جماعت اسلامی اور اس کے امراء۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی

جماعت اسلامی اپنے ہر امیر کے دور میں ایک الگ رنگ روپ میں رہی ہے۔ ایسا پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اپنے موجودہ امیر سراج الحق کے دور میں یہ کوئی روپ اختیار کرنے میں ناکام جا رہی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا موجودہ جماعت اسلامی نہ تو پچھلے تجربات کی طرف لوٹ رہی ہے اور نہ ہی کوئی نیا تجربہ کرنے کا کوئی اشارہ دے رہی ہے۔ اپنے موجودہ امیر کے دور میں جماعت نے شائد فقط زندہ رہنے پر گزارہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو سیاست میں موت کی طرف بتدریج سفر کا دوسرا نام ہوتا ہے کیونکہ سیاست میں جمود کی کوئی گجائش نہیں ہوتی۔ اگر ہم صحیح یا غلط سے قطع نظر کرکے بھی دیکھیں تو جماعت کے سابق امراء اپنے ادوار میں نئے تجربات کرتے ضرور نظر آتے ہیں۔ مثلا:

(01) مولانا ابوالاعلیٰ مودودی

جماعت اسلامی کے یہ بانی امیر ان لوگوں میں سے ہیں جو صدیوں جیتے ہیں۔ ایک بڑا مذہبی لیجنڈ۔ وہ جدید عہد کے پہلے مذہبی رہنماء ہیں جنہوں نے فقط اپنی ہی تقریر یا تحریر کے سحر میں لوگوں کو مبتلا رکھنے کے بجائے اپنے جیسے لوگ تیار کرنے پر توجہ مرکوز رکھی اور یہ انہی کا فیض تھا کہ آگے چل کر مضبوط علمی بنیادیں رکھنے والے ایسے درجنوں رائٹ ونگ دانشور و مصنف سامنے آئے جنہوں نے ذاتی حیثیت میں بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ مولانا کے تیار کردہ رائٹرز ہی تھے جو ایک زمانے میں لیفٹ کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوتے رہے اور جنہوں نے فکری مباحثوں کی مدد سے پاکستان میں کمیونزم کی راہیں مسدود رکھیں۔ مولانا مودودی کے دور کی جماعت اسلامی “تعلیم و تربیت” کے بے مثال عنوان سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

(02) میاں طفیل محمد

مساجد پر قبضے اور تعلیمی اداروں میں تشدد متعارف کرانے کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کلاشنکوف کلچر متعارف کرانا انہی کا کارنامہ ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ جماعت صرف دیوبندی مکتب فکر کی مساجد پر قبضے کیا کرتی تھی جس کی وجہ شائد یہ تھی کہ دیوبندیوں نے مولانا مودودی کی فکر کو بہت شدت کے ساتھ چیلنج کر رکھا تھا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں میاں طفیل محمد کی امارت کے دوران ہر دیوبندی امام مسجد جماعت اسلامی کے افراد سے اذیت میں مبتلا رہا جبکہ تعلیمی اداروں میں نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ کی کلاشنکوفوں سے سہمے رہتے اور اسی کے رد عمل میں ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی۔ ان کے دور کی جماعت اسلامی کا ذکر خود سنجیدہ جماعتیے بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔

(03) قاضی حسین احمد

عمر کے آخری حصے میں کوئی نیکی کام آ گئی کہ دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ اپنے ہی نہیں غیر بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور تھے ورنہ امارت کے پہلے نصف میں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کو اس کی اصل شناخت سے محروم کرنا وہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے جو جماعت کو انہوں نے پہنچایا۔ وہ جماعت کو عوامی جماعت تو نہ بنا سکے لیکن اسے اس کی اصل شناخت سے ضرور محروم کردیا۔ وہ جماعت اسلامی جو گلی گلی “درس قرآن” کی مجالس سے پہچانی جاتی تھی، قاضی صاحب کے دور میں جنید جمشید کے نغموں پر تھرکنے کے لئے سڑکوں پر آگئی اور درس قرآن کی مجالس ہمیشہ کے لئے اجڑ گئیں۔ امارت کے اس ابتدائی نصف میں ہی وہ اقتدار کے لئے آج کے عمران خان جیسی بے قراری دکھاتے نظر آئے۔ ان کا “ظالمو ! قاضی آرہا ہے !” پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا لطیفہ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بڑے لیڈر تھے جس کا ثبوت ان کی آمارت کا آخری نصف ہے جو انہوں نے منتشر مذہبی اکائیوں کو قریب لانے کے لئے وقف رکھا اور اس حوالے سے وہ اتنا بڑا کام کر گئے ہیں کہ اب شائد ہی مذہبی جماعتوں کو آپس میں لڑایا جا سکے۔ مولانا مودودی کی متنازع عبارات سے جماعت اسلامی کی جان چھڑانا ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس نے دیوبندی مکتب فکر سے جماعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈے کی وجہ چھین لی اور دیوبندیوں کے جماعت اسلامی کے قریب آنے کا امکان پیدا کردیا جو انہی کی زندگی میں حقیقت بھی بن گیا۔

(04) سید منور حسن

ایک ایسا بوڑھا شخص جو کبھی بھی اپنے دورِ طالب علمی کے سحر سے نہ نکل سکا۔ وہ جماعت اسلامی کے سب سے پر شکوہ خطیب تھے، جب بولتے تو فصاحت و بلاغت سے بھی بسا اوقات آگے نکل جاتے اور خطیب کبھی بھی اچھا لیڈر نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی کے سب سے ناکام امیر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

(05) سراج الحق

گمان تھا کہ انہیں پٹھان ہونے کی وجہ سے “لالہ” کہا جاتا ہے مگر یہ تو سیاست کے ہی لالہ ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ پشتو میں لالہ بدھو کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اب تک جماعت اسلامی کو کوئی نئی سوچ یا نئی فکر یا پرانی سوچ کے ساتھ کوئی نیا رخ نہیں دے سکے۔ یہ انہی نعروں سے چمٹے چلے جا رہے ہیں جو پچھلے تیس چالیس سال میں سب سے زیادہ گھس پٹ چکے۔ اگر سیاست میں بھی لوگ اپنے ساتھیوں سے پہچانے جاتے ہیں تو لالہ کا عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید سے پہچانا جانا جماعت اسلامی کے لئے ماتم کا لمحہ ہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کی تاریخ کے سب سے کامیاب ناظم اعلی رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ جماعت اسلامی کے امیر کے طور پر ان کا قد نمو کیوں نہیں پا رہا ؟ اگر وہ کچھ نیا نہیں سوچ سکتے تو مولانا مودودی کی جماعت کو اس کی حقیقی شناخت ہی لوٹا دیں۔ مولانا مودودی کے تیار کردہ ممتاز اصحاب علم و قلم میں سے اب بس چند ہی زندہ رھ گئے ہیں اور ان کی جگہ لینے کے لئے کوئی سیکنڈ جنریشن قاضی صاحب کی حکمت عملی کی برکت سے آج موجود نہیں۔ آج کی جماعت اسلامی بس اتنے ہی نوجوان تیار کرتی ہے جو منصورہ میں بیٹھ کر جماعت کا سوشل میڈیا پر “دفاع” کر سکیں۔ جماعت کا دین کی دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت والا کام مکمل طور پر ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر سراج الحق اس کا احیا کردیں تو تاریخ انہیں اچھے لفظوں میں یاد رکھ سکتی ہے ورنہ عمران خان کے ٹرک کی بتی انہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔

“مکالمہ” کا مضمون میں پیش کئیے گئے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

(رعایت اللہ فاروقی دو دہائیوں سے پیشہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ فیس بک پر ایک وسیع حلقہ رکھتے ہیں اور اکثر نوجوان لکھاریوں کی عملی تربیت فرماتے ہیں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 13 تبصرے برائے تحریر ”جماعت اسلامی اور اس کے امراء۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی

  1. جماعت اسلامی کے امرا کے حوالے سے منفرد تجزیہ ہے۔ جزوی نکات سے اختلاف ضرور ہے جیسے اسلامی جمعیت طلبہ اور کلاشنکوف کلچر۔۔ یونیورسٹیز کے اندر سے اسلحہ کے خاتمے کی سب سے پہلے ازخود اور سنجیدہ ترین کوشش خود جمعیت نے کی جو کامیاب ہوئی۔ اگر کہیں کوئی واقعات ہوئے بھی تو انکی حیثیت انفرادی اور مخصوص پس منظر ہو سکتا ہے کیونکہ جمعیت نے بھی اپنے جوان کھوئے ہیں۔ کہیں اےپی ایم ایس او سے اور کہیں پی ایس ایف ،ایم ایس ایف اور انقلابی کونسل کے ہاتھوں۔ المیہ یہی رہا ہے ضیاءالحق کے دور میں طلبہ یونین کا خاتمہ کر کے مکالمے کی راہیں مسدود کی گئیں جس سے تشدد کا ماحول پروان چڑھا۔ اس ماحول میں پاکستانی نوجوان کا نقصان ہوا وہ چاہے جمعیت کا ہو یا کسی دوسری تنظیم کا۔ دراصل پاکستان نے اپنے بیٹے کھوئے۔ میاں طفیل صاحب کے دور ہی کا تضاد تھا کہ یونین پر پابندی کی سزا جمعیت بھگت رہی تھی۔ کوڑے اور سزائیں، فوجی عدالتوں میں پیشیاں یہ سب رائٹ ونگ کی طلبہ تنظیم کے ساتھ بھی ہو ا ہے۔ اگرچہ جماعت آٹھ ماہ ضیا کابینہ کا حصہ رہی مگر جمعیت پر مصیبت نہیں ٹلی۔
    مجموعی طور پر تجزیہ کے دیگر پہلو بہت قابل غور ہیں۔ جیسے ایک صاحب نے کمنٹ فرمایا کہ جماعت کے لوگ تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کریں تو تحریر چشم کشا ہو سکتی ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ خود کو دوسروں کی نظر سے دیکھتے ہوئے اپنی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ محترم فاروقی صاحب کے ہم شکرگزار ہیں کہ آئینہ فراہم کیا۔
    رہی بات قاضی صاحب اور منور صاحب کی تو دونوں شخصیات میں یہ قدر ضرور مشترک رہی ہے کہ مذہبی طبقات میں جماعت کا پسندیدہ چہرہ بنے۔ منور صاحب کا لب و لہجہ جماعت سے باہر مذہبی حلقوں میں بھی مقبول ہؤا۔ وہ اگر زیادہ عرصہ رہ جاتے تو شاید سیاسی نہ سہی مگر علمی حوالوں سے وابستگانِ جماعت کو اپنی اصل کی طرف لوٹا دیتے۔
    سراج لالہ کے بارے میں شاید ابھی کہنا فاروقی صاحب کیلئے آسان ہو مگر میرا خیال ہے کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ان کی مفاہمانہ روش، سیاسی آؤٹ لک اور ذاتی مزاج کے پیچھے کس نوعیت کا تدبر کام کر رہا ہے۔ یہ شاید وقت ہی بتائے گا۔
    آخری اور اہم بات کہ محترم فاروقی صاحب نے احیا یعنی ”مراجعت” کی بات کی تو گذارش ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے اصل علمی اور دعوتی مقام کا ادراک کرنا ضمنی اور سیاسی مہمات میں سرگرم رہنے کے باوجود بہت ضروری ہے۔ اور اس بات کا احساس اندرونِ جماعت شدت سے پایا جاتا ہے۔ اللہ کرے فاروقی صاحب اور دیگر مخلصین کی حسرتیں دعا میں تبدیل ہوں۔ اور آنے والے کل میں ان کا قلم مثبت تبدیلیوں کی گواہی دے۔۔ استاد سے گزارش ہے کہ میری تحریر کی لغزشوں سے صرفِ نظر فرمائیں۔

    1. مدبرانہ تحاریر اور تبصرے جو خوبصورت اور پرشکوہ الفاظ سے بھرپور ہوں بڑے اچھے لگتے ہیں جناب والا۔ لیکن جو لوگ اسی اور نوے کی دہائی میں کالج اور یونی ورسٹی میں تعلیم پائے ہیں وہ کسی بھی تنظیم کی علمی، دعوتی اور جانے کیسے کیسے نیک مقاصد سے بخوبی واقف ہیں۔
      نوے کی دہائی کے اوائل میں خاکسار کو چند مہینے بڑھے بھائی کیساتھ انجینئرنگ یونی ورسٹی میں اور پھر چند سال پنجاب یونی ورسٹی میں گزارنے کا اتفاق رہا ہے۔ سو جماعت کیساتھ از قسم ‘علمی’ ، ‘مذہیی’ اور ‘تہذیبی ‘ حوالوں کو لکھا دیکھ کر میں ہنس ہی سکتا ہوں۔
      ویسے یہ سوال دلچسپ ہوگا کہ فاروقی صاحب نے پہلی بار کہاں کلاشنکوف چلائی تھی،

  2. قاضی حسین صاحب کی بخشش کے لیے دو کام ہی بہت ہیں
    ایک جہاد افغانستان جو انھوں نے موسس الجہاد شیخ عبداللہ عزام کے ساتھ شروع کیا یاد رہے امریکہ اور سِی آئی اے اس جہاد میں 1980کی دہائی میں جب فصل کٹنے کے لیے تیار تھی تب آئی تھی
    دوسرا کا م اتحاد امت کا درد جسکے لیے انھوں نے مسلکی تعصبات بھلادیے
    منور حسن صاحب نے جماعت اسلامی کو اپنا نشان لوٹا دیا ہے جسے 1970کے بعد جماعت اسلامی خود بھول گئی تھی ۔۔ اور دوسرا ان کا سب سے بڑا کارنامہ (جو میرے نزدیک ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا دھبہ دھو ڈالا ہے )لہجہ کیونکہ ملٹری اسٹیبلشیمنٹ کے لیے کبھی قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے اس لیے وہ لہجہ بڑے بڑے ”محبان وطن ” کو چھبتا ہے
    سراج الحق صاحب کے بارے میں اتنی واضح رائے دینا قبل از وقت ہے ۔۔

  3. تعلیمی اداروں میں متششدانہ کلچر، مساجد پر قبضہ کو اگر الزامات کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا.
    کچھ دیگر جزوی اختلافات کے ساتھ اچھا تجزیہ ہی کہوں گا.

  4. کالم کا نام پڑھ کر سمجھا یہ جماعت اسلامی کے امرا پر کوئی تحقیقی اور مدلل تحریر ہو گی
    مگر یہ تو ایک عام سطحی سوچ سنی سنائی باتوں پر مشتمل تحریر نکلی
    میاں طفیل پر تبصرہ کے کلاشنکوف اور مساجد پر قبضہ کیا جاتا رہا ایک لغو اور بے سروپا بات ہے

  5. یہ صاحب اپنے تئیں خود کو علامہء زماں سممجھتے ہیں. جہل مرکب اور سطحیت سے بھرپور تجزیہ.

    1. سید صاحب، بجا فرمایا ۔
      اب دیکھیں نا کہ محترم جے سالک کے بعد محترم سراج الحق المعروف سبحان اللہ میرے قائد کی سادگی، سے بڑا لیڈر پیدا کیا ہے پاکستان نے؟ یعنی ان کی شان میں بھی گستاخی ؟؟؟؟؟؟
      گھوڑا رے گھوڑا

  6. محترم ۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو قیام کے 75سال مکمل ہو چکے ہیں۔
    آپ اگر پاکستان میں ، عالمی سطح پر اس کی وجہ سے پڑنے والے اثرات پر کچھ
    بے لاگ تحریر لکھ سکیں تو ۪اُمرا سے متعلق مذکورہ بالا تحریر درست طور پرسمجھی جا سکے گی کیونکہ 58سطروں میں ۷۵ سالہ جدو جہد کا احاطہ نا انصافی ہوگا۔

  7. ہم سب کو ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ اختلاف رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ جو آپ کی رائے سے مختلف رائے رکھتا ہو اس کو ہی دشمن مان لیا جائے ۔ آپ کوبھی اسکی رائے سے اختلاف کا پورا حق ہے مگر اسکا اظہار تہزیب و تمیز کے دائرے میں کیجئے ۔ دل میں بغض اور نفرت کے بجائے ، پیار اور تحمل سے گفتگو اپنی دلیل کے ساتھ کیجئے ۔ اسی میں ہمارا بھلا ہے

    جماعت اسلامی کی دعوت کی اصل بنیاد کبھی بھی سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی رہی ہے ۔ جماعت اسلامی کے کام کے اثرات کو سمجھنے کیلئے ایک پرخلوص اور اوپن زہن درکار ہے ۔ پاکستان کی نظریاتی محازوں پر جماعت اسلامی کی جدوجہد، اسکی کامیابیاں اور اسکے دور رس اثرات اکثر لوگوں سے اوجھل ہیں ، جماعت اسلامی کے شدید ترین مخالف بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں اشتراکیت (جس کو تو نئ نسل جانتی بھی نہیں ) اور الحاد کو اکیڈمک طریقے سے جماعت کے لٹریچر نے ہی روکا ہے ، تعلیمی نصاب میں دور رس تبدیلیاں آئیں ۔ پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات کی شمولیت میں تمام مزہبی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کا خصوصی حصہ ہے ۔ جو لوگ جماعت کے نظام تربیت اور اصلاح سے ناواقف ہیں وہ کیسے جماعت کے نظام تربیت پر تبصرہ کر سکتے ہیں ۔ کیا یہ کم ہے کہ جماعت اسلامی کے کسی امیر پر مالی کرپشن کا کوئ الزام نہیں ۔ جماعت انسانوں کی جماعت ہے اور اپنی تمام بشری خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ میدان میں موجود ہے ۔ جماعت اسلامی نے سیٹون کیلئے کسی Winning Horse کو ٹکٹ نہیں دیا ۔ کسی ایسے فرد کو سینیٹر نہیں بنایا کہ جو پیسے کی بنیاد پر سیٹ خریدتا ہو ۔ ایک مسلسل انٹخاب کے زریعے جماعت کے امراٗ آتے رہے ۔ باپ کے بعد بیٹا اور پھر اسکا پوتا والا سلسلہ نہیں رہا ۔ مرد درویش منور حسن آج وہی 120گز کے نکان میں بغیر کسی گارڈز کے رہ رہے ہیں ۔

    کسی نے کہا کہ جماعت اپنی علمی شناخت سے محروم ہوگئ ہے بھائ جماعت کے کتب خانے آکر تو دیکھیں کس طرح نئے موضوعات پر کام ہو رہا ہے ، تراجم ہو رہے ہیں جدید تہزیب ، سیکولزازم ، لبرل ازم پر دلیل کے ساتھ کام ہو رہا ہے بس جو نہیں ہو رہا ہے وہ تحفہ دولہا ، تحفہ دلہن اور کسی دجال کے انتطار پر کام نہیں ہو رہا ہے ۔ جدید زمانے کے چیلنجز پر جتنا علمی و تحقیقی کام جماعت کے مختلف پلیٹ فارمز سے ہو رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ بس اسکی مناسب تشہیر نہیں ۔ مسئلہ Sweeping Comment کا ہے ۔ فرضی تصور کو مستند مان لینے کا ہے

    دیکھیں مولانا مودودی تو صدیوں کے بیٹے ہیں ۔ باقی شاید آپ جن موضوعات کو تلاش کر رہے ہیں وہ جماعت کا میدان کبھی بھی نہیں رہا ۔ آپ فقہ اور مدارس کے نصاب کی بات کریں تو آپ درست کہہ رہے ہیں مگر جیسا میں نے عرض کیا یہ کبھی بھی جماعت کی جولان گاہ نہیں رہی ۔ جماعت کا موضوع ہمیشہ Contemporaneity Issues رہے ہیں ان پر کام دیکھ لیں
    L

  8. I can name scores of Masajid just in Karachi which are captured by force by umbrella organizations of Deoband maktab which were previously run by JI members. And I know for a fact that JI does not fight over Masajid not ever. In Mirpurkhas I know there are Masajid where Maulana Maududi himself has delivered Khutba e Jumma and now JI karkunaan can’t even hold a dars e Quran… May be you are not aware of JI’s Dars e Quran activities because of Deobandi hardline approach in past thirty years that they won’t let JI hold Daroos in their Masajid…

    All in all you didn’t bother to do any homeword… maar di chawal apnay paitee band bhaion ki tarah.

  9. Ajj kal wo log be Tajzia negar bannai ke nakam koshesh karthai hai, jenko g’har k log be koi zarori baath karthai waqth Kamrai sai bahar nekal kar peacahi sai kondy laga dethai hai………………….kia bai-sar o paa bathai tehreer kar k apna awr hamara Waqth zaya kia .

  10. apni banai hui kai masjdon par deobandi qabiz haen aor aj wahan ji dars equraan nahi dey sakti
    sayyad munawwar kisi k kehny se nakam nahi ban sakta bal key ye dekhen k tamam jamaton par 9,11 k baad mushkil waqt tha bary bary ulama jihad ka naam nahi ley sakty they aor sayyad garajta tha baghair kisi khaof k ….mukhalfeen ko sab sey ziada isii ki takleef hy

Leave a Reply