تراشیدم، پرستیدم، شکستم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعدیہ بٹ

ایک زمانہ تھا کہ شاعری بڑی نایاب جنس لگتی تھی. اس کا وجود محض کتابوں میں اور اطلاق صرف فلموں میں ہوتا تھا. میں تو شاعری کا سوچ کر اس وقت ایسے آہیں بھرتی تھی جیسے اب چاند پر جانے والوں کو دیکھ کر بھرتی ہوں. سچ مچ کا شاعر تو کبھی زندگی میں دیکھا ہی نہیں تھا. ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقین تھا کہ کبھی ملاقات ہو بھی نہیں سکے گی. غالب، اقبال، فیض و فراز کے بارے میں ہمارے خیالات اتنے مقدس تھے کہ مریدوں کے اپنے پیروں کے بارے میں بھی کیا ہی ہوں گے. زندگی اسی یقین کے ساتھ گزر رہی تھی کہ اب شاعر پیدا ہونے بند ہو چکے ہیں.

میرے تایا نے شاعری کا عمومی اور غالب کا کیا ہی عمدہ ذوق پایا تھا. مجھے معلوم تھا کہ ان کے کئی دوست شاعر ہیں. اسی وجہ سے اپنے تایا کو ہمیشہ رشک اور ان کے دوستوں کی طرف سے تحفتاً بھجوائی کتابوں کو حسد کی نظر سے دیکھتے ہی نوجوانی گزری. زمانہء طالب علمی میں اکیڈمی لیول پر جب ایک دوست پر ایک صاحب عاشق ہوئے اور “پریم پتر” بھی دیا. اچھے وقتوں کی بات تھی سو اس پریم پتر کو باقیوں نے تو خیر جس بھی نظر سے دیکھا کم از کم میں نے بڑی حسرت سے دیکھا. سچ یہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی سچ مچ کا پریم پتر میری نظر سے گزرا بھی نہیں تھا. اس دوست نے اس وقت اس کو پھاڑ کے پھینک دیا مگر اس کے بعد جب کہ اس کا کچھ عرصہ آہوں اور سسکیوں میں گزرا تو مجھے معلوم ہوا کہ دکھیا شاعری کا اصلی زندگی میں اطلاق کہاں پر ہوتا ہے. یونیورسٹی میں بہت کوشش کی کہ ایک آدھ لو اسٹوری میں بھی بنا لوں مگر برا ہو والدین کی تربیت کا. میرے والدین نے تربیت میں کمی چھوڑی نہ اس کے والدین نے، جس کے ساتھ لو اسٹوری بنانے کا ارادہ تھا. الغرض آج ہم دونوں شادی شدہ ہیں. بس شادی ایک دوسرے سے نہیں ہوئی الحمد للہ۔ سو آج تک ایک دوسرے کی عزت جاری ہے اور بات یہاں تک نہیں گئی کہ شاعری کی نوبت آتی.

یونیورسٹی کے ہی ایام تھے جب موبائل نیا نیا عام ہو رہا تھا. ایس ایم ایس فارورڈ کرنا اس زمانے کی عیاشی تھی. اور ایک قسم کا نیا انڈور کھیل تھا. انہی میسجز میں شاعری بھی آنا شروع ہوئی. ابتدأ میں تو یہ ایک کمال کا احساس تھا. کجا کہ شاعری پڑھنے کے لیئے کتابیں خریدنی پڑتی تھی. اور اگر کہیں سے کتاب تحفے میں مل جاتی تو ایسا لگتا جیسے ہم اپنی بساط میں کوہِ طور سے ٹین کمانڈمنٹس لے آئے ہوں. اور کہاں کہ اب شاعری انگلیوں کی پوروں پر آ ٹھہری. لیکن پھر رفتہ رفتہ ان میسجز کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی اور افادیت کم ہوتی گئی. یہاں تک کہ شاعری پڑھنے کو لے کر جو حسرت و یاس ہمارے دل میں تھی وہ ناپید ہو گئی. البتہ شعرا سے عقیدت ابھی باقی تھی. زمانے کی برائی یہی ہے کہ رکتا نہیں. شاید یہی اس کی اچھائی بھی ہے. سو زمانہ اپنی رفتار سے چلتا رہا. اور ہم فیس بک کے دور میں داخل ہوئے. یہاں بھی ابتدائی ایام میں چونکہ حروف کی بندش تھی تو میں اچھے شعر ہی چھاپتی. ویسے بھی ان دنوں سیاست، دین، لبرل ازم، بین الاقوامی حالات جیسی بحثیں عام نہیں تھیں. تقریباً سب ہی لوگ مسلمان تھے. سب ہی لوگ. پاکستانی تھے. کل ملا کے دو تفریق تھی. ایک شیعہ سنی اور ایک پی پی ـ نونی. مگر یہ خلیج اتنی وسیع نہیں تھی کہ اس کی بنأ پر خون حلال ہوتے یا عزت حرام. بات نکل جائے تو پھر دور تلک جاتی ہے اس لیے بات سمیٹ دیتے ہیں. تو بات ہو رہی تھی شاعری کی. رفتہ رفتہ فیس بک بڑی ہوتی گئی. اور الفاظ کی بندش ختم ہو گئی. میں شعروں کی جگہ غزلیں پوسٹ کرنے لگی. لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ میرے اس عشق کا گمان ہونے لگا لوگوں کو جو کہ کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی. بھلے وقت تھے اور عاشقی معشوقی وغیرہ چھپانے والی چیزیں تھی. سو میں باز آ گئی. ویسے بھی اسی دوران اتنی شاعری پڑھ لی اور چھاپ دی تھی کہ اب شعروں میں نیا پن ختم ہو گیا تھا.

اب دل میں ایک ہی حسرت تھی کہ کسی سچ مچ کے شاعر کو دیکھا جائے. سوچ سوچ کر سمجھ آئی کہ شاعر کا ملنا تو کارِدارد ہو گا البتہ کسی چھوٹی موٹی شاعرہ کو کھوجا جا سکتا ہے. میں نے فیس بک کے ابتدائی ایام میں یہ پالیسی رکھی تھی کہ صرف جاننے والوں کو فرینڈ لسٹ میں رکھنا ہے. پھر جب شاعرہ کی تلاش شروع ہوئی تو اس پالیسی کو تھوڑا وسعت دینی پڑی اور انجان خواتین کو داخلِ دفتر کرنے لگی (آنے والے دنوں میں اس پالیسی کو مزید وسعت دے کر اکاؤنٹ سے ذاتی تصاویر ہٹا دی گئیں اور اکاؤنٹ اوپن کر دیا گیا کہ لو بھئی ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا)۔ ڈھونڈنے والوں کو تو خدا مل جاتا ہے تو شاعرہ کیا چیز تھی. سو مجھ پر بھی وہ وقت آیا کہ ایک دن بالآخر میں ایک شاعرہ پھنسانے میں کامیاب ہو گئی. بس یہی وہ مقامِ سدرہ تھا جس پر آ کے ہمارے بال و پر جھڑ گئے. کاش انسان کو بھی جبرئیل کی طرح معلوم ہوا کرے کہ اس کے لیئے کس مقام کو مقامِ سدرہ چنا گیا ہے. سب سے پہلے تو ٹوٹ بٹوٹ کی طرح مجھے یہ جان کر صدمہ ہوا کہ شاعرہ کی بھی ناک، کان، گلا، منہ، ہونٹ، دو بازو، دو ہاتھ اور دو ٹانگیں بمعہ پیر ہوتی ہیں. قلوپطرہ کے مجسمے پر پڑنے والی کاری ضرب یہ تھی کہ میں آغاز نوجوانی میں اور وہ جوانی کی دہلیز پر تھی تو حسن کی لائن میں وہ دو بندے پیچھے ہی کھڑی تھی. یہ احساس بالکل ایسا ہی تھا جیسے نصرت فتح علی کا آفرین آفرین سننے کے بعد کوک اسٹوڈیو کا آفرین آفرین سنا ہو. بہرحال ان کے سراپے سے گزر کر ان کے کلام تک پہنچے لیکن کلام تک جانے سے پہلے متاثرین کلام پر نظر پڑی. ہر تبصرہ میں واہ واہ پڑھی تو شکر ادا کیا کہ کلام سراپے سے مختلف ہے. لیکن جب اس واہ واہ سے پیچھے آ کے کلام ڈھونڈا تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ داد کس کلام پر تھی. کیونکہ دلی کے جو مشاعرے کتابوں میں مذکور تھے ان میں تو بڑے سے بڑے شاعر کو داد کے لیے ترستے پڑھا تھا. مگر یہاں جس کلام پر داد دی جا رہی تھی، اس میں مقامِات آہ و فغاں تو کئی تھے مگر واہ کا کوئی مقام نظر نہ آیا. یوں کہیے کہ قلوپطرہ کا مجسمہ پاش پاش ہو گیا. پاسِ حیا کا زمانہ تھا سو ان کو بلاک نہ کیا. دیکھتے دیکھتے وقت یہاں تک گیا کہ وہ شاعرہ روز اپنا کلام اپنی تصویر کے ساتھ چھاپنے لگی. آفرین ہے ان لوگوں پر جو دونوں کو داد دیتے تھے. میری تو بس ہو گئی. سیدھا ان کے انباکس میں جا دھمکی اور سوال داغا کہ آپ کو ڈر نہیں لگتا اپنی تصویریں پبلک میں شیئر کرتے. اللہ گواہ ہے میرا مقصد محض یہ تھا کہ لوگ تصویروں کا غلط استعمال کر لیتے مگر وہ بدقسمتی سے میری بات “درست” ہی سمجھی. جواب نہیں دیا. بلاک کر دیا. یوں اذیت کا ایک باب ختم ہوا. لیکن شعر و شاعر سے میری فینٹاسی بھی مفقود ہو گئی.

آج کل سستے کال پیکجز سے محبتیں آسان اور رشتے مشکل ہو گئے ہیں. ساتھ ہی ساتھ شاعری نے بھی برا وقت دیکھا ہے. آج تو محبت جیسے جذبے کے سی کلاس ریپلیکا کے نام پر فون پر باتیں کرنے والے جو بھی بات کریں، اس کو شاعری کہنے لگے ہیں. ایسی شاعری نہ صرف فیس بک پر پوسٹ ہو رہی ہے بلکہ داد و تحسین بھی سمیٹ رہی ہے. آج کل آپ کو ایسے شعر عام ملیں گے “کہو کیسے کہوں تم سے — مجھے تم سے محبت ہے”، “بہت مصروف ہوتے جا رہے ہو — تم ہم سے دور ہوتے جا رہے ہو” (برا ہو میری تربیت کا کہ میں بے معنی شعر لکھ کر بھی بے وزن نہیں لکھ سکتی اور اصلی بے وزن اس لیے نہیں لکھ سکتی کہ کہیں ان کا شاعر پڑھ کر میری جان کو نہ آ جائے)۔ عرض بس اتنی سی ہے کہ خدارا شاعری پر رحم کریں. تنہائی میں ایک دوسرے سے کہا ہر جملہ شاعری نہیں. اور ہر واردات عشق کی بھی نہیں ہوتی. لیکن بالفرض جو آپ پر گزر رہی ہے، وہ کچھ کچھ عشق جیسا ہی ہے تو آپ سے پہلے کئی شعرأ پر وہ کیفیت گزر چکی. آپ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ان سے خیالات مستعار لے لیں. اس سے ادب اور شاعری بھی زندہ ہو جائے گی (اور شاید آپ کا رشتہ بھی بچ جائے) اور کتاب سے جو دوری ہماری زندگیوں میں در آئی ہے وہ بھی کم ہو سکے گی.

Advertisements
julia rana solicitors

(سعدیہ سلیم بٹ پیشے سے بینکار اور مشتاق احمد یوسفی کی پیروکار ہیں۔ کشمیر کی وادی سے لاھور تک کا ذہنی سفر انھوں نے کتاب کے سہارے کیا)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply