معجزہ اور اتفاق۔۔۔داؤد ظفر ندیم

اگر آپ زندگی میں ایک یقین والی روحانی زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کو زندگی کے ہر قدم پر کرامت اور معجزے سے واسطہ پڑتا ہے اور اگر آپ عقل اور سائنس کی بنیاد پر یقین بسر کر رہے ہیں تو ہر بات ایک اتفاق اور حادثہ ہو سکتی ہے۔

میں کافی عرصہ پہلے اپنے روحانی رحجانات کی وجہ سے یقین والی زندگی کے راستے پر گامزن ہوا۔ اس وقت سے مجھے زندگی میں کافی ایسے واقعات سے دوچار ہونا پڑا جن کو میں اپنے پہلے طرز زندگی میں اتفاق یا حادثہ کہہ کر نظر انداز کر دیتا۔

یہ واقعہ بھی میری زندگی میں ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔ میرے بیٹے نے اعلی تعلیم کے لئے پاکستان کے ایک بڑے ادارے کا ٹیسٹ دیا اور منتخب ہوگیا۔ اب مسئلہ ابتدائی فیس اور دیگر اخراجات کا تھا جو تقریبا سات لاکھ کے قریب تھے ،میں اور میری بیوی پریشان تھے کہ ان کا بندوبست کیسے ہو، مگر اپنے بیٹے کو میں نے مطمئن کر دیا تھا کہ فکر نہ کرو انتظام ہو جائے گا۔ میری بیوی نے مجھ سے کافی دفعہ پوچھا۔۔ کہ کیسے انتظام ہوگا؟ میں نے کہا کہ کوشش کر رہا ہوں۔ مگر حقیقت میں کوئی ایسی کوشش نہیں ہو رہی تھی میرے لئے ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ میں کسی سے ذاتی ضرورت کی خاطر پیسے مانگوں۔ میری بیوی نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ کم از کم اپنے بھائی سے بات کرلو۔ اپنے کسی دوست سے بات کرلو میں نے اسے ہوں ہاں میں ٹال دیا۔

میرے روحانی تعلیم کے استاد کہتے ہیں کہ اپنی طلب اپنے اس حقیقی دوست تک محدود رکھو جو آپ کی روح کی گہرائی میں مقیم ہے اور جو اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے وہ خود ایسا انتظام کر دے گا اور ایسے طریقے اور ایسی سمت سے کرے گا جس کے بارے آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ میں نے سوچا کہ میں نے اپنے اس حقیقی دوست کو اپنی ضرورت بتا دی ہے وہ کوئی نہ کوئی انتظام ضرور کرے گا۔ اب محدود وقت تھا وہ آخری تاریخ رفتہ رفتہ قریب آرہی تھی جب پیسے جمع کروانے تھے اور میرے سارے گھر والے پریشان ہو چکے تھے ۔مجھ سے بار بار پوچھا جا رہا تھا کہ میں نے کیا بندوبست کیا۔ میں بڑے اعتماد سے کہہ رہا تھا کہ فکر کی بات نہیں، میں نے کسی کو کہہ دیا ہے یقیناً   انتظام ہو جائے گا۔ مگر یہ کسی کون ہے، یہ بات بتانے کے لئے میں تیار نہیں تھا۔

آخری تاریخ سے ایک دن پہلے میں شام کو گھر پہنچا تو میری بیوی اور بچے نے کہا ۔۔کل آخری تاریخ ہے کیا انتظام ہوا ہے، میں بڑے اعتماد سے بولا فکر نہ کریں ہو جائے گا۔ مگر میری بیوی کا اصرار تھا کہ بتایا جائے کیسے ہو جائے گا۔ میں نے کس سے کہا ہے۔ میں ان سوالوں کا جواب دینے سے گریز کر رہا تھا۔۔

شام کی نماز ہو چکی تھی عشا کے فوری بعد جب ہم گھر والے کھانا کھا چکے تھے کہ نیچے والوں کی بیل کی آواز آئی/ میں بالکونی میں بیٹھا تھا دیکھا تو نیچے والا رہائشی  خود گھر واپس آیا تھا ،یہ ہمارا مالک مکان تھا جو ہمارے نیچے والے پورشن میں رہتا تھا۔ میں اپنی چارپائی پر بیٹھ گیا، میں بڑے انہماک سے اپنی روح کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کر رہا تھا، میری کوشش تھی کہ میں اپنی ضرورت کی شدت کے بارے میں جلد از جلد بتا سکوں۔

ابھی میں اس ارتکاز ذہنی کی ورزش میں مصروف تھا، کہ اتنے میں ہمارے گھر کی بیل بجی۔ میں نے جا کر دوازہ کھولا۔ یہ ہمارے مالک مکان کی بیوی تھی، وہ اندر آئی اور میری بیوی کے پاس بیٹھ گئی اس نے اپنا پرس کھولا اور اس میں سے پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور ساتھ کچھ اور نوٹ نکالے۔ ہم میاں بیوی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے کہا کہ میں نے نئی کمیٹی شروع کی ہے آج پہلی کمیٹی جمع ہوئی ہے تقریبا ساڑھے سات لاکھ روپے ہیں، پہلی کمیٹی ہم کو ملی تھی ،کیونکہ ہم نے ڈالی ہے ،ہمیں  فی الحال اس پیسے کی ضرورت نہیں تھی، میں نے سوچا کہ یہ کمیٹی آپ لوگوں کو دے دوں ۔۔۔آپ کے بیٹے کا داخلہ ہوا ہے آپ کو پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ ابھی میرے خاوند آئے ہیں ان سے مشورہ کیا تو انھوں نے میرے فیصلے کی تائید کی۔ اب آپ کی کمیٹی ہم نے ڈال لی ہے آپ نے ہر مہینے بیس ہزار روپے دینے   ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالی کہاں سے سبب پیدا کرتا ہے ہم لوگ تصور نہیں کر سکتے اس لئے کہتے ہیں کہ اگر زندگی میں ہر نئے واقعہ کا تجزیہ کرو تو آپ کو معجزہ یا کرامت لگتا ہے وگرنہ اتفاق یا حادثہ قرار دے کر آگے بڑھ جاؤ۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply