لفظ کا استغاثہ ۔ احمد العباد

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں کہ ہماری بنیاد بے وقعت ٹھہری اور پائمال ہوئی۔ ہمارا شرف “لفظ” بے آسرا ہو گیا۔ دریغا کہ میں “لفظ” کی بے وقعتی کا نوحہ گر ہوں۔ صاحب بات یہ ہے کہ جب خدا نے کائنات کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اپنے امر سے اسے پیدا فرمایا۔ اس امر ربی کا اظہار لفظ “کن” کی صورت میں ہوا۔ ممکن ہے، یہ “کن” تفہیم انسانی کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔ خداوند قادر مطلق کو بھلا “لفظ” کے سہارے کی کیا ضرورت۔ لیکن انسان کی تفہیم کے لئے اس امر کو ایک لفظ میں سمو دیا گیا “کن” یہ “لفظ” کی سب سے اعلی سب سے ارفع صورت ہے جس کو کائنات کی تخلیق میں کلیدی کردار حاصل ہے۔

یہاں ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے جو اس بحث میں بہت اہم ہے۔ یہ “کن” اس لئے سب سے ارفع سب سے اعلی ہے کہ اس کا مآخذ سب سے اعلی ہے۔ لفظ کا خالق، نطق کا خالق، اصوات کا خالق کائنات کی تخلیق کے ایک مرحلے میں باری تعالی نے جب بطور اشرف المخلوقات حضرت انسان کی تجسیم کی اور اسے پیدا فرمایا تو اس کا مابہ الامتیاز وصف بھی ”لفظ” ہی ٹھہرا۔ اصوات اور لفظ تو موجود تھے۔ جنات اور فرشتے کلام کیا کرتے تھے اور تسبیح ادا کیا کرتے تھے جو انسان سے پہلے موجود تھے۔ پھر انسان کو عطا کئے گئے “لفظ” میں کیا خصوصیت تھی۔ میری سمجھ کی حد تک بات یہ ہے کہ انسان کو جو “لفظ” عطا کیا گیا وہ جنات کو عطا کئے گئے “لفظ” سے زیادہ ارفع و اعلی تھا۔ اس خیال کی بنا اس بات پر ہے کہ جنات اپنی اثر پذیری کے لئے الفاظ کے محتاج نہیں۔ شیطان اس کی ایک مثال ہے۔ بر خلاف اس کے ،انسان انھی جنات پر تصرف پانے کے لئے “الفاظ” کا سہارا لیتا ہے۔ شیطان کے اثرات بد سے بچنے کے لئے قرآن کے الفاظ، شیاطین کی امداد حاصل کرنے کے لئے منتر کے شیطانی الفاظ۔ حضرت انسان کو “لفظ” کا یہ شرف صرف شیاطین پر ہی عطا نہ کیا گیا۔ بلکہ ان کے “لفظ” کو قدسیوں کے “لفظ” پر بھی ٖفضیلت دی گئی۔ اسی “لفظ” کی بدولت فرشتوں کو آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم ہوا کہ آدم کو جو علم الاسماء عطا کیا گیا اسی سے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت کی گئی۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انسانوں اور فرشتوں کو جو “لفظ”عطا کیا گیا ہے ان میں فرق کیا ہے۔ کس بنیاد پر انسان کو عطا کیا گیا “لفظ” ہمہ دم مصروف تحمید و تسبیح ملائکہ کو عطا کئے گئے “لفظ” پر مقدم قرار دیا گیا۔

کیا اصوات کی مختلف مخارج سے ادائیگی کے علاوہ بھی لفظ کا کوئی وجود ہے یا آپ یوں کہہ لیں کہ “لفظ” کا جوہر مخارج کے علاوہ کیا کچھ اور شئے ہے۔ یہیں سے لفظ میں ایک اور جہت کارفرما ہو جاتی ہے اور وہ ہے “صاحب لفظ”۔ یہی صاحب لفظ کا فرق “لفظ” کی معنویت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آدم چونکہ اپنی صلب میں انسانی نسل کا سرچشمہ لئے ہوئے تھے سو ان کو عطا کیا گیا “لفظ” پوری انسانیت کے جمیع شرف کے برابر ٹھہرا۔ انسان کو عطا کیا گیا یہ “لفظ” اس کا شرف بھی بنا اور طاقت بھی۔ اس نے انسان کی ہر طرح سے کفالت کی۔ اس کا ذریعۂ اظہار بنا۔ اس کا وسیلۂ روزگار بنا۔ اس کی روح کی تسکین کا سامان کیا، اس کی جسم کی نشاط انگیزیوں کا انتظام کیا۔ اس کی خواہشات کو اپنے اندر سمویا، اس کی حسرتوں کو موتیوں میں پرویا۔ انسان نے لفظ کو مختلف صورتوں میں اپنی ضروریات، افتاد طبع اور مزاج کے مطابق ڈھالا۔ مختلف مواقع کے لئے مختلف الفاظ مقرر کئے۔ “لفظ” نے آدم کے المیے کا بار اٹھایا۔ “لفظ” نے آدم کی شکر گزاری اور ندامت دونوں موقع پر دستگیری کی۔ “لفظ” ماتم میں بھی کام آئے، “لفظ” شادمانی میں بھی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ ہر انسان ہر دور میں لفظ کا محتاج رہا۔ آپ پہلے انسان سے لے کر آخری انسان تک سوچئے۔ اپنی ادنی سے ادنی ضرورت کے لئے اور ارفع سے ارفع مقصد کے حصول کے لئے انسان کسی بھی لمحے “لفظ” کی قوت سے مستغنی نہ ہو سکا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔

 ان سب کارگزاریوں کے دوران “لفظ” اور “صاحب لفظ” کا جو تعلق سامنے آتا ہے وہ یک رخا نہیں ہے بلکہ باہمی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں۔ اس رشتے میں بھی ہر باہمی تعلق کی طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان نے “لفظ” کو کیا دیا یا “لفظ” کے ساتھ کیا کیا اور “لفظ” نے انسان کے ساتھ کیا کیا یا اسے کیا عطا کیا۔ سچ بات یہ ہے کہ لفظ اس معاملے میں بڑے ہوشیار، سخت جان اور تہہ دار نکلے۔ “لفظ” کی دانائی و بینائی دیکھ کر حضرت انسان اپنی عقل سمیت حیران رہ جاتا ہے۔ ہم پہلے نسبتاً آسان بات کو لے لیتے ہیں۔ انسان نے گو کہ “لفظ” سے شرف پایا مگر انسان کو اس کے علاوہ بھی کچھ “غیر لفظی” جسمانی اور روحانی یا نفسانی سرگرمیوں کی ضرورت تھی اور ناگزیر ضرورت تھی۔ ان سب سرگرمیوں کے اثرات اس کے وجود مادی و روحانی، انفرادی و اجتماعی پر ثبت ہوتے رہے۔ چونکہ یہ سرگرمیاں “صاحب لفظ” کی ذات سے منسلک تھیں سو انھی سرگرمیوں کا پرتو “لفظ” پر بھی پڑتا رہا۔ اسی وجہ سے “لفظ” پہ عجیب دور وارد ہوئے۔ “لفظ” کبھی پائمال ٹھہرا۔ کبھی ارجمند ہوا۔ کبھی “لفظ” کی جگالی کی گئی، کبھی “لفظ” کو خونِ دل دے کر سینچا گیا۔ کبھی “لفظ” غزل بنا، کبھی ہزل، کبھی گالی، کبھی ہجو، کبھی مرثیہ، کبھی سہرا، کبھی منتر۔ “لفظ” نے فلسفے کا بار اٹھایا، اخلاقیات کی ترویج میں کام آیا، فرامین ظلم و جبر کا آلۂ کار بنا، نقابت حق کا فرض سرانجام دیا۔ ان سب ادوار اور صورتوں میں لفظ پر دوبارہ جو “دور کن” کے بعد عظیم ادوار آئے وہ “لفظ” کے کلام الہی کی ترسیل کے لئے منتخب ہونے کے ادوار تھے۔ یہ ادوار لفظ کی معراج ٹھہرے۔ یہ صورت گو کہ خدا کی خود مقرر کردہ تھی مگر اس میں ان اشخاص کی شخصیت کا بڑا عمل دخل رہا جن کو “لفظ” کی یہ صورت عطا ہوئی اور انھوں نے اس صورت کو اپنی “غیر لفظی” زندگی میں خوبی سے برتا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا انسان اپنی “غیر لفظی” سرگرمیوں کے زیر اثر “لفظ” کے ساتھ مختلف سلوک کرتا رہا، “لفظ” مختلف نتائج دیتا رہا اور مختلف سوانگ بھرتا رہا۔

جب تک یہ سرگرمیاں مثبت رہیں تب تک “صاحب لفظ” کی شخصیت میں بھی مثبت تبدیلیاں آتی گئیں اور نتیجتاً “لفظ” بھی نکھرتا گیا۔ لیکن جب انسان ان سرگرمیوں میں بہک گیا اور راہ حق گم کر دی تو “صاحب لفظ” نے “لفظ” کا وقار بھی پس پشت ڈال دیا۔ اسی “لفظ” سے ترویج شر کا کام لیا۔ یہی “لفظ” فساد کی جڑ بنا۔ ذرا تصور کیجئے۔ “لفظ” جو کہ خداوند کائنات نے انسان کو بطور عزت و شرف کے بخشا تھا انسان نے راہ اعتدال سے ہٹنے کے بعد اس کا کیا حال کیا۔

آپ سوچتے ہوں گے یہ کیا میں نے گونگوں کے خلاف مقدمہ لڑنے کے لئے “لفظ” کی اہمیت پر اتنا زور دیا۔ ظاہر ہے، ہم سب بولتے ہیں اور لفظ کے سہارے آواز کی مدد سے بولتے ہیں۔ ہم لکھتے ہیں اور لفظ کے سہارے انگلیوں سے لکھتے اور آنکھوں سے پڑھتے ہیں۔ پھر یہ “لفظ” کی اتنی تکرار، چہ معنی دارد؟ بات یہ ہے کہ اگر “لفظ” انسان کی زندگی میں اتنی ہی کلیدی اہمیت کا حامل کردار ہے، اس کو اتنا شرف حاصل ہے اور اس کو اتنی طاقت حاصل ہے تو کیا کبھی “لفظ” کی اس طاقت کو سمجھا بھی جائے گا کہ نہیں۔ ان “غیر لفظی” سرگرمیوں اور “لفظ” کے ربط پر نگاہ کی جائے گی کہ نہیں۔ کیا “لفظ” کو اس کا جائز مقام دیا جائے گا کہ نہیں۔ آپ مانتے ہیں کہ لفظ زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

پہلے سے جاری بحث کی روشنی میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ “لفظ” کے ساتھ جو بھی سلوک ہوگا اس کا لازمی اثر ہماری زندگیوں میں ظاہر ہوگا۔ یا آپ یہ کہہ لیں کہ “لفظ” کو جو مقام ہم دیں گے، “لفظ” اسی مناسبت سے ہماری زندگیوں کی تشکیل کرتا چلا جائے گا۔ یہی ہوتا آیا ہے، یہی ہو رہا ہے اور یہی ہوگا۔ آپ کسی بھی انسان، کسی بھی معاشرے کو دیکھ لیجئے۔ جیسا سلوک “لفظ” کے ساتھ روا رکھا گیا ویسی شخصیتیں اور ویسے معاشرے ظہور پذیر ہوتے رہے۔ معاشرہ فلسفے کے “لفظ” پر پنپتا رہا تو یونان کی تہذیب وجود میں آئی۔ معاشرہ منتر کے “لفظ” پر استوار ہوتا رہا تو بابل کے نقوش تاریخ کے صفحوں پر یادگار بنے۔ معاشرہ ظلم اور قہر کے “لفظ” کی پرورش کرتا رہا تو تاتاریوں کے قدم تاریخ کے دالان پر اپنی خون آلود چھاپ چھوڑ گئے۔ معاشرہ رقص و سرود کے “لفظ” کی عظمت کے گن گانے لگا تو زوال نے اس معاشرے کا خیر مقدم کیا۔ معاشرہ سائنس کے “لفظ” کی بنا پر اپنی تربیت کرتا رہا تو انسان نے کائنات کی تسخیر کا کارنامہ انجام دیا اور فطرت کی قوتوں کو اپنے تصرف میں لے آیا۔ معاشرہ کلام الہی کے “لفظ” کی تعبیرات پر اپنے وجود کی تعمیر کا علم بردار ہوا تو وہ مدنی معاشرہ وجود میں آیا جس کی تابناکیاں آج تک مینارۂ نور بن کر بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھانے کا کام کر رہی ہیں ۔ یہی معاملہ شخصیتوں کے ساتھ بھی رہا۔ یا تو شخصیتوں کو اس سلوک نے رفعت بخشی جو انھوں نے “لفظ” کے ساتھ روا رکھا یا پھر “لفظ” نے جن شخصیتوں کی “غیر لفظی” سرگرمیوں پر نظر کرم ڈالی وہی امر ہوئے اور سرچشمۂ خیر ٹھہرے۔ “لفظ” کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک رویوں کا عکاس بھی ہوتا ہے اور “لفظ” رویوں کی تہذیب بھی کرتا ہے۔

“لفظ” تطہیر نفس کا مظہر بھی ہوتا ہے اور تزکیۂ نفس میں ممد بھی ثابت ہوتا ہے۔ لفظ کی بنیاد پر استوار کئے گئے مہذب رویوں اور سلیقہ مند معاشروں کو جب کسی قدم پر مشکل پیش آتی ہے تو وہ “لفظ” ہی سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کو عمومی زبان میں مکالمہ یا مباحثہ یا مناظرہ کہتے ہیں۔ “لفظ” کی یہ صورت انسان کو مشکلوں سے نکالنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ یہ انسان کی الجھنوں کو رفع کرنے کا بہترین حل ہے۔ یہ خیالات، ارادوں اور منصوبوں کی ترویج اور تفہیم کا بھی اہم حصہ ہے۔ یہ عمل ہر دور کے انسانی معاشرے میں کسی نہ کسی حد تک دخیل رہا۔ لیکن جیسا کہ عرض کر چکا، معاشرے کی اٹھان اور تعمیر جس طرز پر ہوئی ہو وہی طرز اور وہی مزاج اس عمل پر بھی اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ جن معاشروں کی بنا اچھے الفاظ پر پڑی تھی وہاں یہ عمل معاشرے کی ترقی کا باعث بنا۔ مباحث سے الجھنیں دور کرنے کی سعی ہوئی، ذہنوں کا دائرہ وسیع ہوا، سوچ کے نئے افق اور زاویے نمودار ہوئے، راستے کی دشواریاں ہٹیں، منزلیں واضح ہوئیں، اور یوں “لفظ” ہی کی ایک صورت نے انسان کی راہنمائی کی، اسے گرداب سے نکالا اور رفعتوں کا مالک بنایا۔ اس کی ذہنی اور فکری آشفتہ سری کا درماں ٹھہرا، اس کی معاشرتی، سماجی اور معاشی الجھنوں میں رہنمائی کی۔ اس کے مقابلے میں جن معاشروں کی تعمیر لفظ کی ناپسندیدہ صورتوں پر ہوئی ان معاشروں میں مجادلے مسائل کا حل ٹھہرے۔ کشت و خون کے بازار گرم کئے گئے۔ فکری اور روحانی پریشان حالی نے زندگی اجیرن کر دی۔ اخلاقی، سماجی اور معاشرتی انحطاط نے انسان کو انسان کہلانے لائق نہ چھوڑا۔ یہی وہ چیز تھی جس کے متعلق شروع بحث میں عرض کیا کہ لفظ بڑے تہہ دار، سخت جان، ہوشیار، دانا و بینا ہوتے ہیں۔ انسان جیسا الفاظ کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے ویسا برتاؤ الفاظ اس کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بھولتے نہیں۔ ۔ یہ کوئی حساب کوئی کھاتہ چکتا کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔ یہ ہر کسی کو اپنی تہہ میں اترنے نہیں دیتے۔ یہ ہوشیار ہوتے ہیں پر مکار نہیں۔ یہ نرم دل ہوتے ہیں پر احمق نہیں۔ یہ امن پسند ہوتے ہیں پر مصلحت پسند نہیں۔ اس کے برتنے والے اس کے ساتھ جیسا سلوک کرتے ہیں یہ وہی سلوک ان کے ساتھ کرتے ہیں اور جس طریقے سے ان کے ساتھ سلوک ہوتا ہے اس سے دو ہاتھ بڑھ کے جزا دیتے ہیں۔ یہ خود کچھ نہیں کرتے۔ صاحب لفظ کے سلوک اور رویے کے حساب سے ہی صاحب لفظ سے پیش آتے ہیں۔ یہ رشتہ ایسا ہی تھا، ہے اور رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر دور میں ہر معاشرے کو اچھے “لفظ” اور اچھے “صاحبان لفظ” کی ضرورت رہی اور ان کے بغیر معاشرے اپنا وجود تا دیر قائم نہیں رکھ سکتے۔ انھی “صاحبان لفظ” کی “غیر لفظی” سرگرمیاں “لفظ” کی صورت گری پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان غیر لفظی سرگرمیوں کا “لفظ” کے لہجے پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ آپ اگر راہ اعتدال پر رہیں گے، مثبت سرگرمیوں میں مصروف رہیں تو “لفظ” کا لہجہ بھی مثبت اور تعمیری ہوگا ورنہ جلد یا دیر سے معاشرہ اپنی بنیاد پر ہی ڈھے جائے گا۔ آئیں “لفظ” کی قدر کریں۔ “لفظ” کو مثبت طور سے برتیں، آئیں “لفظ” کی حرمت کا عہد کریں۔ لفظ کی تکریم کریں۔ سماعتوں کے دریچوں سے ناشائستہ الفاظ کی میل نکالیں اور زبانوں پر چڑھے ہوئے زہر آنگیں الفاظ کے غلاف اتار پھینکیں۔ یہ نہ ہو کہ “لفظ” اپنے معنی ہم سے چھپا لے، یہ نہ ہو، “لفظ” کھوکھلے ہوجائیں۔ آوازوں کی شناخت گم ہو جائے، اور لہجے بے نشاں ہو جائیں۔ لفظ کی پرکھ پیدا کریں۔ اچھے لفظ ڈھونڈیں ۔ اچھی ترکیب برتیں اور شائستہ لہجے اور رویے سے خود کو مزین کریں۔ لفظ کے اچھے معنی اختیار کریں اور لفظ پر برے معانی کا بوجھ نہ ڈالیں۔ ان الفاظ پر اپنے معاشرے اور ذات کی تعمیر کریں۔ خود کو اچھے الفاظ کا اہل بنائیں۔ منفی سرگرمیوں سے اپنے الفاظ کا وقار مجروح نہ کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”لفظ کا استغاثہ ۔ احمد العباد

Leave a Reply