بشیرے میراثی کی واپسی۔۔۔۔۔علی اختر

کہتے ہیں کے بشیرا نام کا ایک میراثی اپنے گاؤں اور میراثی فیملی کو چھوڑ کے شہر آگیا ۔ کام پیدائش سے ایک ہی کرتا چلا آیا تھا تو شہر میں بھی گلے میں ڈھول ڈالے، رنگین کپڑے پہنے ، لمبے بال دھمال کے انداز میں ہلاتے تابڑتوڑ ڈھول بجاتا پھرتا تھا ۔ جیسا کہ ہر کسی کا ایک دن آتا ہے تو اسے بھی ایک دن کسی میوزک ڈائریکٹر نے اپنے اسٹوڈیو میں بھرتی کر لیا جہاں سے بشیرا ترقی کرتے کرتے پہلے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنا اور پھر اپناالگ سٹوڈیو بنا کر میوزک ڈائریکٹر “استاد بشیر خاں” کے نام سے شہرت پائی۔

وقت گزرتا گیا استاد بشیر کی دھنیں عالمی سطح پر مقبول ہوئیں فلموں میں  استاد کا نام میوزک کی مد میں شامل ہونا کامیابی کی ضمانت ہوتا ۔ بات نگار ایوارڈ سے تمغہ حسن کارکردگی تک پہنچی ۔ لالی سے بالی اور پھر ہالی تک کا سفر منٹوں میں طے ہو ۔ آ سکر کے لیے نامزدگی ہوئی ۔ امریکہ منتقلی اور پھر مستقل سکونت اختیار کی۔ گوری میم سے شادی ہوئی ۔ ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند آکسفورڈ نے عطا کی ۔ میلوں ، نمائشوں کے فیتے کٹوائے گئے۔ فراری میں ڈرفٹنگ اور فائیواسٹار ہوٹلوں کے سوئمنگ پول میں ڈبکیاں لگیں ، دنیا کے سفر اور پذیرائی ملی ۔ برطانیہ میں مشرق کی آواز ، جاپان میں مہاتما بودھ کا پرتو اور افغانستان میں واجب القتل قرار دیا گیا۔ کیسینو میں لاکھوں کی شرطیں لگیں اور بیگ سے ڈرگز برآمد ہوئی۔کپڑوں کا ایک انٹرنیشنل برانڈ متعارف کرایا۔ “چودھری بشیر اینڈ سنز” کے نام سے سپر اسٹورز کی ایک چین بھی بنائی۔ پچاس سال گزر گئے ۔ چوہدری بشیر کے گٹھنے سیڑھیاں چڑھتے کٹک کٹک کرنے لگے۔ گوری میم بھی “ٹائی  ٹینک” میں “بلیو ہارٹ” سمندر برد کرنے والی بڈھی جیسی ہو گئی۔ اب چوہدری صاحب کو خدا یاد آیا ۔ حج کیا ۔۔ برف جیسی سفید داڑھی چھوڑی ۔ پانچ وقت نماز شروع کی ۔ وطن واپس آئے ۔ انسانیت کی خدمت کے لئے ٹرسٹ قائم کیا ۔ وعظ و نصیحت کی۔ رمضان ٹرانسمین میں غریبوں کے گردے کے آپریشن کرانے ۔ اپنے گاؤں میں بقیہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ۔ گاؤں میں حویلی تعمیر کی ۔ کنواں کھدوایا ۔ اسکول بنوایا ۔ اپنے ماں باپ کی قبر پر مقبرہ اور “استاد حاجی رشید خاں مرحوم” اور “حجن بی بی اللہ بچائی  خاتون مرحومہ ” کا  کتبہ آویزاں  کیا ۔ مسجد و مدرسے کی تعمیر کی اور حویلی میں آخری ایام یاد الٰہی میں گزارنے لگے۔

تو صاحبو گاؤں میں چوہدری بشیر خاں کی عزت و احترام اور رعب و دبدبے کا یہ عالم کہ جہاں سے وہ کلف لگے سوٹ اور اونچے شملے کی پگڑی میں ملبوس گزرتے ۔ لوگ سلام چوہدری صاحب کہہ کر جھکتے ۔ اہم مسائل کے فیصلے چوہدری صاحب کی حویلی کے صحن میں سنائے جاتے ۔ غریبوں کے علاج ہو کہ  بچیوں کی شادی ، اسکول کی تقسیم اسناد ہو یا الیکشن مہم چوہدری صاحب کی شرکت کے بغیر سب ادھورا تھا ۔

پھر ایک روز چوہدری صاحب کی خوبرو پوتی ان سے ملنے امریکہ سے گاؤں آئی ۔ پہلی بار گاؤں کا ماحول اور کلچر دیکھا ۔ اچھا لگا ۔ چند دن رہنے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں سے باہر کار میں گھومنے نکلی ۔ ایک پراڈو سے گاڑی کا معمولی سا ایکسیڈنٹ ہوا ۔ پراڈو سوار سے بحث، تعارف ، دوستی اور پھر محبت ہوئی ۔ بات شادی تک پہنچی ۔ چوہدری صاحب   لڑکے کے باپ سے ملے ۔ حسب نسب پوچھا ۔ جواب ملا چوہدری فرزند علی نام ہے ۔ پڑوس کے گاؤں میں جاگیر ہے ۔ پیسے کی ریل پیل ہے۔ اچھا اور بااثر خاندان ہے ۔ چوہدری صاحب نے فیصلہ بچوں پر چھوڑ دیا ۔ بقیہ خاندان بھی گاؤں آیا ۔ نکاح کی تاریخ طے ہو گئی ۔ حویلی سجا دی گئی۔

شادی کی محفل تھی ۔ بارات پہنچی ۔ پتا چلا کہ  لڑکی کے دادا شہر سے آئے ہیں ۔ چوہدری صاحب کی نشست کے برابر میں لڑکی کے دادا براجمان ہوئے ۔ تعارف ہوا ۔ کچھ آنکھیں چار ہوئیں ۔ کچھ یادداشت کھنگالی گیئں ۔ آخر کار ایک دوسرے کو پہچان لیا گیا ۔ پرانی شناسائی نکلی ۔ “اوئے بشیرے کنجر! تو کاہے کا چوہدری” سوال ہوا ۔ “اوئے بوٹے مسیح ! مسلی تو کب مسلمان ہوا ” کا جواب ملا ۔ تلخ کلامی ہوئی  “اوئے !لعنتی  دی اولاد ” “اوئے ٹٹی صاف کرن والیو””اوئے میراثیاں دا ٹولہ” “اوئے بلی ۔ کتے کھان والیو” ۔ “اوئے دلیو، شیدے  ، ناجیز اولادو” ۔”اوئے سورا” شرکاء حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔ گالیاں ایسی تھیں کہ  لوگوں کے وضو ٹوٹ جائیں ۔ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے واپس جا رہے تھے ۔ اونچے شملے تھے ۔ کلف لگے سوٹ تھے ۔ سفید ریش نورانی چہرے تھے ۔ دولت تھی ۔ عزت تھی ۔ سوشل ورک تھا ۔ اعزازی ڈگری تھی پر زبان بازاری تھی ۔ ماؤں کے بچے چھوڑ کے آشناؤں کے ساتھ بھاگ جانے کے قصے تھے ۔ ناجائز تعلقات کی داستانیں تھیں ۔ بشیرے میراثی کو چوہدری بشیر خاں بننے میں گو پچاس برس لگے ہوں واپسی پانچ منٹ میں ہوئی  تھی ۔ سب کو سبق مل گیا تھا کہ  زمان و مکاں کی تبدیلی ہو یا پوزیشن و لباس کی ۔ اسے ایوان اقتدار پر براجمان کیا جائے یا عطر میں بسا کر منبر و محراب کا ٹھیکہ دار بنا دیا جائےانسان کی اصل کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور منہ کھولتے ہی اوقات کا پتا چل جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : یہ ایک غیر سیاسی مضمون ہے ۔ کسی بھی صاحب یا “صاحبہ” کے بارے میں دیئے گئے کسی بیان سے اسکا تعلق جوڑنے والے یا مذہبی و سیاسی شخصیات کے اپنے مخالفین سے متعلق دیے گئے بیانات سے تعلق ثابت کرنے والے ۔ جہنمی ملعونوں سے مصنف برات کااعلان کرتا ہے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”بشیرے میراثی کی واپسی۔۔۔۔۔علی اختر

Leave a Reply