ہوئی۔
پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا‘ ترجمہ: ”خدا شاہد ہے ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا‘ کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ناکام کر دے‘ آپ کی مدد نہ کرے‘ آپ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں‘ ان کی مدد کرتے رہتے ہیں‘ ہارے‘ تھکے‘ درماندہ مسافروں کے لیے سواری کا انتظام کرتے ہیں‘ ان کو منزل تک پہنچاتے ہیں‘ آپ ایسے احسانات کرتے ہیں اور ایسی خدمات انجام دیتے ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی‘ جو دوسری جگہ قطعاََ نایاب ہیں‘ باہر کے مسافر جو بے ٹھکانا ہوتے ہیں آپ ان کو اپنا مہمان بناتے ہیں‘ برپا ہونے والے ہنگاموں اور ناگہانی حوادث میں آپ حق کی حمایت کرتے ہیں“۔ ایک موقع پر آپﷺ نے اس طرح فرمایا ہو گا کہ ”جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے مہمانوں کی خاطر داری کریں“۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”جو لوگ اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر کریں۔ پہلا دن انعام و عطیہ کا دن ہے جس میں مہمان کو عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا چاہیے‘ اور مہمانی تین دن تک ہے(یعنی دوسرے اور تیسرے دن اس کی مہمانی میں تکلف کرنا اخلاقاََ ضروری نہیں)‘ اس کے بعد جو کچھ وہ کرے گاوہ اس کے لیے صدقہ ہو گا۔ اور مہمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے میزبان کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو ضیق اور پریشانی میں مبتلا کر دے“۔اس حدیث میں میزبان اور مہمان دونوں کو ہدایت دی گئی ہے‘ میزبان کو اس بات کی کہ وہ اپنے مہمان کی خاطر کرے۔ خاطر کرنے کا مطلب صرف کھلا پلا دینا نہیں ہے بلکہ ہنس کر بولنا‘ خندہ پیشانی سے پیش آنا سبھی کچھ مراد ہے۔ اور مہمان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کسی کے یہاں بطور مہمان کے جائے تو وہیں دھرنا مار کر بیٹھ نہ جائے کہ اس سے میزبان پریشانی میں پڑھ جائے۔مسلم کی ایک روایت اس حدیث کی اچھی طرح تشریح کرتی ہے‘ جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پاس قیام کرے یہاں تک کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کر دے‘ لوگوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! وہ کس طرح اس کو پریشانی میں مبتلا کر دے گا۔ تو آپ نے فرمایا‘ اس طرح کہ یہ وہیں اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس میزبانی کے لیے کچھ نہ ہو“۔
حوالہ جات: سیرت مبارکہ محمد رسول اللہﷺ از سیّد محمد میاں صاحب
راہِ عمل از مولٰنا جلیل احسن ندوی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں